انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پانی بند کرو رات کے وقت عبداللہ بن زیاد کا حکم پہنچا کہ اگرابھی لڑائی شروع نہیں ہوئی ہے تواسی وقت جب کہ یہ حکم پہنچے پانی پرقبضہ کرلو اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں کے لیئے پانی بند کردو؛ اگرسپاہ شمر کے زیرکمان آگئی ہے توشمر کواس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے، عمروبن سعد نے اس حکم کے پہنچتے ہی عمروبن الحجاج کوپانچ سوسواردے کرساحلِ فرات پرمتعین کردیا، اتفاقاً دن میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ہمراہیوں نے پانی اپنے لیئے نہیں بھراتھا ان کے تمام برتن خالی ہوگئے تھے، رات کوجب پانی بھرنا چاہا تومعلوم ہوا کہ دشمنوں نے پانی پرقبضہ کرلیا ہے، امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عباس بن علی رضی اللہ عنہ کوپچاس آدمیوں کے ہمراہ پانی لینے کوبھیجا کہ زبردستی پانی لائیں؛ مگران ظالموں نے پانی نہ لینے دیا، اب دم بدم پیاس کی شدت نے تکلیف پہنچانی شروع کی، یہ ایسی اذیت تھی جوتیروشمشیر کی اذیت سے زیادہ سوہانِ روح تھی، امام حسین علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے علی بن حسین بیمار تھے اور خیمے میں پڑے رہتے تھے، وہ اور ان کی بہن اُم کلثوم یہ دیکھ کرصبح کودشمنوں کا حملہ ہوگا اور تمام عزیزواقارب جواس وقت موجود ہیں، قتل وشہید ہوں گے، رونے لگے ان دونوں کی رونے کی آواز سن کرحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ خیمہ کے اندر آئے اور کہا کہ دشمن ہمارے قریب ہی خیمہ زن ہے، تمہارے رونے کی آواز سن کروہ خوش ہوں گے اور ہمراہیوں کے دل تھوڑے ہوں گے، تم کوہرگز ہائے وائے کچھ نہیں کرنی چاہیے ان کوبہ مشکل خاموش کیا اور باہر آکر فرمایا کہ واقعی بچوں اور عورتوں کے ہمراہ لانے میں ہم سے بڑی غلطی ہوئی ہے ان کوہرگز ہمراہ نہ لانا چاہیے تھا، اس کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ہمراہیوں کواپنے پاس بلاکر کہا کہ تم لوگ یہاں سے جس طرف کومناسب سمجھو، چلے جاؤ، تم کوکوئی بھی کچھ نہ کہے گا؛ کیوں کہ دشمنوں کوصرف میری ذات سے بحث ہے، تمہارے چلے جانے کوتووہ اور بھی غنیمت سمجھیں گے، میں تم سب کواجازت دیتا ہوں کہ اپنی اپنی جان بچالو، ہمراہیوں نے یہ سن کرکہا کہ ہم ہرگز ہرگز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے، ہم سب آپ کے اوپرقربان ہوجائیں گے اور جب تک ہمارے دم میں دم ہے، آپ کوآزار نہ پہنچنے دیں گے؛ اسی شب تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص طرماح بن عدی جواس نواح میں آیا تھا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ابنِ سعد کے لشکروں کا حال سن کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ تنہا میرے ساتھ چلیں، میں آپ کوایک ایسے راستے سے لے چلوں گا کہ کسی کومطلق اطلاع نہ ہوسکے گی اور اپنے قبیلہ بنی طے میں لے جاکر پانچ ہزار آدمی اپنے قبیلہ کے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا، آپ ان پانچ ہزار سے جوچاہیں کام لیں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابھی ان سب سے کہا تھا کہ مجھ کوتنہا چھوڑ کرتم سب چلے جاؤ توانھوں نے اس بات کوگوارا نہیں کیا، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ان سب کوچھوڑ کرتنہا اپنی جان بچاکر نکل جاؤں، ان کے ہمراہیوں نے کہا کہ ہم لوگوں کوتووہ کچھ کہیں گے نہیں، جیسا کہ آپ ابھی فرماچکے ہیں، وہ توتنہا آپ کے دشمن ہیں؛ لہٰذا آپ اپنی جان بچانے کے لیئے نکل جائیں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عزیزوں اور قریبی رشتہ داروں کے بغیر کوئی چیز بھی گوارا نہیں ہوسکتی، میں بغیرآپ لوگوں کی معیت کے اپنی جان بچانے کے لیے ہرگز نہ جاؤں گا؛ چنانچہ اس شخص کوشکریہ کے ساتھ واپس کردیا۔ جب صبح ہوئی توشمرذی الجوشن اور عمروبن سعد صفوفِ لشکر کوآراستہ کرکے میدان میں آئے، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے ہمراہیوں کومناسب ہدایات کے ساتھ متعین کیا، شمرذی الجوشن نے عبیداللہ، جعفر، عثمان، عباس کومیدان میں بلواکر کہا کہ تم کوامیر بن زیاد نے امان دے دی ہے؛ انھوں نے کہا کہ ابنِ زیاد کی امان سے خدا کی امان بہتر ہے، شمراپنا سامنھ لیکر رہ گیا؛ بعض روایات کے موافق آپ کے ہمراہ اس وقت جب کہ لڑائی ۰۱/محرم الحرام سنہ۶۱ھ کی صبح کوشروع ہوتی ہے، بہتر آدمی موجود تھے، بعض روایات کے موافق ایک سوچالیس اور بعض کے موافق دوسوچالیس تھے؛ بہرحال اگربڑی سے بڑی تعداد یعنی دوسوچالیس بھی تسلیم کرلیں تودشمنوں کی ہزارہا جرار افواج کے مقابلے میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے، امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ہمراہیوں کومناسب مقامات پرکھڑا کرکے اور ضروری وصیتیں فرماکر اونٹ پرسوار ہوئے اور کوفی لشکر کی صفوف کے سامنے تنہا گئے، ان لوگوں کوبلند آواز سے مخاطب کرکے ایک تقریر شروع کی اور فرمایا: کہ اے کوفیو! میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تقریر کوئی نتیجہ میرے لیئے اس وقت پیدا نہ کرے گی اور تم کوجوکچھ کرنا ہے تم اس سے باز نہ آؤ گے؛ لیکن میں مناسب سمجھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ کی حجت تم پرپوری ہوجائے اور میرا عذر بھی ظاہر ہوجائے، ابھی اسی قدر الفاظ کہنے پائے تھے کہ آپ کے خیمے سے عورتوں اور بچوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، ان آوازوں کے سننے سے آپ کوسخت ملال ہوا اور سلسلہ کلام کوروک کراورلاحول پڑھ کرآپ نے کہا کہ عبیداللہ بن عباس مجھ سے سچ کہتے تھے کہ عورتوں اور بچوں کوہمراہ نہ لے جاؤ؛ مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے ان کے مشورے پرعمل نہ کیا؛ پھرلوٹ کراپنے بھائی اور بیٹے کوپکار کرکہا کہ ان عورتوں کورونے سے منع کرو اور کہو کہ اس وقت خاموش رہو، کل خوب دل بھرکررولینا؛ انھوں نے عورتوں کوسمجھایا اور وہ آوازیں بند ہوئیں، حضرت حسین علیہ السلام نے پھرکوفیوں کی طرف متوجہ ہوکر اپنی تقریر اس طرح شروع کی کہ: لوگو! تم میں سے ہرایک شخص جومجھ سے واقف ہے اور ہرایک وہ شخص بھی جومجھ کونہیں جانتا، اچھی طرح آگاہ ہوجائے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیٹا ہوں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا میری ماں اور جعفر طیار رضی اللہ عنہ میرے چچا تھے، اس فخر نسبتی کے علاوہ مجھ کویہ فخر بھی حاصل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کواور میرے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کوجوانانِ اہلِ جنت کا سردار بتایا ہے؛ اگرتم کومیری بات کا یقین نہ ہوتوابھی تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابی رضی اللہ عنہم اجمعین زندہ ہیں، تم ان سے میری اس بات کی تصدیق کرسکتے ہو، میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی، میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور میں نے کسی مؤمن کا قتل نہ کیا، نہ آزار پہنچایا؛ اگرعیسیٰ علیہ السلام کا گدھا بھی باقی ہوتا توتمام عیسائی قیامت تک اس گدھے کی پرورش اور نگہداشت میں مصروف رہتے، تم کیسے مسلمان اور کیسے اُمتی ہوکہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کوقتل کرنا چاہتے ہو، نہ تم کوخدا کا خوف ہے نہ رسول کی شرم ہے، میں نے جب کہ ساری عمر کسی شخص کوبھی قتل نہیں کیا توظاہر ہے کہ مجھ پرکسی کا قصاص بھی نہیں؛ پھربتاؤ کہ تم نے میرے خون کوکس طرح حلال سمجھ لیا ہے، میں دنیا کے جھگڑوں سے آزاد ہوکر مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پڑا تھا، تم نے وہاں بھی مجھ کونہ رہنے دیا؛ پھرمکہ معظمہ کے اندر خانۂ خدا میں مصروفِ عبادت تھا تم کوفیوں نے مجھ کووہاں بھی چین نہ لینے دیا اور میرے پاس مسلسل خطوط بھیجے کہ ہم تم کوامامت کا حقدار سمجھتے اور تمہارے ہاتھ پربیعتِ خلافت کرنا چاہتے ہیں، جب تمہارے بلانے کے موافق میں یہاں آیا تواب تم مجھ سے برگشتہ ہوگئے، اب بھی اگرتم میری کرو تومیں صرف یہ چاہتا ہوں کہ مجھ کوقتل نہ کرو اور آزاد چھوڑدو؛ تاکہ میں مکہ یامدینہ میں جاکر مصروفِ عبادت ہوجاؤں اور خدائے تعالیٰ خود اس جہان میں فیصلہ کردے گا کہ کون حق پرتھا اور کون ظالم تھا۔ اس تقریر کوسن کر سب خاموش رہے اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا، تھوڑی دیرانتظار کرنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: خدا کا شکر ہے کہ میں نے تم پرحجت پوری کردی اور تم کوئی عذر پیش نہیں کرسکتے؛ پھرآپ نے ایک ایک کا نام لے کرآواز دی کہ اے شبت بن ربیعی، اے حجاج بن الحسن، اے قیس بن الاشعث، اے حربن یزید تمیمی، اے فلاں فلاں کیا تم نے مجھ کوخطوط نہیں لکھے تھے اور مجھ کوباصرار یہاں نہیں بلوایا تھا؟ اور اب جب کہ میں آیا ہوں توتم مجھ کوقتل کرنے پرآمادہ ہو، یہ سن کران سب لوگوں نے کہا کہ ہم نے آپ کوکوئی خط نہیں لکھا اور نہ آپ کوبلایا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہ خطوط نکالے اور الگ الگ پڑھ کرسنائے کہ یہ تمہارے خطوط ہیں؛ انھوں نے کہا کہ خواہ ہم نے یہ خطوط بھیجے یانہیں بھیجے؛ مگراب ہم علی الاعلان آپ سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، یہ سن کرامام حسین علیہ السلام اونٹ سے اُترے اور گھوڑے پرسوار ہوکر لڑائی کے لیئے مستعد ہوگئے، کوئی لشکر سے اوّل ایک شخص میدان میں مقابلہ کی غرض سے نکلا؛ مگراس کا گھوڑا ایسا بدکا کہ وہ گھوڑے سے گرا اور گرکرمرگیا، اس کیفیت کودیکھ کرحربن یزید تمیمی اس انداز سے جیسے کوئی حملہ آور ہوتا ہے، اپنی ڈھال اپنے سامنے کرکے اور گھوڑا دوڑا کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ڈھال پھینک دی، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا توکس لیے آیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں وہ شخص ہوں جس نے آپ کوہرطرف سے گھیر کراور روک کرواپس نہ جانے دیا اور اس میدان میں قیام کرنے پرمجبور کیا ،میں اپنی اس خطا کی تلافی میں اب آپ کی طرف سے کوفیوں کا مقابلہ کروں گا، آپ میرے لیئے مغفرت کی دُعا کریں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کودُعا دی اور بہت خوش ہوئے۔ شمرذی الجوشن نے عمروبن سعد سے کہا کہ اب دیرکیوں کررہے ہو؟ عمروبن سعد نے فوراً ایک تیرکمان جوڑکر حسین علیہ السلام کے لشکر کی طرف پھینکا اور کہا کہ تم گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے، اس کے بعد کوفیوں کے لشکر سے دوآدمی نکلے، امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بہادر نے مقابلہ پرجاکر دونوں کوقتل کردیا؛ پھراسی طرح لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا، دیرتک مبازرہ کی لڑائی ہوتی رہی اور اس میں کوفیوں کے آدمی زیادہ مارے گئے؛ پھراس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک آدمی نے کوفیوں کی صفوں پرحملہ کرنا شروع کیا، اس طرح بہت سے کوفیوں کا نقصان ہوا، حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہیوں نے آلِ ابی طالب کواس وقت تک میدان میں نہ نکلنے دیا، جب تک کہ وہ ایک ایک کرکے سب کے سب نہ مارے گئے، آخر میں مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے آلِ علی پرسبقت کی، ان کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیٹے علی اکبر نے دشمنوں پررستمانہ حملے کیئے اور بہت سے دشمنوں کوہلاک کرنے کے بعد خود بھی شہید ہوگئے، ان کے قتل ہونے کے بعد امام حسین علیہ السلام سے ضبط نہ ہوسکا اور آپ رونے لگے؛ پھرآپ کے بھائی عبداللہ ومحمد وجعفر وعثمان نے دشمنوں پرحملہ کیا اور بہت سے دشمنوں کومار کرخود بھی ایک ہی جگہ ڈھیر ہوگئے، آخر میں امام حسین علیہ السلام کے ایک نوعمر بیٹے محمدقاسم نے حملہ کیا اور وہ بھی مارے گئے؛ غرض کہ امام حسین کے لیئے کربلا میں اپنی شہادت اور دوسری تمام مصیبتوں سے بڑھ کرمصیبت یہ تھی کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کوشہید ہوتے ہوئے اور اپنی بیٹیوں اور بہنوں کوان روح فرسا نظاروں کا تماشا دیکھتے ہوئے دیکھا، امام حسین علیہ السلام کے ہمراہیوں اور خاندان والوں نے ایک طرف اپنی بہادری کے نمونے دکھائے تودوسری طرف وفاداری وجان نثاری کی بھی انتہائی مثالیں پیش کردیں، نہ کسی شخص نے کمزوری وبزدلی دکھائی، نہ بے وفائی وتن آسانی کا الزام اپنے اوپر لیا۔ حضت امام حسین علیہ السلام سب سے آخر تنہا رہ گئے، خیمہ میں عورتوں کے سوا صرف علی بوسط معروف بہ زین العابدین جوبیمار اور چھوٹے بچے تھے، باقی رہ گئے تھے، عبیداللہ بن زیاد ظالم نے یہ حکم بھی بھیج دیا تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک کاٹ کران کی لاش گھوڑوں سے پامال کرائی جائے کہ ہرایک عضو ٹوٹ جائے۔