انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبداللہ بن زیدؓ نام ونسب عبداللہ نام، ابو محمد کنیت، "صاحب الاذان" لقب، قبیلۂ خزرج سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے،عبداللہ بن زید بن ثعلبہ بن عبدریہ بن ثعلبہ بن زید بن حارث بن خزرج ان کے والد جن کا نام زید بن ثعلبہ تھاصحابی تھے۔ اسلام بیعت عقبہ میں شامل تھے۔ غزوات اوردیگر حالات ۱ھ میں تعمیر مسجد نبوی کے بعد آنحضرتﷺ نے نماز کے طریقۂ اعلان کے متعلق صحابہؓ سے مشورہ کیا، لوگوں نے مختلف رائیں دیں، کسی نے کہا کہ نماز کے وقت مسجد پر علم بلند کردیا جائے، کسی نے تجویز پیش کی کہ ناقوس بجایا جائے، لیکن اس میں نصاریٰ کی مشابہت تھی، اس لئے آنحضرتﷺ نے اس کو ناپسند فرمایا؛ تاہم اس وقت اسی پر اتفاق ہوا اور آپ نے اجازت دے دی رات کو حضرت عبدؓ اللہ نے خواب دیکھا کہ ایک شخص ناقوس لئے کھڑا ہے، پوچھا بیچوگے؟ بولا کیا گرو گے؟ کہا نماز کے وقت بجائیں گے، اس نے کہا اس سے بہتر ترکیب بتاتا ہوں اوراذان بتائی ،صبح اٹھ کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچےاور اس بشارت غیبی کا ذکر کیا ،فرمایا یہ خواب بالکل سچا ہے، تم اٹھ کر بلالؓ کو بتاؤ، وہ اذان پکاریں، حضرت بلالؓ نے اذان دی تو حضرت عمرؓ گھر سے چادر گھسٹیتے ہوئےنکلے اورآنحضرتﷺ سے کہا خدا کی قسم میں نے بھی خواب میں یہی الفاظ سنے تھے، آنحضرتﷺ نے دو مسلمانوں کے اس حسن اتفاق پر خدا کا شکر ادا کیا۔ (جامع ترمذی :۳۷،ومسند:۱/۴۳) اذان کے لئے حضرت بلالؓ کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت عبداللہؓ سے زیادہ بلند آواز تھے،چنانچہ صحیح ترمذی میں ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے حضرت عبداللہ ؓ سے فرمایا کہ تم بلالؓ کو اذان کے وہ الفاظ بتاؤ تو اس کے ساتھ یہ بھی کہا: فانہ اندی وامد صوتا منک وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہیں اس مقام پر یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ اذان جو درحقیقت نماز کا دیباچہ اوراسلام کا شعار اعظم ہے،حضرت عبداللہؓ کی رائے سے قائم ہوئی، ہاتف غیب کارویائے حق آنحضرتﷺ کا اس کو صحیح سمجھنا اورپھر مسلمانوں میں بالاجماع اس پر عمل در آمد ہونا یہ وہ فضیلت و شرف ہے جس سے حضرت عبداللہؓ قابلِ رشک ٹھہرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عمرؓ نے آنحضرتﷺ کو یہ مشورہ دیا تھا؛ چنانچہ صحیح بخاری سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے؛ لیکن اصل یہ ہے کہ اس میں اذان کے الفاظ کا ذکر تک نہیں، ابو داؤد میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے خواب کو بیس دن تک چھپایا جب حضرت بلالؓ نے اذان دی تو اس وقت آنحضرتﷺ سے بیان کیا، ارشاد ہوا تم نے پہلے خبر کیوں نہ دی؟ عرض کیا عبداللہؓ سبقت کرچکے تھے،اس لئے مجھے شرم معلوم ہوئی، ( فتح الباری:۲/۶۶) یہ روایت قطع نظر اس کے کہ حضرت عمرؓ کی فطرت کے بالکل مخالف ہے، فحواے حدیث کے بھی موافق نہیں،اذان کے متعلق جس قدر روایتیں مذکور ہیں اس میں قدر مشترک یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے دن کو جلسہ میں مشورہ کیا اوراسی میں ایک بات طے پاگئی ،حضرت عبداللہؓ بن زید کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ناقوس بجنا طے پاگیا تھا کہ رات کو انہوں نے خواب دیکھا اورفجر کے وقت اذان پکاری گئی،اس بنا پر حضرت عبداللہ ؓ بن زید کی حدیث حضرت بن عمرؓ کی حدیث مندرجہ بخاری کی گو یا تفسیر و تشریح ہے، امام بخاری کو بھی یہ حدیث معلوم تھی؛ لیکن چونکہ ان کی شرائط کے لحاظ سے کم مرتبہ تھی، اس لئے انہوں نے صحیح میں درج نہ کی۔ (فتح الباری:۲/۶۳) حقیقت یہ ہے کہ ان روایات سے کسی کے تقدم وتاخر کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے عمداً اس بحث سے گریز کیا ہے ورنہ طبرانی کی روایت کے مطابق تو حضرت ابوبکرؓ نے بھی اذان کا خواب دیکھا تھا، امام غزالی نے وسیط میں لکھا ہے دس شخصوں سے زیادہ اس میں شریک تھے، حبلی نے شرح تنبیہ میں ۴ اشخاص کی تعین کی ہے، مغلطائی نے بالکل صحیح لکھا کہ یہ تمام روایتیں ناقابل استناد ہیں صرف حضرت عبداللہ بن زید اور بعض طرق سے حضرت عمرؓ کا قصہ پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے(فتح الباری:۲/۶۳)لیکن ان دونوں صاحبوں میں بھی حضرت عبداللہ بن زیدؓ کی روایت متعدد طرق سے ثابت ہے اورصحابہؓ کی ایک جماعت نے ان سے اس قصہ کو نقل کیا ہے۔ (فتح الباری:۲/۶۳) تمام روایتوں سے ثابت ہوگیا کہ اذان کا خواب جس کس نے بھی پہلے دیکھا ہو لیکن وہ اور اس کی تعبیر جس ذات گرامی سے منسوب ہوئی وہ حضرت عبداللہؓ بن زید ہیں اوراسی وجہ سے وہ "صاحب اذان" کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس عظیم الشان فخر سے مفتخر ہونے کے بعد سعادت ابدی کی اور بہت سی راہوں سے بھی بہر ہ یاب ہوئے،چنانچہ ۲ھ میں غزوہ بدر پیش آیا، انہوں نے اس میں شرکت کا شرف حاصل کیا، اس کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ غزوۂ مکہ کی شاندار فتح میں بنو حارث بن خزرج کا علم انہی کے ہاتھ میں تھا۔ (استیعاب:۱/۳۶۸) حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ نے بکریاں تقسیم فرمائیں تو یہ پاس ہی کھڑے تھے ان کو کچھ نہ دیا، لیکن قسمت میں ایک لازوال دولت لکھی تھی، آپ نے بال بنوائے تھے کچھ ان کو عنایت کئے باقی اور لوگوں میں تقسیم ہوئے، یہ بال جو مہندی سے رنگے ہوئے تھے ان کے خاندان میں تبرکاً محفوظ رہے۔ (مسند:۴/۴۲) وفات ۳۲ھ میں بعمر ۶۴ سال انتقال فرمایا، حضرت عثمانؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ،بعض لوگوں کا خیال ہے کہ احد میں شہید ہوئے تھے اور ثبوت میں یہ واقعہ پیش کرتے ہیں کہ عبداللہؓ کی صاحبزادی جب حضرت عمرؓ کے ہاں گئیں تو کہا کہ میرے باپ بدر میں شریک تھے اوراحد میں شہید ہوئے،حضرت عمرؓ نے کہا تو پھر جو مانگنا ہو مانگو، انہوں نے کچھ مانگا اورکامیاب واپس آئیں۔ (اصابہ:۴/۷۲) یہ حلیہ کی روایت ہے،لیکن مسند اورتمام کتب رجال میں اس کے خلاف روایتیں ہیں اس لئے یہ کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہے، اس کے ماسوا یہ خیال حاکم کا ہے اورانہوں نے مستدرک میں خود اس کے خلاف رائے ظاہر کی ہے۔ اولاد ایک صاحبزادی تھیں جن کا ابھی اوپر ذکر ہوا، ایک بیٹے تھے جن کا نام محمد تھا آنحضرتﷺ کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔ فضل وکمال امام بخاری نے لکھا ہے کہ ان سے صرف ایک حدیث اذان کے متعلق مروی ہے،امام ترمذی بھی اسی کی تائید کرتے ہیں، لیکن حافظ ابن حجر کو ۶،۷ حدیثیں ملی تھیں جن کو انہوں نے علیحدہ ایک جزء میں جمع کردیا ہے۔ (تہذیب :۵/۲۲۴) ان کے راویان حدیث کے زمرہ میں حسبِ ذیل نام ہیں، محمد، عبداللہ بن محمد ،سعید بن مسیب، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ۔ اخلاق عسرت و تنگی میں خدا کی راہ میں ایثار نفس، اخلاق کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے،حضرت عبداللہؓ کے پاس بہت قلیل جائداد تھی، جس سے وہ اپنے بال بچوں کی پرورش کرتے تھے،لیکن انہوں نے کل کی کل صدقہ کردی، ان کے باپ نے آنحضرتﷺ سے آکر واقعہ بیان کیا، آپ نے ان کو بلاکر فرمایا کہ خدانے تمہارا صدقہ قبول کیا؛ لیکن اب باپ کی میراث کے نام سے تم کو واپس دیتا ہے،تم اس کو قبول کرلو۔ (اسد الغابہ:۲/۲۳۳)