انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حاطب کے قاصد کی گرفتاری مجاہدین سفرِ جہاد کی تیاری کرنے لگے، باوجود رازدار ی برتنے کے ایک صحابیؓ سے لغزش ہوگئی اور انہوں نے قریش کو ان تیاریوں کی اطلاع کردی ، حضرت حاطبؓ بن بلتعہ بڑی سوجھ بوجھ کے مالک مہاجر صحابی تھے ، انہیں شاہ مصر مقوقس کے پاس بطور سفیر جانے کا شرف بھی حاصل ہوچکا تھا، حضورﷺکی تیاریوں سے واقف ہوکر انہوں نے ایک خط مکہ سے ذی اثر سرداروں میں سے صفوان بن امیہ ، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابو جہل کے نام لکھا اور اسے ایک خاتون کے ذریعہ روانہ کیا، یہ مکہ کی ایک مغنیہ سارہ نامی تھی جو مختلف قبائل میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدینہ بھی آئی اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس جارہی تھی ، ابن اثیر نے اس کانام کنود اور قبیلہ مزینہ سے تعلق بتلایا ہے ، ایک روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس کی اطلاع دی ، دوسری روایت ہے کہ حضرت حاطبؓ کے غلام نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! حاطب ضرور دوزخ میں جائے گا ، ارشاد ہوا نہیں وہ نارِ جہنم سے محفوظ ہے ؛کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھا پھر غلام نے حضرت حاطبؓ کے خفیہ خط کے بارے میں بتلایا، یہ سنتے ہی حضورﷺنے حضرت زبیرؓ ، حضرت علیؓ کو فوری مکہ کی طرف روانہ فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ اس عورت کی تلاش میں جائیں جو انہیں نخلستان خاخ کے مقام پر کجاوے میں سوار ملے گی جس کے پاس سے خط لے کر آئیں، چنانچہ وہ فوراً روانہ ہوگئے اور اس خاتون کو پکڑلیا؛ لیکن اس نے خط کی موجودگی سے انکار کیا، جب اسے برہنہ کر کے تلاشی لینے کی دھمکی دی گئی تو چوٹی کے جُوڑے میں سے خط نکال کر دے دیا، ان شہ سواروں نے مسجد نبوی میں حضور اکرم ﷺ کے سامنے خط پیش کیا ، آپﷺ نے حکم دیا کہ سب کے سامنے خط پڑھا جائے، اس خط کے دو متن ملتے ہیں ، زرقانی نے جو خط نقل کیا ہے وہ حسب ذیل ہے : " تحقیق محمد ( ﷺ ) غزوہ کے لئے نکلنے والے ہیں ‘ معلوم نہیں کہ کس طرف قصد ہے تمہاری طرف یا کسی اور طرف، تم اپنی فکر کرو" قسطلانی نے خط کا متن اس طرح تحریر کیا ہے : " ائے گروہ قریش ! رسول اللہ ﷺ رات کی مانند تم پر ایک ہولناک لشکر لے کر آنے والے ہیں جو سیلاب کی طرح بہتا ہوگا، خدا کی قسم اگر رسول اللہ ﷺ بلا لشکر کے خود تن تنہا بھی تشریف لے جائیں تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی مدد فرمائیگا اور فتح و نصرت کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ اسے ضرور پورا کرے گا ، پس تم اپنے انجام کی سوچ لو" یہ خط سنتے ہی حضرت عمرؓ نے عرض کیا حاطب نے اللہ اور اس کے رسول کی خیانت کی ہے ، حکم ہو تواس کی گردن اُڑادوں، آنحضرت ﷺ نے حضرت حاطبؓ سے دریافت کیا تو وہ جواب دینے کے لئے اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے ؛لیکن ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ، آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں ، کانپتے ہوئے ہونٹوں سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں ، نہ تو میں مرتد ہوا ہوں اور نہ ہی میرا ایمان اللہ اور اس کے رسول پر متزلزل ہوا ہے، بات صرف اتنی ہے کہ میری قریش سے کوئی رشتہ داری نہیں، صرف حلیفانہ تعلق ہے، میرے بیوی بچے ابھی تک مکہ میں ہیں ، میں نے چاہا کہ ان پر کچھ احسان کروں تاکہ میرے اہل و عیال کی حفاظت ہو ، حضور ﷺ نے فرمایا’‘ حاطب نے سچ بتادیا؛ لیکن حضرت عمرؓ نے پھر بھی عرض کیا کہ یہ خیانت ہے، مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اُڑادوں، لیکن حضور ﷺ نے فرمایا: " اے عمر ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی آئندہ سر زد ہونے والی ہر خطا معاف فرمادی ہے اور پھر فرمایا: جو چاہو کرو میں نے تمہاری مغفرت کردی اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ حاطب اہلِ بدر میں سے ایک ہیں، یہ سن کر حضرت عمرؓ رونے لگے، ان کی زبان پر تھا " اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں" حضرت حاطبؓ کی لغزش کے باوجود حضور ﷺ کا در گزر اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ غلطی سے پچھلی خدمات یکسر نہیں مٹ جاتیں ، اس واقعہ کے بارے میں سورہ ٔ ممتحنہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں : (ترجمہ) " ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! (میرے اور خود ) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں ،رسول کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کے لئے اورمیری رضامندی کی طلب بن سکتے ہو ( تو ان سے دوستیاں نہ کرو) تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ طور پر بھیجتے ہو اور مجھے اس چیز کا علم ہے جو تم نے چھپایا وہ اور وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا ، تم میں جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقینا راہ راست سے بھٹک جائے گا " ( سورۂ ممتحنہ : ۱) نیابت حضرت عبداﷲ ؓ ابن اُم مکتوم:حضور ﷺ کی روانگی: ابن سعد کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے مدینہ میں حضرت عبداللہؓ ا بن ام مکتوم کو نائب مقرر فرمایا اور ۱۰ رمضان المبارک ۸ ہجری یوم بدھ بعد نماز عصر مجاہدین کے ساتھ روانہ ہوئے ، مدینہ سے نکلتے وقت دس ہزار کا لشکر آپﷺ کے ساتھ تھاجس کی تفصیل یہ ہے : سلسلہ نشان قبیلہ کا نام وطن تعداد سواروں کی تعداد شمولیت کا مقام ۱ مہاجرین مدینہ ۷۰۰ ۳۰۰ مدینہ ۲ انصار مدینہ ۴۰۰۰ ۵۰۰ مدینہ ۳ بنو مزینہ اطراف حجاز ۱۰۰۰ ان میں ۱۰۰زرہ پوش مدینہ ۴ بنو اسلم حجاز ۴۰۰ ۲۰ راستہ میں ۵ بنو اشجع نجد ۳۰۰ تعداد نا معلوم راستہ میں ۶ بنو تمیم نجد ۱۰ تعداد نا معلوم راستہ میں ۷ بنوعمروبن کعب(خزاعہ) حجاز ۵۰۰ تعداد نا معلوم راستہ میں ۸ بنو ضمرہ اور سعد حجاز ۲۰۰ تعداد نا معلوم قدید ۹ بنو غفار حجاز ۴۰۰ تعداد نا معلوم راستہ میں ۱۰ بنو سلیم حجاز ۷۰۰ تعداد نا معلوم قدید ۱۱ بنو لیث حجاز ۲۵۰ ۷۰۰ راستہ میں ۱۲ بنو جہنیہ حجاز ۱۴۰۰ ۵۰ مدینہ ۱۳ دیگر قبائل اطراف حجاز ۱۴۰ تعداد نا معلوم راستہ میں جملہ ۱۰۰۰۰ حضرت زبیر ؓ بن عوام کو صلصل کے مقام سے دوسو سواروں کے ساتھ آگے روانہ فرمایا، انہوں نے پانی کے مراکز پر قبضہ کر لیا، ازواج مطہرات میں اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ اور اُم المومنین حضرت میمونہؓ ساتھ تھیں، وہ رمضان کامہینہ تھا، اس لئے سفر سے پہلے منادی کرا دی گئی کہ جس کا دل چاہے وہ روزہ رکھے اور جس کا دل نہ چاہے وہ روزہ نہ رکھے لیکن حضور اکرمﷺ اور بعض صحابہ روزہ رکھ رہے تھے، جب یہ قافلہ کَدید کے چشمہ پر پہنچا تو حضور ﷺ نے سواری پر بیٹھے بیٹھے عصر کے وقت پانی سے افطار کیا،اس کے باوجود کچھ لوگوں نے روزہ نہیں توڑا تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ نافرمان ہیں ، اس کے بعد اس سفر میں آپﷺ نے آخر رمضان تک روزے نہیں رکھے، ابن حزم کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے اس کے بعدماہ رمضان میں کبھی سفر نہیں کیا، دشمن کو اپنی آمد سے بے خبر رکھنے کے لئے حضور ﷺنے عام راستہ سے ہٹ کر نا معلوم اور چکر دار راستہ اختیار فرمایا چشمہ کدید پر پہلا پڑاؤ فرمایا اورپھربعد میں مکہ سے ایک منزل دور " مرا لظہران" (وادی فاطمہ) پہنچ کر پڑاؤ کیا، ذوالحلیفہ کے قریب مکہ سے اونٹوں کا ایک مختصر قافلہ آتا دکھائی دیا جو حجفہ میں لشکر اسلام سے آکر مل گیا، انہیں دیکھ کر حضور اکرمﷺ بہت خوش ہوئے اور فرمایا " میں آخر الانبیاء ہو ں اور آپ آخر المہاجرین" یہ حضور ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب اور ان کے اہل و عیال تھے، ہجرت سے قبل مکہ میں قیام کے دوران حضرت عباسؓ نے حضور ﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی تھی؛ لیکن حضورﷺنے ارشاد فرمایا تھا کہ ائے چچا آپ اسی جگہ مقیم رہیں ، اللہ تعالیٰ آپ پر سلسلہ ہجرت ختم کر دے گا جس طرح مجھ پر نبو ت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ، حضرت عباسؓ نے گو کہ ابتداء ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا؛ لیکن مصلحتاً قریش سے چھپا ئے رکھا تھا ، اب وہ مکہ سے آکر مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو گئے اور اپنے اہل و عیال کو مدینہ روانہ کر دیا، ایک روایت کی بموجب مکہ اور مدینہ کے درمیان نیق عقاب ( نقب العقاب ) اور دوسری روایت کی بموجب ابواء کے مقام پر آپﷺ کے دو قریبی رشتہ دار اسلام لانے کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ان میں ایک آپﷺ کے تایا زاد بھائی ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب اور دوسرے آپﷺ کے پھوپھی زاد بھائی ( حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے)عبداللہ بن ابی امیہ ( جو ام المومنین حضرت اُم سلمہ ؓ کے سوتیلے بھائی تھے) ، حضور ﷺ نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا، ابو سفیان نے بھی حضرت حلیمہؓ سعدیہ کا دودھ پیا تھا اور اعلان نبوت سے قبل تک وہ حضور ﷺ سے بہت محبت کرتے تھے ؛لیکن اعلان نبوت کے ساتھ ہی وہ حضور ﷺ کے جانی دشمن ہو گئے اور بیس سال تک اشعار میں حضور ﷺکی ہجو کرتے رہے، عبداللہ بن اُمیہ بھی اعلان نبوت کے بعد بہت مخالف ہو گیا تھا اور اس نے بھی حضور ﷺ پر بہت سے مظالم کئے، اس لئے حضورﷺ نے ان سے ملنے سے انکار فرمایا تھا، لیکن اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ نے کہا کہ اگر آپﷺ نے انہیں معاف نہیں کیا تو یہ " اشقی الناس " ہو جائیں گے، اُم المومنین نے ان کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ حضور ﷺ تو دشمنوں سے بھی اچھا برتاؤ کرتے ہیں تو پھر یہ رشتہ دار کیوں حضور ﷺ کی عنایات سے محروم رہیں، ابو سفیان نے کہا کہ اگرمیرا قصور معاف نہیں کیا گیا تو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر صحرا میں نکل جاؤ ں گا اور بھوک اور پیاس سے تڑپ کر جان دے دوں گا، حضرت علیؓ نے ان دونوں کو مشورہ دیا کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طرح حضور ﷺ کے سامنے جا کر وہی کہیں جو انھوں نے کہا تھا، چنانچہ وہ دونوں حضور ﷺکی خدمت میں حاضرہو کر عرض کئے: (ترجمہ ) " قسم ہے اللہ کی بے شک اللہ نے آپﷺ کو ہم پر فضیلت دی اوربلا شبہ ہم قصور وار ہیں" ( سورۂ یوسف : ۹۱) یہ سن کر حضور ﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام ہی کے الفاظ میں جواب دیا : (ترجمہ) " آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں ، اللہ تمہارا قصورمعاف کرے ، وہ سب مہر بانوں سے بڑھ کرمہر بان ہے" (یوسف : ۹۲) ان دونو ں نے اسلام قبول کر لیا اور زندگی بھر اپنے سابقہ کرتوت پر پشیمان رہے