انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت امام حسنؓ کی خلافت کے قابلِ تذکرہ واقعات بیعت حضرت حسنؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے وفات کے وقت دریافت کیا گیا تھا کہ آپؓ کے بعد حضرت امام حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے؟حضرت علیؓ نے فرمایا: میں اپنے حال میں مشغول ہوں،تم جس کو پسند کرو اُس کے ہاتھ پر بیعت کرلینا،لوگوں نے اس کو حضرت امام حسن ؓ کے متعلق اجازت سمجھ کر اُن کے ہاتھ پر بیعت کی،سب سے پہلے قیس بن سعد بن عباد نے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا،اس کےبعد اورلوگ بھی آ آ کر بیعت کرنے لگے،بیعت کے وقت حضرت امام حسنؓ لوگوں سے اقرار لیتے جاتے تھے کہ: ’’میرے کہنے پر عمل کرنا،جس سے میں جنگ کروں تم بھی جنگ کرنا اور جس سے میں صلح کروں تم بھی اُس سے صلح کرنا۔‘‘ اس بیعت کے بعد ہی اہل کوفہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے کہ ان کا ارادہ جنگ کرنے کا نہیں معلوم ہوتا،حضرت امیر معاویہؓ کو جب حضرت علیؓ کی شہادت کاحال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے لئے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا اوراگرچہ وہ اہل شام سے فیصلہ حکمین کے بعد ہی بیعت خلافت لے چکے تھے لیکن اب دوبارہ پھر تجدید بیعت کرائی ،قیس بن سعدؓ جب حضرت امام حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ میں کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ نیز مُلحدین سے جہاد کرنے پر بیعت کرتا ہوں، حضرت امام حسنؓ نے اُن سے فرمایا تھا کہ قتال وجہا د وغیرہ سب کتاب اللہ اورسنتِ رسول اللہ میں شامل ہیں، ان کے علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں، اسی فقرہ سے اہل کوفہ کو مذکورہ سرگوشی کا موقع ملا تھا اوراُن کو شبہ ہوگیا تھا کہ یہ جنگ کی طرف مائل نہیں ہوتے ،حضرت امیر معاویہؓ تجدید بیعت کے کام سے فارغ ہوکر اور ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر دمشق سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت امام حسنؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ صلح جنگ سے بہتر ہے اور مناسب یہی ہے کہ آپ مجھ کو خلیفۂ وقت تسلیم کرکے میرے ہاتھ پر بیعت کرلیں،حضرت امام حسنؓ نے یہ سن کر کہ حضرت امیر معاویہؓ کوفہ کا عزم رکھتے ہیں،چالیس ہزار کا لشکر ہمراہ لیا اور کوفہ سے روانہ ہوئے منزلیں طے کرتے ہوئے جب مقام دیر عبدالرحمن میں پہنچے تو قیس بن سعدؓ کو بارہ ہزار کی جمعیت سے بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ کیا،ساباطِ مدائن میں پہنچ کر لشکر کا قیام ہوا تو وہاں کسی نے یہ غلط خبر مشہور کردی کہ قیس بن سعدؓ مارے گئے، حضرت امام حسنؓ نے یہاں ایک روز قیام کیا تاکہ سواری کے جانوروں کو آرام کرنے کا موقع مل جائے،اس جگہ آپؓ نے لوگوں کو جمع کرکے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اورحمد وثنا کے بعد کہا کہ: ’’لوگو!تم نے میرے ہاتھ پر اس شرط کے ساتھ بیعت کی ہے کہ صلح وجنگ میں میری متابعت کروگے،میں خدائے برتر وتوانا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھ کو کسی سے بغض وعداوت نہیں،مشرق سے مغرب تک ایک شخص بھی مجھ کو ایسا نظر نہیں آتا کہ میرے دل میں اُس کی طرف سے رنج و ملال اورنفرت وکراہت ہو،اتفاق واتحاد،محبت وسلامتی اورصلح واصلاح کو میں نا اتفاقی اوردشمنی سے بہر حال بہتر سمجھتا ہوں‘‘