انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بغاوت طبرستان مازیار بن قارن رئیس طبرستان، عبداللہ بن طاہر گورنرخراسان کا ماتحت اور خراج گزار تھا، اس کے اور عبداللہ بن طاہر کے درمیان کسی بات پرناراضی پیدا ہوئی، مازیار نے کہا کہ میں براہِ راست خراج دارالحلافہ میں بھیج دیا کروں گا؛ لیکن عبداللہ بن طاہر کوادا نہ کروں گا، عبداللہ بن طاہر اس بات کواپنے وقارِ گورنری کے خلاف سمجھ کرناپسند کرتا تھا، چند روز تک یہی جھگڑا رہا اور مازیار خراج براہِ راست دارالخلافہ میں بھیجتا اور وہاں سے عبداللہ بن طاہر کے وکیل کووصول ہوتا رہا۔ جنگ بابک کے زمانے میں افشین کوآزادانہ خرچ کرنے کا اختیار تھا اور اس کے پاس برابر معتصم ہرقسم کا سامان اور روپیہ بھجواتا رہتا تھا، افشین اپنی فوج کے لیے نہایت کفایت شعاری کے ساتھ سامان اور روپیہ خرچ کرتا تھا، باقی تمام روپیہ اور سامان اپنے وطن اشروسنہ (علاقہ ترکستان) کوروانہ کردیتا تھا۔ یہ سامان جوآذربائیجان سے بھیجا جاتا تھا، خراسان سے ہوکر گزرتا تھا، عبداللہ بن طاہر کوجب یہ معلوم ہوا کہ افشین برابر اپنے وطن کوسامانِ رسد، سامانِ حرب اور روپیہ بھجوارہا ہے تواس کوشبہ پیدا ہوا، اس نے ان سامان لے جانے والوں کوگرفتار کرکے قید کردیا اور تمام سامان وروپیہ چھین کراپنے قبضے میں رکھا اور افشین کولکھ بھیجا کہ آپ کے لشکر سے کچھ لوگ اس قدر سامان لیے ہوئے جارہے تھے، میں نے اُن کوگرفتار کرکے قید کردیا ہے اور سامان اپنی فوج میں تقسیم کردیا ہے؛ کیونکہ میں ترکستان پرچڑھائی کی تیاری کررہا ہوں؛ اگرچہ ان لوگوں نے یہ کہا کہ ہم چور نہیں ہیں اور اپنے آپ کوآپ کا فرستادہ بتایا؛ لیکن ان کا یہ بیان قطعاً غلط اور جھوٹ معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ اگریہ چور نہ ہوتے توآپ مجھ کوضرور اطلاع دیتے، اس خط کودیکھ کرافشین بہت شرمندہ ہوا اور عبداللہ بن طاہر کولکھا کہ وہ لوگ چور نہیں ہیں؛ بلکہ میرے ہی فرستادہ تھے، عبداللہ بن طاہر نے افشین کے اس خط کودیکھ کراُن لوگوں کوچھوڑ دیا؛ مگرسامان جواُن سے چھینا تھا، وہ نہیں دیا، اس امر کی ایک خفیہ رپورٹ عبداللہ بن طاہر نے خلیفہ معتصم کے پاس بھی بھیج دی، جس پربہ ظاہر خلیفہ معتصم نے کوئی التفات نہیں کیا، حقیقت یہ تھی کہ افشین اپنی ریاست وسلطنت اشروسنہ میں قائم کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے وہ پیشتر سے تیاری کررہا تھا، جب افشین جنگ بابک سے فارغ ہوکر سامرا میں واپس آیا تو اس کوتوقع تھی کہ خلیفہ معتصم مجھ کوخراسان کی گورنری عطا کرے گا اور اس طرح مجھ کوبہ خوبی موقع مل جائے گا کہ میں اپنی سلطنت وحکومت کےلیے بہ خوبی تیاری کرسکوں؛ لیکن خلیفہ معتصم نے اس کوآرمینیا وآذربائیجان کی حکومت پرمامور کیا اور اُمید خراسان کا خون ہوگیا۔ اس کے بعد ہی جنگ روم پیش آگئی، افشین کواس لڑائی میں بھی شریک ہونا پڑا؛ مگراس جنگ میں معتصم خود موجود تھا اور اس نے ابتدا میں اگرکسی کوسپہ سالاراعظم بنایا تھا تووہ عجیف تھا جواپنے آپ کوافشین کا مدمقابل اور رقیب سمجھتا تھا، عجیف کا جوانجام ہوا وہ اوپر مذکور ہوچکا ہے، اب افشین نے ایک اور تدبیر سوچی، وہ یہ کہ مازیار حاکم طبرستان کوپوشیدہ طور پرایک خط بھیجا اور عبداللہ بن طاہر کے مقابلہ پراُبھارا، اس خط کا مضمون یہ تھا: دین زردشتی کا کوئی ناصرومددگار میرے اور تمےارے سوا نہیں، بابک بھی اسی دین کی حمایت میں کوشاں تھا؛ لیکن وہ محض اپنی حماقت کی وجہ سے ہلاک وبرباد ہوا اور اس نے میری نصیحتوں پرمطلق توجہ نہ کی، اس وقت بھی ایک زریں موقع حاصل ہے، وہ یہ کہ تم علمِ بغاوت بلند کردو، یہ لوگ تمہارے مقابلے کے لیے میرے سوا یقیناً کسی دوسرے کومامور نہ کریں گے، اس وقت میرے پاس سب سے زیادہ طاقتور اور زبردست فوج ہے، میں تم سے سازش کرلوں گا اور ہم دونوں متفق ہوجائیں گے، اس کے بعد ہمارے مقابلہ پرمغاربہ، عرب اور خراسانیوں کے سوا اور کوئی نہ آئے گا، مغاربہ کی تعداد بہت ہی قلیل ہے، ان کے مقابلہ کے لیے ہماری فوج کا ایک معمولی دستہ کافی ہوگا، عربوں کی حالت یہ ہے کہ ایک لقمہ ان کودے دو اور پتھروں سے اُن کا سرخوب کچلو، خراسانیوں کا جوش دودھ کا سا اُبال ہے، اُ,ھا اور فرو ہوگیا، تھوڑے سے استقلال میں ان کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، تم اگرذرا ہمت کرو تووہی مذہب جوملوکِ عجم کے زمانے میں تھا؛ پھرقائم وجاری ہوسکتا ہے۔ مازیار اس خط کوپڑھ کرخوش ہوا اور اس نے علمِ بغاوت بلند کردیا، رعایا سے ایک سال کا پیشگی خراج وصول کرکے سامانِ حرب کی فراہمی اور قلعوں کی مرمت ودرستی سے فارغ ہوکر بڑی سے بڑی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوبیٹھا، عبداللہ بن طاہر کوجب مازیار کی بغاوت وسرکشی کا حال معلوم ہوا تواس نے اپنے چچا حسن بن حسین کوایک لشکر کے ساتھ اس طرف روانہ کیا، ادھر معتصم کواس بغاوت کا حال معلوم ہوا تواس نے دارالخلافہ اور دوسرے مقامات سے عبداللہ بن طاہر کی امداد کے لیے فوجوں کی روانگی کا حکم صادر کیا؛ مگرافشین کواس طرف جانے کا حکم نہیں دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ مازیار گرفتار ہوکر عبداللہ بن طاہر کی خدمت میں پیش کیا گیا، عبداللہ بن طاہر نے اس کومعتصم کی خدمت میں روانہ کردیا اور معتصم نے اس کوجیل خانے بھیج دیا، حسن بن حسین نے جب مازیار کوگرفتار کیا تواتفاق سے افشین کا مذکورہ اور اس کے علاوہ اسی مضمون کے اور بھی خطوط جوافشین نے مازیار کے پاس بھیجے تھے، مازیار کے پاس سے برآمد ہوئے، عبداللہ بن طاہر نے یہ خطوط بھی خلیفہ معتصم کے پاس بھیج دیئے؛ مگرخلیفہ معتصم نے ان خطوط کولے کراپنے پاس بہ حفاظ رکھ تولیا اور بہ ظاہر کوئی التفات اس طرف نہیں کیا، یہ واقعہ سنہ۲۲۴ھ کا ہے۔