انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عقائد کے باب میں حدیث سے تمسک اسلام میں سب سے زیادہ اہم بات عقائد کی ہے، عقائد کے گردہی شریعت کا پورا دائرہ کھینچتا ہے، عقائد صحیح ہوں تواعمالِ صالحہ بھی قبولیت پائیں گے؛ ورنہ ہوسکتا ہے کہ کسی عمل کاکوئی وزن نہ ٹھہرے۔ جس قدر موضوع اہم ہو اس کے مناسب اس کے لیے مضبوط ترین دلائل کی ضرورت ہوگی، عقائد کے باب میں حدیث سے تمسک صرف اسی صورت میں ہوسکے گا کہ وہ کم از کم خبر عزیز کے درجہ میں ہو، خبرواحد سے اگرکوئی عقیدہ بنے گاتواسی درجہ کا کہ اس کا منکر کافر نہ ٹھہرے، عقائد قطعیہ کے لیئے دلائل بھی قطعی درکار ہوتے ہیں، اسلام کے بنیادی عقائد وہی ہوسکتے ہیں جویاقرآن کریم سے قطعی الدلالت طریق سے ثابت ہوں یاکوئی حدیث متواتر انہیں ایسی دلالت اور وضاحت سے پیش کرے جس میں کسی دوسرے معنی کودخل نہ ہو؛ گویہ تواتر لفظی نہ ہو، معنوی ہو، اس تواتر کے انکار کی بھی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں، محدثِ کبیر ملاعلی القاری لکھتے ہیں: "ولایخفی ان المعتبر فی العقائد ھوالادلۃ الیقینیۃ والاحادیث الاحاد لوثبتت انماتکون ظنیۃ اللہم الااذاتعددت طرقہ بحیث صار متواتراً معنویا فحینئذ قدیکون قطعیا"۔ (شح فقہ اکبر:۱۲۲، مجتبائی) ترجمہ: اور مخفی نہ رہے کہ عقائد کے لیئے اعتبار دلائل یقینیہ کا ہی ہوتا ہے اور احادیث احاد اگرصحیح ثابت بھی ہوجائیں توظنی ہی رہیں گی، ہاں اگرایک مضمون متعدد احادیث (یاکثرتِ طرق) سے ثابت ہوکہ متواتر معنوی ہوجائے تواس صورت میں یہ دلیل بھی قطعی ٹھہرے گی۔ اب حدیث کی مختلف قسموں کا بیان لیجئے: یہ بات پہلے آچکی ہے کہ علم دلائل یقینیہ سے پیدا ہوتا ہے، اس کے لیئے ظنی امور کافی نہیں ہوسکتے، اس بات کے لیئے کہ کوئی خبرعلم ویقین تک پہنچے اور اس کا انکار ممکن نہ رہے دلیل متواتر کی ضرورت ہوتی ہے، سوسب سے پہلے حدیث متواتر کا درجہ ہے اور یہاں پہلے اسی کی تعریف کی جاتی ہے۔