انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسئلہ خلافت میں اختلاف مسلمانوں میں بعض لوگ ایسے بھی پیدا ہوئے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء یعنی جانشینوں کے متعلق عجیب عجیب قسم کے اعتراضات کا ایک طو مار باندھ دیا ہے، اورکسی کو مجرم اور ظالم اورکسی کو بے گناہ و مظلوم ٹھہرایا ہے حالانکہ کسی انسان کو خلافت کے متعلق دم مارنے یا اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل ہی نہیں ہے،خدائے تعالی نے زمین کی بادشاہت اور خلافت کا کسی کو عطا کرنا یا کسی سے چھین لینا صرف اپنی ہی طرف منسوب رکھا ہے، بحسب ظاہر یا استعارہ کے طور پر بھی خلافت عطا کرنے یا چھیننے کے کام کو کسی انسان کی طرف منسوب نہیں فرمایا، یہی وجہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خلیفہ کے انتخاب خلیفہ کے تعین وتقرر کی نسبت خود کوئی حکم نہیں دیا، قرآن کریم نے یہ بتا دیا کہ خلیفہ کو کیا کام کرنا چاہئے کن باتوں سے بچنا اور ڈرنا چاہئے،یہ بھی بتا دیا کہ کون کون سے اعمال صالح ہیں جو مستحق خلافت بنادیتے ہیں،لیکن یہ نہیں بتایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ یعنی ان کے بعد مسلمانوں پر حکمراں کون شخص ہوگا، روزہ ،نماز ، حج،زکوٰۃ اورحقوق العباد وحقوق اللہ کی ذرا ذرا سی تفصیل بھی شریعت اسلام نے واضح اور مبرہن طریق پر بیان فرمادی؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کا تعین نہ فرمایا،اس میں حکمت یہی تھی کہ خدائے تعالی جس کو چاہتا ہے خلافت عطا فرماتا ہے اور وہی خود ایسے سامان مہیا فرمادیتا ہے کہ مستحق خلافت کو خلافت مل جائے،خلافت کے حاصل کرنے کا کام چونکہ انسانی کوششوں اور انسانی تدبیروں سے بالا تر ہے،لہذا خدائے تعالی نے خود اپنے فعل سے بتادیا کہ ان سب سے پہلے مسلمانوں میں کون مستحق خلافت تھا،اور کون اس کے بعد اس مسئلہ میں لڑنا جھگڑنا اور اعتراض کرنا بالکل فضول اورگویا خدائے تعالیٰ پر معترض ہونا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس شخص کو خلیفہ بننا چاہئے تھا؟ اس کا جواب صاف ہے کہ اس کو جو خلیفہ بن سکا ،یہ کہنا کہ جو خلیفہ بن گیا وہ خلیفہ بننے کا مستحق نہ تھا دوسرے لفظوں میں یہ کہنا ہے کہ خلیفہ خود خدائے تعالیٰ نہیں بناتا؛ کہ خدا جس کو خلیفہ بنانا چاہتا تھا اس کو نہیں بناسکا، اورانسانی تدبیروں سے نعوذباللہ خدائے تعالیٰ شکست کھاگیا،پس ان لوگوں کی حالت جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت پر معترض ہیں اس شخص سے بہت مشابہ ہے جو کسی جج کی عدالت سے اپنے منشا کے خلاف فیصلہ سن کر کچہری سے نکلتا اورباہر آکر جج کو برابھلا کہتا ہے؛ لیکن جج پھر جج ہے اور یہ مجرم مجرم ہے، جج کا حکم اس ناراض ہونے والے شخص کے بڑ بڑانے سے نہیں رک سکتا، اسی طرح خدائے تعالی نے اپنا فیصلہ خلافت کے متعلق صادر فرما دیا اورجس کو خلیفہ بنانا چاہا اس کو خلیفہ بنادیا، اب اس خدائی فیصلہ کے خلاف اگر کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہوا کرے واللہ یوتی ملکہ من یشاء۔