انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ابراہیم بن سعدؒ نام ونسب نام ابراہیم ،کنیت ابو اسحاق اور شجرۂ نسب یہ ہے،ابراہیم بن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف بن عبد عوف بن عبد بن الحارث بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی (تہذیب التہذیب:۱/۱۲۱)قریش کے خاندان بنوزہرہ سے نسبی تعلق تھا،مشہور صحابی رسول حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی تمام اولاد اپنے جد امجد کی طرف منسوب ہوکر عوفی کہلاتی ہے،اسی وجہ سے ابراہیم بھی عوفی کی نسبت سے مشہور ہوئے۔ (اللباب فی تہذیب الانساب:۲/۵۸۲) ولادت،وطن اورخاندان دیارِ اقدس مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے،ان کے سنہ ولادت کے بارے میں صریح طور پر صرف امام احمد کے صاحبزادے عبداللہ کا یہ بیان ملتا ہے کہ ولد ابراہیم بن سعد سنہ ثمان ومائۃ (تاریخ بغداد:۶/۸۳) ابراہیم بن سعد ۱۰۸ ھ میں پیدا ہوئے ان کی عمر اورسنہِ وفات کے بارے میں علماء بہت مختلف رائیں رکھتے ہیں، اس سلسلہ کی تمام روایتوں کو جمع کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی پیدائش ۱۰۸ھ ،۱۰۹ھ یا ۱۱۰ھ میں ہوئی،ان میں اوّل الذکر کے تائیدی بیانات زیادہ ہیں۔ ان کے خاندان کی علمی فضیلت اور علوئے شان محتاجِ بیان نہیں ہے،ان کے جدا علیٰ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف،ان جانباز صحابہ کرام میں تھے جن کا کیسۂ فضل وکمال نہ صرف علمی زروجواہر سے مالا مال تھا؛بلکہ ان کی اصابت فکر ونظر،صدق وعفاف انفاق فی سبیل اللہ اور ترحم وفیاضی خلفائے ثلاثہ کے عہد میں مسلم خیال کی جاتی تھی ،اس طرح قاضی ابراہیم کے ہم نام دادا اپنے عہد کے جلیل القدر علماء میں شمار ہوتے تھے،کمال علم کے باعث ایک عرصہ تک مدینہ طیبہ کے قاضی رہے۔ (تاریخ بغداد:۶/۸۳) حدیث حدیث نبوی کی تحصیل وسماع سے انہیں خاص شغف تھا،منتخب روزگارشیوخ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے دامن کو حدیثِ نبوی کے جواہر پاروں سے پُرکیا ،علامہ ابن سعدان کی ثقاہت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں کثیر الحدیث قراردیتے ہیں (طبقات بن سعد:۷/۶۸) خطیب بغدادی نقل کرتے ہیں کہ ابراہیم بن سعد اپنے زمانہ میں مدینہ کے سب سے بڑے عالمِ حدیث تھے اوراس وقت کے مدنی علماء میں ان سے زیادہ ذخیرہ روایات کسی کے پاس موجود نہ تھا (تاریخ بغداد:۶/۸۳) ابراہیم زبیری کا بیان ہے کہ: کان عندابراھیم بن سعد عن ابی اسحاق سبعۃ عشر الف حدیث فی الاحکام سوی المغازی رواھالبخاری عنہ واحتج بہ فی کتب الاسلام (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۲۹) ابراہیم بن سعد کے پاس مغازی کے علاوہ صرف احکام کے سلسلہ کی سترہ ہزار حدیثیں تھیں جنہیں امام بخاری نے ان سے روایت کیا ہے اورابراہیم قابل اسناد تھے۔ علامہ خزرجی انہیں احد الاعلام اورحافظ ذہبی احد الاعلام الثقات لکھتے ہیں۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۱۷ ومیزان الاعتدال:۱/۱۷) اساتذہ قاضی ابراہیم کے شیوخ حدیث کی طویل فہرست میں ان کے والد سعد کے علاوہ درجِ ذیل اسمائے گرامی بہت ممتاز ہیں۔ امام زہری،ہشام بن عروہ،محمد بن اسحاق،صالح بن کیسان،صفوان بن سلیم، یزید بن الہاد،شعبہ تلامذہ اسی طرح ان سے روایت کا شرف حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی کافی ہے،بیان کیا جاتا ہے کہ کوفہ،بصرہ اوربغداد کا کوئی ایسا قابل ذکر عالم نہیں جس نے ان سے روایت نہ کی ہو،اس میں ان کے صاحبزادگان یعقوب اورسعد کے علاوہ امام احمد بن حنبل، منصور بن ابی مزاحم حسین بن یسار،یزید بن ہارون،یونس بن محمد المؤدب،ابوداؤد الطیالسی، عبدالرحمٰن بن مہدی،نوح بن یزید، سلیمان بن داؤد الہاشمی،علی بن الجعد محمد بن جعفر، عبدالعزیز بن عبداللہ الاویسی،یحییٰ النیساپوری کے نام خصوصیت کے ساتھ لائق ذکر ہیں،علاوہ ازیں لیث بن سعد، قیس بن الربیع، یزید بن ہارون اور امام شعبہ نے بھی اپنی جلالت مرتبت اورتقدم کے باوجود ان سے روایت کی ہے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۱۲۱،وتاریخ بغداد:۶/۱۸۱) مرویات کا پایا تمام ائمہ جرح وتعدیل نے ایک زبان ہوکر ان کی ثقاہت وعدالت کو سراہا اوران کے ثبات واستاد کا اعتراف کیا ہے،علامہ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھاہے کہ اگر کوئی شخص ابراہیم بن سعد کی ثقاہت میں کلام کرتا ہے تو وہ بڑا ظالم ہے (تہذیب التہذیب:۱/۱۲۳) ابن معین کا قول ہے،ابراہیم بن سعد ثقہ اورحجت ہیں،ابنِ عدی فرماتے ہیں "ھومن ثقات المسلمین"علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابراہیم بن سعد بغیر کسی شرط کے ثقہ ہیں (میزان الاعتدال :۱/۱۸، وشذرات الذہب:۱/۳۰۵)امام احمد ابو حاتم ابو زرعہ اورابن خراش بھی ان کی صداقت وثقاہت کے معترف ہیں۔ (تاریخ بغداد:۶/۸۳) عہدۃ قضا مدینہ منورہ میں کچھ عرصہ تک قضا کے فرائض بھی انجام دیئے،اسی لئے قاضی مدینہ کہے جاتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۲۹) بغداد میں آمد اور خزانہ کی افسری اوپر ذکر آچکا ہے کہ قاضی ابراہیم کا اصل وطن مدینہ طیبہ تھا،جہاں وہ ایک عرصہ تک فضل و دانش کی گہر باری کرتے رہے،پھر اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مرکز علم و فن بغداد منتقل ہوگئے، وہاں ان کی آمد کے صحیح وقت کی تعیین مشکل ہے، خطیب نے صرف اتنے ہی ذکر پر اکتفا کیا ہے کہ: کان قد نزل بغداد واقام بھا الی حین حیاتہ (تاریخ بغداد:۶/۸۱) وہ بغداد آئے اوروہاں اپنی وفات تک مقیم رہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے بغداد آنے پر ان کا بڑا اعزاز واکرام کیا اوران کی دیانت و تقویٰ کے اعتراف کے طور پر انہیں بیت المال کا نگران مقرر کیا۔ (طبقات ابن سعد:۷/۶۷) موسیقی تاریخ بغداد کی بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موسیقی کو جائز سمجھتے تھے،لیکن یہ روایتیں قابل اعتبار نہیں ہیں۔ وفات ۷۳یا ۷۴ سال کی عمر میں بغداد میں وفات پائی اوروہیں مدفون ہوئے ،عمر کی طرح سنہ وفات میں بھی اختلاف ہے،کوئی ۱۸۳ ھ کہتا ہے،کوئی ۱۸۴ھ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو بغدادی :۶/۱۸۴)مگر ساری روایتوں پر غور کرنے کے بعد ۷۴ سال کی عمر او ر ۱۸۳ ھ سنہ وفات صحیح معلوم ہوتا ہے۔ (طبقات ابن سعد:۷/۶۸)