انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت طلیب بن عمیرؓ نام ونسب طلیب نام،ابوعدی کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے،طلیب بن عمیر بن وہب بن عبد بن قصی بن کلاب بن مرہ قرشی عبدری، آپ کی ماں اردی عبدالمطلب کی لڑکی اورآنحضرتﷺ کی پھوپھی تھیں۔ (اسد الغابہ:۳/۶۵) اسلام آنحضرتﷺ کے ارقم کے گھر میں پناہ گزین ہونے کے بعد دولت اسلام سے بہرہ ورہوئے،قبول اسلام کے بعد گھر آئے اور ماں سے کہا میں خلوص دل سے اسلام لاکر محمدﷺ کا پیرو ہوگیا ہوں، ان نیک خاتون نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی غیروں سے زیادہ تمہاری مدد کے مستحق ہیں، اگر مجھ میں مردوں جیسی قوت ہوتی تو ان کو کفار کی دراز دستیوں سے بچاتی،ماں کے اس شریفانہ جذبات کو سن کر کہا کہ پھر آپ کو اسلام لانے سے کیا چیز روکتی ہے،آپ کے بھائی حمزہ بھی اسلام لاچکے،بولیں مجھ کو اپنی بہنوں کا انتظار ہے کہ وہ کیا کرتی ہیں، ان کے بعد میں بھی ان ہی کی پیروی کروں گی،طلیب نے اصرار کیا کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دلاتا ہوں،آپ محمدﷺ کے پاس چلیے اوران کی رسالت اوراللہ کی توحید کا اقرار کیجئے۔ ماں کا اسلام ان خاتون کا دل شروع سے آنحضرتﷺ کی جانب مائل تھا، اس لیے اس اصرار پر انکار کی ہمت نہ ہوئی اوراسی وقت کلمہ توحیدزبان پر جاری ہوگیا۔ اردی عورت تھیں مگر اسلام کے بعد مردانہ ہمت واستقلال کے ساتھ آنحضرتﷺ کی امکانی مدد کرتی رہیں، نسائیت کی وجہ سے عملی امداد سے تو مجبور تھیں،مگر زبان سے جو کچھ بن پڑتا تھا کہتی تھیں اوراپنے فرزند کو آنحضرتﷺ کی امداد واعانت پر آمادہ کرتی تھیں۔ (مستدرک حاکم:۳/۲۳۹) آنحضرتﷺ کی مدد ابتدائے اسلام میں جب آنحضرتﷺ پر ظلم و ستم کی بدلیاں گرج گرج کر برستی تھیں،طلیبؓ آنحضرتﷺ کی حمایت کرتے تھے،مشرکین نے حضورانورﷺ کی ایذارسانی کو اپنا مستقل شیوہ بنالیا تھا، ایک مرتبہ عوف بن صبرہ سہمی آپ کی شان میں نارواالفاظ استعمال کررہا تھا،طلیبؓ نے اس کو اونٹ کی ہڈی سے مار کر زخمی کردیا تھا، لوگوں نے ان کی ماں سے شکایت کی ،ان نیک خاتون نے جواب دیا۔ ان طلیبا نصرابن خالہ واساہ فی دمہ ومالہ طلیب نے اپنے ماموں کے بیٹے کی مدد کی اوراس کے خون اوراس کے مال کی غمخواری کی ایک مرتبہ ابواہاب بن عزیزدارمی کو قریش نے آنحضرتﷺ کے مارنے پر آمادہ کیا، مگر قبل اس کے کہ وہ یہ ناپاک ارادہ پورا کرتا،حضرت طلیبؓ سے ملاقات ہوگئی، آپ نے اس کے ارادہ فاسد کو اسی کے ساتھ پورا کر دکھایا۔ مشرکین کا سرغنہ ابو لہب جو مسلمانوں کی ایذا رسانی میں سب سے آگے رہتا تھا،ان کا حقیقی ماموں تھا، جب اس نے مسلمانوں کو قید کیا تو طلیبؓ نے اس کو مارنے میں بھی دریغ نہ کیا، اس جرأت پر مشرکین نے ان کو باندھ دیا؛لیکن ابولہب کے بھانجے تھے،اس لیے اس نے خود چھوڑدیا اوراپنی بہن سے شکایت کی ،انہوں نے جواب دیا کہ طلیب کی زندگی کا بہترین دن وہی ہے،جس میں وہ محمدﷺ کی مدد کریں۔ (اصابہ:۳/۲۹۵) ہجرت ومواخات کفار مکہ کے ظلم وستم کا مقابلہ کرنا آسان نہ تھا، اس لیے ہجرت ثانیہ میں حبشہ چلے گئے،وہاں سے مدینہ آئے اور عبداللہ بن سلمہ عجلانی کے مہمان ہوئے۔ (ابن سعد جزو۴،ق۱:۸۷) بدر جس شخص نے ظلم وستم کی گھٹاؤں میں رسول اللہ ﷺ کی علانیہ مدد کی وہ آزادی ملنے کے بعد کب خاموش رہ سکتا تھا، اس لیے مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے معرکہ بدر عظمیٰ میں شریک ہوکر حق شجاعت ادا کیا۔ (استیعاب:۱/۲۱۶) وفات بدر کے بعد سے وفات تک کے حالات پردہ میں ہیں؛لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی بھر جہاد میں شریک ہوتے رہے؛چنانچہ اسی سلسلہ میں اجنادین کی جنگ میں جمالی الاولی ۱۳ھ میں شہادت پائی،وفات کے وقت کل ۳۵ سال کی عمر تھی، اولاد کوئی نہ تھی۔ (ابن سعد:۳/۸۷،ق اول)