انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** روایت الفاظ سے بھی اور اعمال سے بھی حضورﷺ کی تعلیمات الفاظ میں بھی روایت ہوتی رہیں اور اعمال میں بھی پھیلتی رہیں، آپ کے اعمال طیبہ آپ کے صحابہ پربکمال تابانی سایہ فگن تھے، صحابہؓ نے آپ سے تزکیہ کی دولت پاکر آپ کی تعلیمات کو اس طرح اپنے اندر سمولیا کہ پوری دنیا کے لیے آسمان ہدایت کے ستارے بن چکے تھے، آپﷺ کے اعمالِ طیبہ کا چاند پوری شان اور قوت وبرہان سے چمک رہا تھا، نور عرفان کی تجلیات ہرطرف جلوہ ریز تھیں اور صحابہ اسی چاند کے گرد ہالہ بنے ہوئے تھے، یہاں تک کہ تابعین کی ایک جماعت اس کام کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ، تابعین صحابہ کے نقش قدم پر چلےتھے اور یہ حضرات تابعین تب ہی تھے کہ صحابہ متبوعین تھے، پہلوں کا مقتدی بنے بغیر اگلوں کا مقتدا بننے کی کوشش کرنا اسلام کے دین مسلسل ہونے کے خلاف ایک نئی راہ ہے ؎ مبتدی کوئی ہو یا کہ ہو منتہی کہتے ہیں دوستو !ماعرفنا سبھی اس حقیقت سے واقف ہیں اہل نظر مقتدا وہ نہیں جو نہیں مقتدی قرآن کریم نے بھی ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے کہ ہم پہلوں کے نقش قدم بنیں، قرآن کریم کا تقاضاہے کہ پوری امت آپس میں جڑی رہے اور اس کی تمام کڑیوں میں ایک مضبوط رابطہ ہو، عباد الرحمن کی یہ دعا قرآن کریم میں اس طرح مذکور ہے"وَّاجْعَلْنَالِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا" (الفرقان:۷۴) اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنادے، اس دعا میں اس آرزو کا اظہار ہے کہ بعد میں آنے والے ہمارے نقش پا پر چلتے آئیں اور یہ تبھی درست رہ سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے سے پہلوں کے نقش پر رہیں اس طرح مابعد کی امت اپنے ماقبل سے مسلسل رہے، حضرت امام بخاریؒ نے اس آیت کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں : " أَيِمَّةً نَقْتَدِي بِمَنْ قَبْلَنَا وَيَقْتَدِي بِنَا مَنْ بَعْدَنَا"۔ (بخاری، بَاب الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:۲۲/۲۴۳،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:اے اللہ ہمیں ایسا پیشوا بنا کہ ہم تو اپنے سے پہلوں کے نقش قدم پر رہیں اور ہمارے بعد میں آنے والے ہمارے نقش پا پر چلیں۔ اس دعا میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امت ایک مسلسل کارواں ہے جس میں پچھلے آنے والوں کا پہلوں سے متصل رہنا ضروری ہے، اس دعا کا پہلا مصداق حضورﷺ کے صحابہ تھے ان کا دین حضورﷺ سے مسلسل تھا اور آئندہ آنے والوں کے لیے سند تھا اور انہی سے اسلام کی شاہراہ مسلسل قائم ہوئی،آنحضرتﷺ نے صحابہ کو بتلادیا تھا: " إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَع"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الِاسْتِيصَاءِ بِمَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ،حدیث نمبر:۲۵۷۴،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:بے شک لوگ تمہارے پیچھے چلیں گے۔ آپﷺ اپنے صحابہ کرام کو یہ بتلارہے تھے کہ تمہارے اعمال کے ذریعہ میری بات آگے چلے گی۔ قرآن کریم نے"وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" کہہ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو علم کی سند دی تو "وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا" کہہ کر اسے عملاً آثار بنادیا، امت مسلمہ کی یہ دعائے اقتداء اسی علم الآثار کا محور ہے"إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَع" اسی کی نبوی تفسیر ہے، الفاظ سے سند لینا چنداں مشکل نہیں ؛مگر تعامل میں اس کی تلاش بے شک ایک بڑی کاوش ہے۔ جب تک دین کے لیے ہمتیں بیدار رہیں، دین اعمال سے پھیلتا رہا اور امت میں تسلسل رہا، ہر طرف خیر رہی، طولاً وعرضاً اتحاد رہا، امیرالمؤمنین سیدنا حضرت عمر ؓ نے صحابہ کو ان کی اس حیثیت سے پوری طرح خبر دار کردیا تھا، آپ ؓنے انہیں ان الفاظ میں اس طرف متوجہ فرمایا: "إنكم أيهاالرهط أئمة يقتدي بكم الناس"۔ (موطا مالک، باب لبس الثياب المصبغة في الإحرام،حدیث نمبر:۶۲۶،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:اے لوگو تم ائمہ کرام ہو، لوگ تمہاری اقتداء کو آئیں گے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ(۵۵ھ)نے ایک سوال کے جواب میں اپنی (جماعت صحابہ کی)اس قائدانہ حیثیت کا علی الاعلان اظہار فرمایا: "إناأئمة يقتدى بنا"۔ (مصنف عبدالرزاق:۲/۳۶۷،شاملہ،موقع یعسوب) ترجمہ:ہم صحابہ پیشوا ہیں، ہماری اقتداء آگے چلے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ اس مقدس قافلہ کے پیچھے چلتے آئے،تابعین کہلائے"وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ" (توبہ:۱۰۰) کے باعث انہیں بھی "رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ" کا تمغہ ملا، حضرت امام مالکؒ سیدنا حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ(۱۰۰ھ)سے روایت کرتے ہیں: "سنَّ رسولُ اللهﷺ وولاةُ الأمر من بعده سُنناً، الأخذُ بها اعتصامٌ بكتابِ الله، وقوَّةٌ على دين الله، ليس لأحدٍ تبديلُها، ولا تغييرُها، ولا النظرُ في أمرٍ خالفَها، مَنِ اهتدى بها، فهوالمهتدی، ومن استنصر بها، فهو منصور، ومن تركها واتَّبع غيرَ سبيل المؤمنين، ولاَّه اللهُ ماتولَّى، وأصلاه جهنَّم، وساءت مصيراً۔ (جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی،الحدیث الثامن والعشرون،شاملہ،موقع صید الفوائد) ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے ولاۃ الامر نے ان سنتوں کو قائم فرمایا، جنھیں لینا اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور اللہ کے دین کوتقویت پہونچانا ہے کسی کو اس کے بدلنے اوراس میں ترمیم کرنے کا حق نہیں اور نہ اس کے برعکس کسی اور طرف دھیان کرنے کا حق ہے، جس نے ان سنتوں سے ہدایت ڈھونڈی اس نے ہدایت پالی اور جس نے ان سے نصرت چاہی وہ نصرت پاگیا اور جس نے انہیں نظر انداز کردیا اور ان مؤمنین کے سوا کسی اور راہ پر چلا اللہ تعالی اسے اسی طرف پھیردیتے ہیں جدھر وہ پھرا اور اسے جہنم میں پہنچادیتے ہیں اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ حضرت عباد بن عباد الشامی دین مسلسل کی ترتیب یوں ذکر فرماتے ہیں: "فَكَانَ الْقُرْآنُ إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِمَاماً لأَصْحَابِهِ، وَكَانَ أَصْحَابُهُ أَئِمَّةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ۔ (دارمی، باب رِسَالَةِ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْخَوَّاصِ الشَّامِى:۲/۲۳۲،شاملہ،موقع وزارۃ الاوقاف، المصریہ) ترجمہ:قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امام تھا اور حضورﷺ صحابہ کے امام تھے اور آپ کے صحابہ بعد میں آنے والے لوگوں کے امام ہیں ۔ یہ امامت مسلسل تب ہی رہ سکتی ہے کہ اگلے (بعد میں آنے والے) پچھلوں (پہلے زمانہ کے لوگوں) کے پیچھے چلیں اور ان کے بعد آنے والے پھر ان کے پیچھے چلیں صحابہ کے بعد ائمہ دین بھی اگلے آنے والوں کے پیشوا اور مقتدا ہیں اور امت مجتہدین کی اقتداء اورپیروی سے ہی اپنے تسلسل میں آگے چلتی رہی ہے۔ حضرت امام اوزاعیؒ(۱۵۷ھ)ایک موقع پر ذکر فرماتے ہیں: "كنا قبل اليوم نضحك ونلعب، أما إذا صرنا أئمة يقتدى بنا فلا نرى أن يسعنا ذلك، وينبغي أن نتحفظ"۔ (البدایۃ والنہایۃ:۱۱/۱۲۸،شاملہ،موقع یعسوب) ترجمہ:پہلے تو ہمارا وقت کھیل کود میں گزرا ؛لیکن جب ہم امام بن گئے اور ہماری پیروی کی جانے لگی تو ہمارے لیے اب زیبا نہیں اور ہمیں چاہیے کے ہم بچ کر رہیں۔ اس بیان سےیہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت امت میں ائمہ دین کی پیروی جاری ہوچکی تھی، اس کا ائمہ کو بھی علم تھا اور اس سے وہ اپنے علم وعمل میں اور محتاط ہوکر چلتے تھے،اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورؐ کے بعد پیروی صرف صحابہؓ کی ہی نہیں ان کے بعد آنے والے علماء وقت بھی لوگوں کا مرجع اور ان کے پیشوا ہیں،حضرت امام مالک(۱۷۹ھ)کا مسلک اس باب میں کیا تھا اس جزئیہ میں دیکھیے: "الاجتماعُ بكرة بعدَ صلاة الفجر لقراءة القرآن بدعةٌ، ماكان أصحابُ رسول اللّٰهﷺ ، ولا العلماء بعدَهم على هذا۔ (جامع العلوم والحکم،الحدیث السادس والثلاثون:۳۶/۲۵،شاملہ،موقع صید الفوائد) ترجمہ:صبح کی نماز کے بعد مخصوص اجتماعی شکل میں قرآن پڑھنا ایک نئی راہ ہے، حضور اکرمﷺ کے صحابہ اور بعد کے علماء کا یہ طریقہ نہ تھا ۔ اس وقت ہمیں یہاں اس مسئلہ سے بحث نہیں ہے، صرف یہ بتلانا پیش نظر ہے کہ صحابہ کے بعد اس وقت کے اعیان علم کا عمل بھی اگلے آنے والوں کے لیے توجہ کے لائق ہے اور جو بات اس دین مسلسل میں نہیں ملتی وہ دین نہیں ہے۔