انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت نضر بن شمیلؒ نام و نسب نضر نام اور ابولحسن کنیت تھی،پورا شجرۂ نسب یہ ہے،نضر بن شمیل بن خرشہ بن یزید بن کلثوم بن عترہ بن زہیر بن جلہمہ بن حجر بن خزاعی بن مازن بن مالک بن عمرو بن تمیم (الفہرست لابن ندیم:۷۷)یہ شجرہ صرف ابن ندیم نے ذکر کیا ہے،ورنہ دوسرے تذکرہ نگاروں نے مختلف طور پر درمیان سے متعدد ناموں کو حذف کردیا ہے،جس کی وجہ سے اکثراشتباہ واقع ہوجاتا ہے،اغلباً اختصار کے لیے ایسا کیا گیا ہے، وطناً بصری اورمروزی کہلاتے ہیں،بنو مازن سے خاندانی تعلق کی بناپر مازنی کی نسبت کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ مولد ومنشا ۱۲۲ھ مطابق ۷۴۰ء میں وہ خراسان کے شہر مروالروز میں پیدا ہوئے (الاعلام:۳/۱۱۰۴)جو اپنی مردم خیزی میں عالمی شہرت کا حامل ہے،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیائے اسلام میں علم ودانش کے دُرہائے آبدار جن زمینوں سے برآمد ہوئے،ان میں مرو کا خطہ نہایت نمایاں ہے،بہر حال جب امام نضر صرف ۵،۶ سال کے تھے، ا ن کے والد انہیں اپنے ہمراہ لے کر بصرہ چلے آئے،خود بیان کرتےہیں: خرج بی ابی من مرو الروذ الی البصرۃ ۱۲۸ھ وانا ابن خمس اوست سنین (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۳۷) ۱۲۸ھ میں مجھے میرے والد مرو سے بصرہ لے کر آئے،اس وقت میری عمر پانچ چھ سال کی تھی۔ پھر وہیں کے ہورہے ،بصرہ بھی اس عہد میں ممتاز علمی مرکز شمار ہوتا تھا،اس لیے ابن شمیل تمام تر علمی ماحول میں پروان چڑھے اور عمر کا پیشتر زمانہ درس وافادہ اورتالیف وتصنیف میں وہیں گزرا،لیکن پھر بعض اقتصادی مشکلات سے تنگ آکر بصرہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے اورمرو آکر بقیہ عمر وہیں بسر کی یہاں تک کہ اسی کی خاک کا پیوند بنے۔ بصرہ چھوڑنے کا سبب یوں تو تمام ہی ارباب طبقات نے اس سبب کی نشاندہی کی ہے جس کی بنا پر امام نضر سرزمین بصرہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے،جو گویا ان کے وطن ثانی کی حیثیت اختیار کرچکی تھی اورجس کے درودیوار سے انہیں والہانہ الفت پیدا ہوگئی تھی؛لیکن علامہ یاقوت رومی اورحافظ جلال الدین سیوطی نے اس واقعہ کو کسی قدر تفصیل سے سپرد قلم کیا ہے جو حسبِ ذیل ہے: بصرہ میں امام نضر کی معاشی واقتصادی حالت نہایت دگرگوں ہوگئی،یہاں تک کہ نان شبینہ تک کے محتاج ہوگئے تھے، وہاں اُن کے علم وفضل کا اعتراف کرنے اس سے مستفید ہونے اوران کی دقیقہ سنجیوں پر واہ واہ کرنے والوں کا حلقہ تو نہایت وسیع تھا؛لیکن بقدر کفاف بھی ان کے رزق کی فراہمی کا خیال کرنے والا کوئی نہ تھا،بالآخر جب حالات فزوں تر ہوگئے،تو شیخ نے وہاں سے اپنے مولد منتقل ہونے کا ارادہ کیا،کہا جاتا ہے کہ جس وقت وہ بصرہ سے روانہ ہوئے،وہاں کے تین ہزار محدثین،فقہاء،نحویین اورائمہ لغت ان کو الوداع کہنے ہمراہ چلے اورمقام مربد پہنچ کر ان کو رخصت کیا۔ (معجم الادباء:۷/۲۱۹) حافظ سیوطیؒ نے مزید لکھا ہے کہ اس جم غفیر میں ان کے سات ہزار تلامذہ بھی شامل تھے،جو اپنے شیخ کی جدائی کے غم میں زار وقطار آنسو بہارہے تھے، شیخ نضر نے چلتے چلتے چند الوداعی کلمات ارشاد فرمائے، جس میں یہ بھی کہا گیا ہے: لو كان لي كل يوم ربع من الباقلاء أتقوت به لما ظعنت عنكم (بغیتہ الوعاۃ :۴۰۴) اگر مجھے تمہارے پاس ہر روز تھوڑا سابا قلا بھی مل جاتا تو میں جدا نہ ہوتا۔ راوی کا بیان ہے کہ جب ابن شمیل نے مذکورہ بالا الفاظ کہے تو میں یہ دیکھ کر حیرت واستعجاب کے سمندر میں غرق ہوکر رہ گیاکہ غم واندوہ کا اظہار کرنے والے اس مجمع کثیر میں سے ایک نفر بھی اتنی معمولی سی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہ ہوسکا۔ (ایضاً) بہر حال وہ خراسان پہنچے تو ان کا نصیبہ جاگ گیا ،وہاں خلیفہ مامون نے ان کی از حد تعظیم وتوقیر کی اور فکر معاش کی طرف سے بالکل بے نیاز کردیا، ابو عبیدہ کا بیان ہے کہ: اقام بمرو واجتمع له هناك مال (شذرات الذہب :۲/) انہوں نے مرو میں قیام کیا اوربکثرت مال حاصل کرکے صاحب ثروت ہوگئے۔ فضل وکمال علم وفضل کے اعتبار سے ابن شمیل بہت جلیل القدر اورعالی مرتبہ تھے،ابن عماد حنبلی رقمطراز ہیں کہ : "کان اماما حافظا" (بغیۃ الوعاۃ :۴۰۴) مختلف علوم وفنون کی جامعیت اورتثبت واتقان میں ان کی مثال کم ہی مل سکے گی،صغار تابعین کی صحبت سے شرف اندوز اوران کے کیسۂ علم سے بقدر ظرف مستفید ہوئے تھے، خراسان اوربالخصوص مرو میں حدیث کا چرچا عام کرنے میں انہیں اولیت کا شرف حاصل تھا؛چنانچہ عباس بن مصعب بیان کرتے ہیں۔ کان اماماً فی العربیۃ والحدیث بمرووجمیع خراسان (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۷) وہ مرو اورپورے خراسان میں حدیث وعربیت کے امام تھے۔ حافظ سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ امام شعبہ سے ان کی روایات کو بیان کرنے والا امام ابن شمیل سے زیادہ کوئی نہ تھا۔ (بغیۃ الوعاۃ:۴۰۵) ایک بار خلیفہ مامون نے ان کے سامنے یہ حدیث پڑھی :"اذا تزوج المرأۃ لدینھا وجمالھا کان فیہ سداد من عوز" اس میں خلیفہ نے لفظ سداد کو سین کے زبر کے ساتھ پڑھا،امام نضرؒ نے فوراً ہی اس حدیث کو دہرایا اوراس میں سداد کو بکسرالسین پڑھا اورپھر دونوں کے درمیان فرق کو واضح کیا، راوی بیان کرتے ہیں کہ خلیفہ یہ سن کر پھڑک اُٹھا اوراس نے شعرائے عرب کے منتخب ترین اشعار سُنانے کی خواہش ظاہر کی؛چنانچہ نضر بن شمیلؒ نے عرجی،حمزہ ،بن بیض،ابو عروہ المدنی اورابن عبدلی الاسدی کے بہت سے شعر سنائے،مامون نے ان کی اس غیر معمولی قوتِ حافظہ اورزرف بینی سے متاثر ہوکر اپنے وزیر فضل بن سہل کو،شیخ کو تیس ہزار درہم انعام دیئے جانے کا حکم دیا۔ (معجم الادبا:۱/۲۲۰،تہذیب التہذیب:۱/۴۳۸) ابن منجویہ کا بیان ہے کہ: کامن من فصحاء الناس وعلمائھم بالادب وایام الناس (ایضاً) وہ فصیح البیان لوگوں میں تھے،نیز ایامِ عرب اور ادب کے رموز واسرار کے بڑے نکتہ دان تھے۔ جامعیت تنوع وتفنن فی العلوم ان کے صحیفۂ کمال کا ایک تابندہ ورق ہے،انہیں حدیث، فقہ،لغت،نحو،ادب،تاریخ اورانساب پر یکساں عبور تھا،یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ ان کے فکر و نظر کا خصوصی جولانگاہ کون سافن تھا؟ علماء نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ: کان رأساً فی الحدیث ورأساً فی الفقہ واللغۃ وروایۃ الشعر ومعرفۃ بالنحو وبایام الناس (طبقات ابن سعد:۷/۱۰۵ والاعلام:۳/۲۰۴) وہ حدیث،فقہ،لغت ،روایت شعر، معرفت نحو اورایام عرب سب علوم وفنون میں عالی رتبہ تھے۔ مذکورہ بالا تمام فنون میں انہوں نے کتابیں تالیف کیں،حافظ ابن کثیر انہیں ائمہ لغت میں شمارکرتے ہیں۔ شیوخ انہوں نے عرب کے مشاہیر اہلِ زبان اور کبار محدثین سے اکتساب فیض کیا تھا،نحو،ادب اور ماہرین میں وہ سب سے پہلے خلیل بن احمد ابی خیرۃ الاعرابی اورابو احمد قیس سے مستفید ہوئے،اس کے بعد علوم نقلیہ میں صغار تابعین اوران کے بعد کے طبقہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، اس سلسلہ میں لائق ذکر ائمہ وشیوخ یہ ہیں۔ ہشام بن عروہ،حمید الطویل ،شعبہ،ابن جریج، سعید بن ابی عروبہ،ابن عون،اسرئیل بن یونس ،حماد بن سلمہ، سلیمان بن المغیرہ،ہشام بن حسان، یونس بن ابی اسحاق، عمرو بن ابی زائدہ تلامذہ اسی طرح خود ان سے فیضیاب ہونے والوں میں بھی وہ علماء حدیث شامل ہیں جو اپنے شیخ کی زندگی ہی میں مسند علم کی زینت بنے،چند نمایاں اسمائے گرامی یہ ہیں: علی بن المدینی،یحییٰ بن معین، اسحاق بن راہویہ،حمید بن زنجویہ،یحییٰ بن یحییٰ النیساپوری، محمود بن غیلان، احمد بن سعید الدارمی، محمد بن مقاتل،معاذ بن اسد،حسین بن حریث، عبدالرحمن بن بشر، محمد بن قدامہ،عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی۔ (تہذیب التہذیب:۱/۴۳۷) ثقاہت علمائے فن متفقہ طور پر ان کی روایات کی حجیت اورثقاہت تسلیم کرتے ہیں؛چنانچہ ابو حاتم کا بیان ہے "کان ثقۃ صاحب سنۃ" (شذرات الذہب:۲/۷)حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں: حجۃ یحتج بہ فی الصحاح (میزان الاعتدال:۲/۲۳۴) وہ حجت ہیں صحاح میں ان کی روایات قابل قبول ہیں۔ قضا جب وہ معاشی تنگی سے عاجز آکر بصرہ سے مرو منتقل ہوئے تو خلیفہ مامون نے ان کے ساتھ بہت اعزاز واکرام کا معاملہ کیا، اورانہیں اس شہر کے منصبِ قضاء پر فائز کرکے ان کو مال و زر سے نہال کردیا۔ (الاعلام:۳/۱۱۰۴) علامہ یاقوت نے بروایت نقل کیا ہے کہ اپنے زمانہ قضا میں امام ابن شمیل نے عدل و انصاف کے ایسے مظاہرے پیش کیے کہ ہر شخص ان کی توصیف میں رطب اللسان ہوگیا۔ (معجم الادباء:۷/۲۱۹) سادگی وبے نفسی وہ تقشف کی حد تک سادہ زندگی گذارنے کے عادی تھے،زبیر بن بکار بیان کرتے ہیں کہ ایک بار شیخ نضر خلیفہ مامون کے پاس اس حال میں گئے، کہ نہایت موٹے اور خراب کپڑے پہنے ہوئے تھے،خلیفہ نے دیکھتے ہی کہا کہ آپ امیر المومنین کے پاس اس قسم کے کپڑوں میں آتے ہیں، شیخ نے ٹالنے کی خاطر فرمایا:"بات دراصل یہ ہے کہ مرو میں گرمی بہت سخت پڑتی ہے،لہذا اس کی حرارت سے ایسے ہی کپڑوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ (ایضاً) حافظ ذہبیؒ نے داؤد بن محراق کی روایت سے شیخ ابن شمیل کا یہ ،زرین نقل کیا ہے: لایجد الرجل لذۃ العلم حتیٰ یجوع وینسی جوعہ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۷) تصانیف امام نضر کے تبحر علمی اورجامعیت کے جلوے صرف درس وافادہ کی مجلسوں ہی میں ظاہر نہ ہوئے؛بلکہ صفحہ قرطاس پر بھی اس کی تجلیاں نمودار ہوتی تھیں، عباس بن مصعبؓ کابیان ہے کہ شیخ نضر نے اس قدر کثرت سے کتابیں تصنیف کیں،جس کی نظیر اس عہد میں نہیں ملتی۔ عام طور پر ان کی درجِ ذیل تصانیف کے نام ملتے ہیں، کتاب الصفات’کتاب الصلاح" غریب الحدیث" "کتاب النوادر" "کتاب المعانی" کتاب المصادر ،المدخل الی کتاب العین،کتاب الجیم، کتاب الشمس والقمر۔ کتاب الصفات:پانچ جلدوں پر مشتمل فن لغت کی تصنیف ہے،پہلی جلد میں انسان کی پیدائش اس کے عادات واطوار اور عورتوں کی صفات،دوسری جلد میں مکانات پہاڑ وغیرہ،تیسری میں اونٹ ،چوتھی میں گھوڑا،چڑیا چاند،سورج اور شراب وغیرہ،پانچویں جلد میں انگور کی زراعت،درخت ہوا بارش اوربادل وغیرہ کا تفصیلی بیان ہے،علامہ ابن ندیم کا خیال ہے کہ ابو عبید قاسم بن سلام نے اپنی مشہور واہم کتاب غریب المصنف کو اسی سے اخذ کیا ہے اوراسی نہج پر مرتب کیا ہے،دونوں کتابوں کے مندرجات سے بھی اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ غریب الحدیث:غریب احادیث کی تشریح وتوضیح کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں ابو عبیدہ، قطرب،ابو عدنان نحوی، اخفش، نضر بن شمیل اورابو عبید قاسم بن سلام کی غریب الحدیث کا ذکر ملتا ہے،ان میں مؤخر الذکر ہی کی کتاب کو شہرت ومقبولیت کا تمغہ نصیب ہوا،اس کی وجہ یہ ہے کہ ابو عبید نے نہ صرف متقدمین کی تصنیفات کا عطر اپنی کتاب میں کشید کرلیا ہے ؛بلکہ نہایت زرف بینی کے ساتھ ان تمام خامیوں اورنقائص کو بھی اس میں دور کردیا ہے، جو پہلے کی کتابوں میں پائی جاتی تھیں، تاہم قدامت کے اعتبار سے نضر بن شمیل کی غریب الحدیث کا پایہ کچھ کم نہیں۔ امام نضرؒ کی مذکورہ بالا تصنیفات اب معدوم ہیں،یا ممکن ہے کہیں ان کے مخطوطات موجود ہوں،راقم الحروف کو اس کی تحقیق نہ ہوسکی۔ وفات ذی الحجہ ۲۰۳ھ کی آخری تاریخ کو مرو ہی میں راہی ملک عدم ہوئے(طبقات ابن سعد:۷/۱۸ واللباب :۳/۸۰)یکم محرم ۴۰۴ھ کو تدفین عمل میں ائی، اسی وجہ سے بعض تذکروں میں ان کا ذکر ۲۰۳ھ کی وفیات میں ملتا ہے،اوربعض میں ۲۰۴ھ کے تراجم میں،اس وقت اورنگ خلافت پر مامون الرشید دادِ حکمرانی دے رہا تھا