انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
مالی دستاویزات، بانڈزاورچیک وغیرہ کے اَحکامات پرائز بانڈز اور اس پرملنے والی انعامی رقم کا حکم گورنمنٹ کی جانب سے جاری کردہ انعامی اسکیم جس کوانعامی بانڈ (Prize Bond) کہتے ہیں، جس پرقرعہ اندازی کے ذریعہ بعض نمبروں پرانعامات دیئے جاتے ہیں، چاہے کسی کوانعام ملے یانہ ملے اصل رقم ہرحال میں محفوظ رہتی ہے توان بانڈز کا خریدنا ان پرسرمایہ لگانا ناجائز وحرام ہے اس لیے کہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہربونڈ خریدنے والے کے نام پرایک معین شرح پر سود لگایا جاتا رہتا ہے؛ لیکن پھربجائے اس کے کہ ہرشخص کی رقم پرعلیحدہ سود دیا جائے تمام افراد کے سود کی مجموعی رقم کوقرعہ اندازی کے ذریعہ صرف ان لوگوں پرتقسیم کیا جاتا ہے جن کا نام قرعہ میں نکل آئے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بانڈ کے انعام کی رقم سود کوقمار کرکے ادا کیا جاتا ہے اس لیے یہ رقم لیناحرام ہے۔ (فتاویٰ عثمانی:۳/۱۷۵۔ احسن الفتاویٰ:۷/۲۶) کریڈٹ کارڈ اور اُس کی مختلف قسموں کے اَحکام آج کل رائج کارڈ کی تین اقسام پائی جاتی ہیں: (۱)ڈیبٹ کارڈ (Debit Card) (۲)چارج کارڈ (Charge Card) (۳)کریڈٹ کارڈ (Credit Card) (۱)ڈیبٹ کارڈ: اس کارڈ کے حامل کا پہلے سے اکاؤنٹ اس ادارے میں موجود ہوتا ہے جس ادارے کا اس نے کارڈ حاصل کیا ہے، حاملِ بطاقہ یعنی کارڈ ہولڈر اس کارڈ کوجب بھی استعمال کرتا ہے، ادارہ اس کے اکاؤنٹ میں موجود رقم سے اس کی ادائیگی کردیتا ہے، اس میں حاملِ بطاقہ کواُدھار کی سہولت حاصل نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ وہ صرف اس وقت تک کارڈ کواستعمال کرسکتا ہے جب تک کہ اس کے اکاؤنٹ میں رقم موجود ہے، ادارہ اس کارڈ کوجاری کرنے کی فیس وصول کرتا ہے، اس کارڈ کواستعمال کرنا بلاشبہ جائز ہے اور اس کے ذریعہ خریدوفروخت کرنا درست ہے؛ کیونکہ اس میں نہ قرض کی صورت ہے، نہ سود کی؛ البتہ حاملِ بطاقہ کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کارڈ کوغیرشرعی اُمور میں استعمال نہ کرے۔ (۲)چارج کارڈ: اس کارڈ کے حامل کا ادارے میں پہلے سے اکاؤنٹ نہیں ہوتا؛ بلکہ ادارہ حاملِ بطاقہ کواُدھار کی سہولت فراہم کرتا ہے، حاملِ بطاقہ کوایک معین ایام کے اُدھار کی سہولت میسر ہوتی ہے، جس میں اس ادارے کوادائیگی کرنا ضروری ہوتا ہے؛ اگراس مدت میں ادائیگی ہوجائے توسود نہیں لگتا؛ البتہ اگرحاملِ بطاقہ نے وقت پرادائیگی نہ کی توپھر اس کوسود کے ساتھ ادائیگی کرنی پڑتی ہے، ادارہ اس کارڈ کوجاری کرنے کی فیس وصول کرتا ہے، اس کارڈ کومندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ استعمال کرنا جائز ہے (۱)حاملِ بطاقہ اس بات کاپورا انتظام کرے کہ وہ معین وقت سے پہلے پہلےادائیگی کردے اور کسی بھی وقت سود عائد ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے (۲)حاملِ بطاقہ کی یہ ذمہ داری ہو کہ وہ اس کارڈ کوغیرشرعی اُمور میں استعمال نہ کرے (۳)اگرضرورت ڈیبٹ کارڈ سے پوری ہورہی ہوتو بہتر ہے کہ اس کارڈ کواستعمال نہ کرے۔ (۳)کریڈٹ کارڈ: اس کارڈ کے حامل کا بھی کوئی اکاونٹ ادارے میں نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ معاہدہ ہی اُدھا رپرسود کا کرتا ہے، اس معاہدے میں اگرچہ ادارہ ایک متعین مدت فراہم کرتا ہے کہ جس میں اگرحاملِ بطاقہ ادائیگی کردے تواس کوسود ادا نہیں کرنا پڑتا؛ لیکن اصلاً معاہدہ سود کی بنیاد پرہوتا ہے اور اس کی ادائیگی کا وعدہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس میں تجدید مدت (Rescheduling) کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے، جس سے ادائیگی کی مدت بڑھ جاتی ہے؛ البتہ اس کے ساتھ ساتھ شرح سودمیں اضافہ ہوجاتا ہے اور بعض صورتوں میں اضافی رقم لی جاتی ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ اس کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہے؛ اِلَّا یہ کہ ڈیبٹ کارڈ یاچارج کارڈ الگ سے مہیا نہ ہو اور اس کوڈیبٹ کارڈ یاچارج کارڈ کی طرح مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ اِن تمام کارڈ کوکریڈٹ کارڈ کہا جاتا ہے؛ لیکن جواصلاً کریڈٹ کارڈ ہے اس کا استعمال جائز نہیں؛ البتہ کریڈٹ کارڈ کا اطلاق مذکورہ بالا پہلی دوقسموں پرکیا جائے توان کا استعمال جائز ہے، ان کے علاوہ کارڈ کی ایک قسم ہے جس کو ATM (Automated Transfer Machine) کارڈ کہتے ہیں، یہ رقم نکالنے کا کارڈ ہوتا ہے، بعض دفعہ اس کا وجود اُوپرذکر کردہ کارڈ کے ضمن میں بھی ہوتا ہے، مثلاً یہ ممکن ہے کہ ڈیبٹ کارڈ میں رقم نکالنے کی سہولت بھی موجود ہو، اس کارڈ کا حکم یہ ہے کہ اس کواستعمال کرنے پراگرمتعین رقم مشین کے استعمال کی اُجرت کے طور پرادارہ وصول کرے جومقدار رقم سے قطع نظر ہوتوجائز ہے؛ لیکن اگرادارہ رقم کوبنیاد بناکراس پرکچھ وصول کرے تویہ جائز نہیں؛ بلکہ سود ہوگا؛ البتہ ادارہ کارڈ جاری کرنے کی فیس وصول کرسکتا ہے۔ (فتاویٰ عثمانی:۳/۳۵۴،۳۵۵) بینک ڈرافٹ وغیرہ کا شرعی حکم آج کل بڑی رقوم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کے لیے چک، ڈرافٹ اور پوسٹل ومنی آرڈر وغیرہ کوآسانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا تعامل اس درجہ ہے کہ اس سے گریز بھی مشکل ہے، بظاہر اس پرسفتجہ کی صورت صادق آتی ہے، جسے بعض فقہاء نے ناجائز اور بعض نے مکروہ قرار دیا ہے، سفتجہ یہ ہے کہ ایک شخص کسی کوقرض دے اور کسی شہر میں جہاں جانا ہے وہاں قرض وصول کرلے تاکہ راستہ کے خطرات سے محفوظ رہ سکے اور پرامن طور پراس کویہ رقم مل جائے، اس کے لیے کبھی یہ صورت بھی اختیار کی جاتی تھی کہ ایک آدمی ایک شہر میں کسی سے ایسی رقم لے لیتا اور دوسرے شہر میں جہاں اس کا کاروباری رفیق موجود ہوتا وہاں وہ یہ رقم صاحب مال کوادا کردیتا؛ اب اگرچیک، ڈرافٹ وغیرہ کی صورت پرغور کیا جائے تویہ صورت پوری طرح صادق آتی ہے، فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ سفتجہ اس وقت مکروہ ہوگا جب صاحب مال معاملہ میں بہ حیثیت شرط اس بات کوداخل کردے کہ وہ یہ قرض فلاں دوسرے شہر میں ادا کرے گا یاعرف میں یہ بات اتنی عام ہوگئی ہو کہ اس کا مقصد ومنشاء ہی یہی سمجھا جاتا ہو، تب یہ سفتجہ مکروہ ہوگا، مذکورہ مروجہ طریقوں میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے؛ لیکن یہ مسئلہ متفق علیہ نہیں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ مکہ میں تاجروں سے نقد قرض لے لیا کرتے تھے اور کوفہ اور بصرہ میں ادائیگی کا تحریری وثیقہ لکھ دیتے تھے، علامہ ابن تیمیہ بھی اس کوجائز اور درست قرار دیتے ہیں، موجودہ دور میں جہاں یہ ایک کاروباری ضرورت بن گئی ہے مناسب ہوگا کہ اس مسئلہ میں فقہی اختلاف سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کوجائز اور درست قرار دیا جائے جیسا کہ منی آرڈر کے سلسلے میں ہندوستان کے اکابر علماء نے جواز کی شکل پیدا کی ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۸۰)