انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام مالک ؒ کا مدرسہ حدیث مدینہ منورہ میں سینکڑوں مدارسِ حدیث قائم تھے، مدینہ منورہ کی سب سے ممتاز بڑی درسگاہ حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) کی تھی، آپ عمل اہلِ مدینہ کی روشنی میں حدیث پڑھاتے تھے، مؤطا امام مالکؒ اس حلقے کی ممتاز علمی دستاویز ہے، جس کی سند لینے کے لیے دور دراز سے علماء وہاں آتے، حضرت امام محمدؒ (۱۸۹ھ) جیسے جلیل القدر امام جوخود مجتہد تھے، مدینہ کے اس مدرسہ حدیث میں گئے اور وہاں امام مالکؒ سے مؤطا کی سند لی، جہاں حضرت امام محمد کی تحقیق حضرت امام مالکؒ کے موافق نہ ہوئی امام محمدؒ نے اسے "الحجۃ علی اہلِ المدینہ" کے نام سے مرتب کیا، یہ کتاب چار ضخیم جلدوں میں حضرت مولانا مفتی مہدی حسن صاحب سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند کے تحقیقی نوٹوں کے ساتھ چھپ چکی ہے، ہاں جس اصول پر سب مجتہد متفق ہوئے وہ حضرت امام مالکؒ کے الفاظ میں یہ ہے: "انزل اللہ کتابہ وترک فیہ موضعاً لسنۃ نبیہ وسنّ نبیہ السنن وترک فیہ موضعاً للرای والقیاس"۔ (نصب الرایہ للزیلعی:۴/۶۴،مصر) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا اور اس میں اپنے نبی کی سنت کے لیے جگہ چھوڑی اور حضورﷺ نے سنتیں قائم کیں توان میں رائے اور قیاس کی گنجائش چھوڑی۔ اِس رائے اور قیاس سے صحابہ کرامؓ اور مجتہدین عظام نے آگے شریعت کی دیگر جزئیات مکمل کیں؛ انہوں نے یہ مسائل ایجاد نہیں محض دریافت کیے ہیں، مجتہد احکام کا موجد نہیں ہوتا، صرف مظہر ہوتا ہے کہ اس نے اس اصول میں چھپی ایک بات ظاہر کردی۔