انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فقہ کا تعارف اور اس کی عظمت فقہ لغت میں سمجھ بوجھ کو کہتے ہیں ،چاہے سمجھنا واضح اور آسان بات کا ہو یامشکل اور دقیق معنوں کا ،خواہ ان باتوں کا سمجھنا دینی امور سے متعلق ہو یادنیوی امور سے، بہرحال ان سب پر فقہ کی لغوی تعریف صادق آتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی حکایت نقل فرمائی ہے: "قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ"۔ (ھود:۹۱) ترجمہ:قوم نے کہا:اے شعیب آپ کی بہت سی باتوں کو ہم سمجھ نہیں پاتے۔ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے: "وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ"۔ (الاسراء:۴۴) ترجمہ:دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان نہ کرتی ہو مگر تم ان کی تعریف کو نہیں سمجھ پاتے۔ اور حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: "مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔ (بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،باب العلم قبل القول والعمل، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اللہ جس کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرتے ہیں اسے دین میں تفقہ اور سمجھ داری عطا کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث سے معلوم ہوا کہ فقہ مطلق فہم اور سمجھ کو کہتے ہیں۔ (الموسوعۃ الفقہیہ) فقہ کی اصطلاحی تعریف علمائے اصول نے فقہ کی مختلف تعریفیں کی ہیں، عہدصحابہ وتابعین میں جب فقہ کا لفظ بولا جاتا تھا تواس سے ہرقسم کے دینی احکام کا فہم مراد ہوتا تھا، جس میں ایمان وعقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود ،فرائض سب داخل سمجھے جاتے تھے؛ اسی لیے حضرت امام ابوحنیفہؒ سے فقہ کی تعریف یوں منقول ہے: "اَلْفِقْہُ ھُوَمَعْرِفَۃٌ النَّفْسِ مَالَھَا وَمَاعَلَیْھَا"۔ (البحرالمحیط:۱/۱۹۔ تاریخ الفقہ الاسلامی:۹۔ المدخل:۱۰) ترجمہ:یعنی جس سے انسان اپنے نفع ونقصان اور حقوق وفرائض کو جان لے وہ فقہ ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ سے اسی بناء پر عقائد پر لکھی جانے والی کتاب کا نام "الفقہ الاکبر" رکھا جو آج کل متداول اور درس نظامی میں داخل نصاب ہے لیکن بعد کے ادوار میں عقائد کو فقہ کے مفہوم سے خارج کردیا گیا۔ عقائد کو علم توحید، علم کلام اور علم عقائد سے موسوم کیا گیا اور فقہ کی تعریف اس طرح کی گئی: "الفقہ علم بالاحکام الفرعیۃ العملیۃ بالادلۃ التفصیلۃ"۔ (البحرالرائق:۱/۶) ترجمہ:احکام فرعیہ شرعیہ عملیہ کو تفصیلی دلائل سے جاننے کا نام فقہ ہے۔ علامہ ابن خلدون نے فقہ کی تعریف میں لکھا ہے:افعال مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکام الہٰی کے جاننے کا نام فقہ ہے کہ وہ واجب ہیں یامحظور، ممنوع وحرام، مستحب اور مباح ہیں یامکروہ۔ (الموسوعۃ الفقہیہ:۱/۱۲) علم فقہ کا موضوع مکلّف آدمی کا فعل ہے جس کے احکام سے اس علم میں بحث ہوتی ہے، مثلاً انسان کے کسی فعل کا صحیح، فاسد، فرض وواجب، سنت ومستحب، یاحلال وحرام ہونا وغیرہ۔ (مقدمہ ابن خلدون:۲/۳۴۱) فقہ کی غرض وغایت سعادت دارین کی کامیابی اور علم فقہ کے ذریعہ شرعی احکام کے مطابق عمل کرنے کی قدرت۔ (شامی، بیروت:۱/۱۲۰) علم فقہ اور اس کی عظمت قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا"۔ (البقرۃ:۹۶۲) ترجمہ:جس کو حکمت دی گئی پس اس کو خیرکثیر دیا گیا۔ اِس آیت کی تشریح میں مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ اس سے علم فقہ مراد ہے۔ (شامی:۱/۱۲۱) اور حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے: "من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین" (درمختار:۱/۶) ترجمہ:اللہ جس بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے تفقہ فی الدین یعنی دین میں تفقہ اور صحیح سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ نیزآپﷺنے ارشاد فرمایا: "فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ"۔ (ابن ماجہ، بَاب فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ، حدیث نمبر:۲۱۸، شاملہ) ترجمہ:کہ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے بھاری ہوتا ہے۔ کیونکہ عابد کی عبادت بلا بصیرت ہوتی ہے، اس لیے شیطان کو اسے گمراہی کے گڑھے میں ڈھکیلنا اور شکوک وشبہات کے جال میں پھانسنا بہت آسان ہوتا ہے؛ جب کہ فقیہ اس کی سازشوں اور چالوں سے واقف ہوتا ہے اور وہ اس کے دامِ فریب میں عام طور پر نہیں آتا ہے، صاحب الاشباہ والنظائر نے فقہ کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "الفقۃ أشرف العلوم قدراً وأعظمھا أجرا وأتمھا عائدۃ وأعمھا فائدۃ وأعلاھا مرتبہ یملا العیون نوراً والقلوب سروراً والصدور انشراحاً"۔ (الاشباہ والنظائر کا مقدمہ:۱/۲۰) ترجمہ:علم فقہ تمام علوم میں قدرومنزلت کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے اور اجر کے اعتبار سے بھی اس کا مرتبہ اونچا ہے، علم فقہ اپنے مقام ورتبہ کے اعتبار سے بھی بہت بلند ہے اور وہ آنکھوں کو نور اور جلا بخشتا ہے، دل کو سکون اور فرحت بخشتا ہے اور اس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔ اور صاحب درمختار نے علم فقہ کی عظمت کا یوں تذکرہ کیا ہے۔ "وخیرعلوم علم فقہ ؛لانہ یکون الی العلوم توسلاً ؛فان فقیھا واحداً متورعاً علی الف ذی زھد تفضل واعتلیٰ ،تفقہ فان الفقہ افضل قائد الی البر والتقوی وأعدل قاصد وکن مستفیدا کل یوم زیادۃ من الفقہ واسبح فی بحور الفوائد"۔ (مقدمہ درمختار:۱/۶) تمام علوم میں قدرومنزلت اور مقام ورتبہ کے اعتبار سے سب سے بہتر علم فقہ ہے، اس لیے کہ علم فقہ تمام علوم تک پہونچنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے، اسی وجہ سے ایک متقی فقیہ ہزار عابدوں پر بھاری ہوتا ہے، علم فقہ کو حاصل کرنا چاہیے، اس لیے کہ علم فقہ نیکی اور تقویٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہردن علم فقہ سے مستفید ہوتے رہنا چاہیے، اس کے سمندر میں غوطہ زنی کرنا چاہیے۔