انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** رات ا ور دن کی دیگر نفل نمازیں اوراُن کے فضائل ومواقع تراویح تراویح "ترویحہ" کی جمع ہے جو راحت سے ماخوذ ہے چونکہ اس نماز میں ہر چار رکعت پر استراحت کے لیے تھوڑا سا وقفہ رکھا گیا ہے؛اس لیے اس نماز کو تراویح کہتے ہیں۔ (غنیۃ المستملی) تراویح کی ابتداء رمضان المبارک کی ایک امتیازی عبادت "نماز تراویح" ہے، جو اپنی الگ شان رکھتی ہے، اس نماز کے ذریعہ رمضان المبارک میں مسجدوں کی رونق بڑھ جاتی ہے اورعبادات کے شوق میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے، صحیح احادیث شریفہ سے ثابت ہے کہ نبی اکرمؐ نے رمضان المبارک میں تین دن مسجد نبوی میں باجماعت نماز پڑھائی؛ لیکن جب مجمع زیادہ بڑھنے لگا اورصحابہ کرام ؓ کے غیر معمولی ذوق وشوق کو دیکھ کر آپ ﷺ کو خطرہ ہوا کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ کردی جائے ؛تو آپ ﷺ نے یہ سلسلہ موقوف فرمادیا۱؎۔ لیکن ساتھ میں آپؐ رمضان المبارک کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادات انجام دینے کی ترغیب دیتے رہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ"جو شخص رمضان المبارک کی راتوں کو ایمان اوراخلاص کے ساتھ عبادت میں گذارے گا اس کے سب پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے"۲؎۔ آپ ﷺ کی اس ترغیب کی وجہ سے حضرات صحابہ ؓ رمضان المبارک میں کثرت عبادت کا اہتمام کرتے تھے، جو لوگ قرآن کریم کے حافظ تھے وہ خود نوافل میں قرآن پڑھتے اور جو حافظ نہ تھے وہ کسی حافظ کی اقتداء میں قرآن کریم سننے کی سعادت حاصل کرتے تھے؛ چنانچہ ثعلبہ ابن ابی مالک القرظیؒ( جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تابعی عالم ہیں)مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ رمضان المبارک کی رات میں پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام مسجد میں تشریف لائے تودیکھا کہ مسجد کے ایک گوشہ میں کچھ لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے ہیں، آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟ تو کسی نے جواب میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ وہ حضرات ہیں جن کو قرآن کریم حفظ نہیں ہے ، تو حضرت ابی ابن کعب ؓ نماز میں قرآن کریم پڑھ رہے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز ادا کررہے ہیں، یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے بہت اچھا کیا اور آپ ﷺ نے ان کے بارے میں کوئی نا گواری کی بات ارشاد نہیں فرمائی ۳؎۔ اس تفصیل سے اتنا یقیناً معلوم ہوگیا کہ دورِ نبوت میں رمضان کی وہ خصوصی نماز جسے بعد میں"تراویح" کا نام دیا گیا، یقیناً پڑھی جاتی رہی اورحضرات صحابہ ؓ اس نماز سے بخوبی واقف تھے اور تنہا تنہا اور کبھی جماعت سے اُسے پڑھا کرتے تھے۔ پھر دورِ صدیقی اوردورِ فاروقی کے ابتدائی زمانہ تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، اس کے بعد سیدنا حضرت عمرفاروق ؓ نے یہ دیکھ کر کہ لوگ مسجد میں تنہایا چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر نماز تراویح پڑھتے ہیں، آپ نے مناسب سمجھا کہ تراویح کی باقاعدہ جماعت قائم کردی جائے (کیوں کہ جس خطرہ ٔوجوب کی وجہ سے جناب رسول اللہ ﷺ نے جماعت تراویح کا سلسلہ موقوف فرمادیا تھا؛ اب آپ ﷺ کی وفات کے بعد یہ خطرہ باقی نہ رہا تھا) چنانچہ آپ نے صحابہ ؓ کے سب سے بڑے قاری حضرت ابی ابن کعبؓ کو تراویح کا امام مقرر فرمایا اورصحابہ ؓ حضرت ابی ابن کعب ؓ کی اقتداء میں نماز تراویح پڑھنے لگے۴؎۔ (۱)بخاری شریف،بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۸۷۳۔ (۲)بخاری شریف،بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۸۷۰،شاملہ۔ (۳)السنن الکبریٰ للبیہقی، باب من زعم أنها بالجماعة أفضل لمن لا يكون حافظا للقرآن،حدیث نمبر:۴۷۹۴شاملہ۔ (۴)بخاری شریف،بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۸۷۱شاملہ۔ تراویح کی کتنی رکعات ہیں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ اورحضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے ۱۱/رکعات پڑھائیں۱؎ (۸/رکعت تراویح اور ۳/ وتر)۔ لیکن اکثر روایات اورآثار صحابہ ؓ سے ۲۰/رکعت تراویح کا پتہ چلتا ہے، چند روایات درج ذیل ہیں: عبدالعزیز بن رفیعؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب ؓ رمضان المبارک میں مدینہ منورہ میں ۲۰/رکعات تراویح لوگوں کو پڑھاتے تھے اس کے بعد ۳/رکعت وتر کی پڑھایا کرتے تھے۲؎۔ سائب بن یزیدؒ فرماتے ہیں کہ دورِ فاروقی میں حضرات صحابہ ؓ رمضان المبارک میں ۲۰/ رکعت باجماعت پڑھا کرتے تھے؛ نیز یہ بھی فرمایا کہ حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانہ میں لوگ سو سے اوپر آیتوں والی سورتیں تراویح میں پڑھتے تھے اور لمبے قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے۳؎۔ یزید بن رومان ؓ فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان المبارک میں حضرت عمر بن الخطاب ؓ کے زمانہ میں تئیس(۲۳) رکعت نماز تراویح پڑھتے تھے۴؎ (۲۰/رکعت تراویح اور ۳/وتر)۔ ابو الخصیب ؒ کہتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہ ؓ ہمیں رمضان میں ۵/تر ویحوں سے بیس رکعت پڑھایا کرتے تھے۵؎۔ حضرت ابو عبدالرحمن السلمیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قراءحضرات کو بلایا پھر ان میں سے ایک صاحب کو منتخب کرکے حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھایا کریں اور اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ ان لوگوں کو وتر کی نماز پڑھاتے تھے۶؎۔ علاوہ ازیں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی ایک روایت (جس کے ایک راوی پر کچھ کلام کیا گیا ہے) سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺکا رمضان المبارک میں ۲۰رکعت الگ سے پڑھنے کا معمول تھا۷؎۔ انہیں روایات وآثار کی وجہ سے جمہور علماء امت اورحضراتِ ائمہ اربعہ(امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) کا متفقہ موقف یہ ہے کہ تراویح کی رکعات ۲۰ سے کم نہیں ہیں، ۲۰ سے زیادہ کے تو اقوال ملتے ہیں(جیسا کہ امام مالک ؒ کا قول ہے) لیکن ۲۰/ کے عدد سے کم کا ائمہ اربعہ میں سے کوئی قائل نہیں ہے اور تمام عالم میں شرقاً و غرباً صدیوں سے امت کا عمل یہی چلا آرہا ہے؛ حتی کہ حرمین شریفین میں آج تک ۲۰رکعات ہی پڑھی جاتی ہیں؛ اس لیے تراویح ۲۰/ رکعت پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے اور اس میں کسی مسلمان کوکسی قسم کی کوتاہی نہیں برتنی چاہئے۔ (۱)السنن الکبریٰ للبیہقی، باب ما روى فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان ،حدیث نمبر:۴۸۰۰شاملہ۔ (۲)مصنف ابن ابی شیبہ،باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ:حدیث نمبر:۷۷۶۶شاملہ۔ (۳)السنن الکبریٰ للبیہقی،باب ماروى فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان،حدیث نمبر:۴۸۰۱شاملہ۔ (۴)السنن الکبریٰ للبیہقی،باب ما روى فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان،حدیث نمبر:۴۸۰۲شاملہ۔ (۵)السنن الکبریٰ للبیہقی،باب ماروى فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان،حدیث نمبر:۴۸۰۲شاملہ۔ (۶)السنن الکبریٰ للبیہقی،باب ما روى فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان،حدیث نمبر:۴۸۰۴ا،شاملہ۔ (۷)مصنف ابن ابی شیبہ، باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ،حدیث نمبر:۷۷۷۴، جلدنمبر:۲/۳۹۴۔ المعجم الاوسط للطبراني،من اسمه احمد،حدیث نمبر:۸۱۰۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت سے ۸/رکعات تراویح کا اشتباہ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تراویح کی رکعات کے بارے میں علماء کے ایک طبقہ کو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت سے اشتباہ ہوگیا ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رمضان اورغیر رمضان کی نوافل کو۸/(آٹھ)کے عدد میں منحصر کیا ہے۱؎۔ اس روایت سے بہت سے لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ تراویح کی رکعات بھی صرف ۸/ ہیں اس سے زیادہ نہیں ؛حالانکہ اس روایت کا تعلق تراویح سے نہیں؛ بلکہ تہجد سے ہے اور تراویح کی رکعات پر اس روایت سے استدلال بالکل غیر معقول ہے؛ کیونکہ حضرت عائشہؓ کا "غیر رمضان " کو شامل کرکے جواب دینا یہ بتارہا ہے کہ سوال ایسی نماز سے متعلق ہے جو غیر مضان میں بھی پڑھی جاتی ہے اورایسی نماز تہجد تو ہوسکتی ہے تراویح نہیں ہوسکتی ؛کیوں کہ اسے غیر رمضان میں پڑھنے کا کوئی قائل نہیں، خود حضرت عائشہؓ کی روایت تہجد کی ۸/رکعت سے کم و بیش کے بارے میں بھی وارد ہے۲؎۔ توچوں کہ رکعتوں کی تعیین کے متعلق روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے؛ لہٰذا استدلال تام نہیں، تیسرے یہ کہ اسی روایت میں ایک سلام سے تین رکعت وتر پڑھنے کا ذکر ہے اور جو طبقہ تراویح کی ۸ رکعات کا قائل ہے وہ اس روایت کے برخلاف ایک سلام سے وتر کی تین رکعات کا منکر ہے، اس لیے جب وتر میں یہ روایت ان کے نزدیک حجت نہیں تو تراویح کی رکعات میں حجت کیسے مانی جاسکتی ہے؟۔ (۱)بخاری شریف،بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۸۷۴شاملہ۔ (۲)بخاری،بَاب قِيَامِ النَّبِيِّﷺ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ،حدیث نمبر:۱۰۷۹۔ تراویح میں ختم قرآن تراویح میں قرآنِ کریم کم از کم ایک مرتبہ ختم کرنا سنت ہے۔ ("عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنَ أَبِى مَالِكٍ الْقُرَظِىَّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِى رَمَضَانَ، فَرَأَى نَاسًا فِى نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ يُصَلُّونَ فَقَالَ: مَايَصْنَعُ هَؤُلاَءِ؟ قَالَ قَائِلٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ هَؤُلاَءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ، وَأُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ يَقْرَأُ وَهُمْ مَعَهُ يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ، قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوا، أَوْ قَدْ أَصَابُوا، وَلَمْ يَكْرَهْ ذَلِكَ لَهُم" السنن الكبري للبيهقي، باب مَنْ زَعَمَ أَنَّهَا بِالْجَمَاعَةِ أَفْضَلُ لِمَنْ لاَ يَكُونُ حَافِظًا لِلْقُرْآنِ،حدیث نمبر:۴۷۹۴۔ "ففيه مايدل علي ان اجتماعهم لقيام رمضان كان لختم القرآن فحسب،فان قوله:(هولاء ناس ليس معهم القرآن)ليس معناه انهم لايقدرون علي قراءة قدر ماتجوز به الصلاة،فان ذلك بعيد عن الصحابةالكائنين بالمدينةجدا،بل معناه ليس معهم القرآن كله" اعلاءالسنن، كيفية قراءةالقرآن في التراويح:۷/۷۴)۔ اللہ تبارک وتعالی پوری امت کی طرف سے سیدنا حضرت عمر بن الخطاب ؓ کو بے حد جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے باجماعت تراویح اورقرأت قرآن کے اہتمام کا حکم دے کر قرآن کریم کی حفاظت کا ایک سبب مہیا فرمادیا۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رمضان المبارک کی پہلی شب میں مسجد نبوی سے گذرے تو وہاں قرآن کریم پڑھنے کی آواز آپ کو سنائی دی تو بے ساختہ ارشاد فرمایا: " نور اللہ قبر عمر کما نور مساجد اللہ بالقرآن"۔ (غنیۃ الطالبین:۴۸۷۔ موطا محمد،باب قیام شھر رمضان:۱/۳۵۵شاملہ) یعنی اللہ تعالی حضرت عمرؓ کی قبر کو نور سے بھر دے جیسا کہ انہوں نے اللہ کی مسجدوں کوقرآن کریم کی تلاوت سے منور کردیا ہے اورحضرت عمرؓ کے بارے میں اسی طرح کا جملہ سیدنا حضرت عثمانِ غنی ؓ سے بھی منقول ہے۔ (فقہ العبادات، الصلات المسنونۃ، ماتسن فیہ الجماعۃ:۱/۳۶۷) تراویح میں ختمِ قرآن کا ایک خاص فائدہ واقعہ یہ ہے کہ اگر اس انداز پر تراویح میں قرآنِ کریم سننے سنانے کا رواج نہ ہوتا تو کتنے ہی حفاظ حفظ کرنے کے باوجود اپنے حفظ کومحفوظ نہ رکھ پاتے، تراویح میں سنانے یا سننے کی فکر کی وجہ سے سال میں کم از کم ایک مرتبہ اکثر حفاظ کرام از سرنو یاد کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس لیے تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا چاہئے، لیکن ضروری ہے کہ پڑھنے والے اورسننے والے قرآن کریم کے آداب کاضرور لحاظ رکھیں، افسوس ہے کہ آج کل اس بارے میں سخت کوتاہی برتی جاتی ہے اورجلد از جلد ختم قرآن کے شوق میں شرعی ہدایات کوپس پشت ڈال دیا جاتا ہے، عام طور پر تین تین اورکہیں کہیں پانچ پانچ پارے تراویح میں پڑھنے کا رواج ہوچلا ہے ،زیادہ سننا یا پڑھنا برا نہیں ہے ؛لیکن شرط یہ ہے کہ اتنا تیز نہ پڑھا جائے کہ حروف کٹ جائیں یا غلطیاں رہ جائیں، ایسی جلد بازی قرآن کریم کے ساتھ سخت بے ادبی اور توہین ہے، بہتر ہے کہ روزانہ اتنی مقدار میں قرآن پاک سناجائے کہ ستائیسویں یا انتیسویں شب میں ایک ختم ہوجائے (شامی:۲/۴۳۳) تاکہ اس بہانے اخیر مہینہ تک تراویح کی پابندی اورذوق وشوق برقرار رہےاوررمضان کا آخری عشرہ سستی اورکاہلی کی نذر نہ ہوجائے، اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے، آمین۔ قیامِ لیل (تہجد)کی نمازکاوقت عشاء اورفجر کے درمیان کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے،اگر عشاءاول وقت ہی میں پڑھ لی جائے یا کچھ دیر سے بھی پڑھی جائے توفجر تک بہت وقت خالی رہ جاتا ہے،حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ فضا میں جیسا سکون رات کے سناٹے میں ہوتا ہے ایسا دوسرے کسی وقت میں نہیں ہوتا اوراگر عشاء کے بعد آدمی کچھ دیر کے لیے سو جائے اورآدھی رات گزرنے کے بعد کسی وقت اٹھ جائے تو پھر اس وقت جیسی یکسوئی اوردلجمعی کے ساتھ نماز نصیب ہوجاتی ہے وہ دوسرے وقت نصیب نہیں ہوتی،علاوہ ازیں اس وقت بستر چھوڑکر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اورتربیت کا بھی خاص وسیلہ ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا : "إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا"۔ (المزمل:۶) بيشك رات كا اٹهنا خوب موثر ہےکچلنے میں اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ) دوسری جگہ ارشاد ہے: "تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا"۔ (السجدۃ:۱۶) ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اس طور پر کہ وہ لوگ اپنے رب کو امید سے اورخوف سے پکارتے ہیں۔ (ترجمہ تھانویؒ) آگے فرمایا گیا: "ان بندوں کے اس عمل کا جو انعام اورصلہ جنت میں ملنے والا ہے،جس میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا پورا سامان ہے اس کو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا"۔ (السجدۃ:۱۷) احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالی اپنے پورے لطف و کرم اوراپنی خاص شان رحمت کے ساتھ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جن بندوں کو ان باتوں کا کچھ احساس وشعور بخشا گیا وہ اس مبارک وقت کی خاص برکات کومحسوس بھی کرتے ہیں۔ تہجد کے فضائل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہمارا مالک اوررب تبارک وتعالی ہر رات کو جس وقت آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے،سماء دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اورارشاد فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعاکرے اورمیں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت اوربخشش چاہے میں اس کو بخش دوں؟۱؎۔ سماء دنیا کی طرف اللہ تعالی کا نزول فرمانا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے، وہ اللہ تعالی کی ایک صفت اوراس کا ایک فعل ہے جس کی حقیقت ہم نہیں جانتے جس طرح ید اللہ، وجہ اللہ اوراستوی علی العرش اوراس کے عام صفات وافعال کی حقیقت اورکیفیت بھی ہم نہیں جانتے اللہ تعالی کی ذات اورصفات وافعال کی حقیقت اورکیفیت کے علم کے اپنی عاجز ی اورجہالت کا اقرار واعتراف ہی علم ہے،ائمہ سلف کا طریقہ اورمسلک يہی رہا ہے کہ ان کے بارے میں اپنی نارسائی اوربے علمی کا اقرار کیا جائے اوران کی حقیقت اورکیفیت کا علم دوسرے متشابہات کی طرح خدا کے سپرد کیا جائے اور مانا جائے کہ جو بھی حقیقت ہے وہ حق ہے؛ لیکن اس حدیث کا پیغام بالکل واضح ہے کہ رات کے آخری تہائی حصے میں اللہ تعالی اپنی خاص شانِ رحمت کے ساتھ بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور خود ان کو دعا اورسوال اوراستغفار کے لیے پکارتا ہے،جو بندے اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اس وقت بستر ے پر سوئے رہنا اس سے زیادہ مشکل ہوتا ہے جتنا دوسروں کے لیے اس وقت بستر چھوڑکر کھڑا ہونا، اللہ تعالی اپنے فضل سے اس حقیقت کا ایسا یقین نصیب فرمائے جو اس وقت بے چین کرکے اللہ تعالی کے دربار کی حاضری اوردعاو سوال واستغفار کے لیے کھڑا کردیا کرے،آمین۲؎۔ حضرت عمروبن عبسہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری درمیانی حصے میں ہوتا ہے،لہٰذا اگر تم سے ہوسکے تو تم ان بندوں میں سے ہوجاؤ جو اس مبارک وقت میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں توتم ان میں ہوجاؤ۳؎۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا فرض نماز کے بعد سب سے افضل درمیان رات کی نماز (تہجد) ہے۴؎۔ حضرت ابو امامہ ؓ نےبیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم ضرور تہجد پڑھا کرو کیونکہ وہ تم سے پہلے صالحین کا طریقہ اورشعار رہا ہے اورقرب الہٰی کا خاص وسیلہ ہے اوروہ گناہوں کے برے اثرات کو مٹانے والی اورمعاصی سے روکنے والی چیز ہے۵؎۔ اس حدیث میں تہجد کی چار خصوصیات بتائی گئی ہیں اول یہ کہ وہ دورِ قدیم سے اللہ کے نیک بندوں کا طریقہ اورشعار رہا ہے،دوسرے یہ کہ تقرب الہٰی کا خاص وسیلہ اورذریعہ ہے،تیسرے اورچوتھے یہ کہ اس میں گناہوں کا کفارہ بن کر ان کے اثرات کومٹانے اورمعاصی روکنے کی خاصیت ہے۔ حق یہ ہے کہ نماز تہجد عظیم ترین دولت ہے، حضرت جنید بغدادی ؒ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے وصال کے بعد بعض حضرات نے ان کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ کیا گزری اورآپ کے پروردگارنے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ جواب میں فرمایا :"تاھت العبارات وفنیت الاشارات ومانفعنا الارکعات صلینا ھا فی جوف اللیل" حقائق و معارف کی جو جو اونچی اونچی باتیں ہم عبارات اوراشارات میں کیا کرتے تھے وہ سب وہاں ہوا ہوگئیں اور صرف وه رکعتیں کام آئیں جو رات میں ہم پڑھا کرتے تھے۔ (۱)بخاری، باب الدعاء فی الصلاۃ من آخر اللیل، حدیث نمبر:۱۰۷۷۔ (۲)فتح الباري:۴/۱۳۲۔ (۳)ترمذی، باب فی دعاء الضیف، حدیث نمبر:۳۵۰۳۔ (۴)مسلم، باب فضل صوم المحرم، حدیث نمبر:۱۹۸۳۔ (۵)ترمذی، باب فی دعاء النبی ﷺ، حدیث نمبر:۳۴۷۲۔ تہجد کی رکعتیں احادیث رکعات تہجد کے سلسلہ میں مختلف ہیں،تمام روایات کے مجموعہ سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کم سے کم چاررکعت اورزیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے جن میں وتر اورسنتِ فجر کی دورکعتیں بھی شامل ہوتی تھیں۱؎۔ اس حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے تہجد کی رکعات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا جو معمول بتلایا ہے وہ آپ کا اکثری معمول تھا؛ ورنہ خود حضرت عائشہ ہی کی بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھی آپ اس سے بھی کم پڑھتے تھے اوروتر کی تین رکعت اورفجر کی دورکعت سنت نکال دیں تو آٹھ رکعت تہجد کی ہونگی۔ دوسری روایت اس طرح ہے: مسروق تابعی روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ عنہا سے دریافت کیا(کہ آپ کتنی رکعتیں پڑھتے تھے) تو انہوں نے فرمایا: سات ،نو اورگیارہ سنت فجر کے علاوہ۲؎۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہؐ تہجد میں کبھی صرف سات رکعتیں پڑھتے تھے(چاررکعت تہجد اورتین رکعت وتر) اورکبھی صرف نو(چھ رکعت تہجد اورتین رکعت وتر) اور کبھی گیارہ (آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعت وتر) حدیث کی یہی تفصیل خود حضرت عائشہ نے بیان کی ہے جو ابوداؤد، باب فی صلاۃ اللیل، حدیث نمبر:۱۱۵۵ میں مذکور ہے۔ (۱)مسلم،باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبیﷺ، حدیث نمبر:۱۲۲۰۔ بخاری ،باب کیف کان صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر:۱۰۷۲۔ (۲)بخاری، باب کیف کان صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر:۱۰۷۱۔ چاشت اوراشراق کی نمازکاوقت جس طرح عشاء کے بعد سے لیکر طلوع فجر تک کے طویل وقفہ میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے؛ لیکن اس درمیان میں تہجد کی کچھ رکعتیں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے، اسی طرح فجر سے لیکر ظہر تک کے طویل وقفہ میں بھی کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے ،مگر اس درمیان میں اشراق کی دو یا چار اور چاشت کی "صلاۃ الضحی" کے عنوان سے کم از کم دو اورزیادہ سے زیادہ جتنی ہوسکیں نفلی رکعتیں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے، اگریہ رکعتیں طلوعِ آفتاب کے تھوڑی ہی دیر کے بعد پڑھی جائیں تو ان کواشراق کہا جاتا ہے اوراگر سورج میں شدت پیدا ہونے اورسورج زیادہ بلند ہونے کے بعد پڑھی جائیں تو چاشت کہتے ہیں۔ (حجۃ اللہ،النوافل:۱/۴۵۲) ("عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْﷺأَنَّهُ قَالَ يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنْ الضُّحَى" مسلم،بَاب اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى وَأَنَّ أَقَلَّهَا، حدیث نمبر:۱۱۸۱۔ "عن مُعَاذَةَ أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ ؓ كَمْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ يُصَلِّي صَلَاةَ الضُّحَى قَالَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَيَزِيدُ مَا شَاءَ" مسلم،بَاب اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى، حدیث نمبر:۱۱۷۵۔ "عن الحسن بن علی رضی اللہ عنہما قال سمعت رسول اللهﷺ يقول من صلى الغداة ثم ذكر الله عز وجل حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين أوأربع ركعات لم تمس جلده النار" شعب الایمان، باب من صلی الغداۃ ثم ذکراللہ، حدیث نمبر:۳۷۹۷)۔ اشراق کی نماز کے فضائل حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا جو شخص فجر کی نماز جماعت سے پڑھتا ہے پھر آفتاب نکلنے تک اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول رہتا ہے پھر دو رکعت نفل پڑتا ہے تو اسے حج اورعمرہ کا ثواب ملتا ہے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے تین بار ارشاد فرمایا: کامل حج اورعمرہ کا ثواب ملتا ہے،کامل حج اورعمرہ کا ثواب ملتا ہے، کامل حج اورعمرہ کا ثواب، ملتا ہے ۱؎۔ حضرت حسن بن علی ؓ سے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے جو شخص فجر کی نماز پڑھ کر سورج نکلنے تک اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول رہتا ہے؛ پھر دویا چار رکعت (اشراق کی نماز) پڑھتا ہے تو اس کی کھال کو (بھی) دوزخ کی آگ نہ چھوئے گی۲؎۔ (۱)ترمذی،بَاب ذِكْرِ مَايُسْتَحَبُّ مِنْ الْجُلُوسِ فِي الْمَسْجِدِ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، حدیث نمبر:۵۳۵۔ (۲)شعب الايمان، من صلى الغداة ثم ذكر الله عز وجل، حدیث نمبر:۳۷۹۷۔ چاشت کی نماز کے فضائل حضرت ابوذرغفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہرشخص کے جوڑ جوڑ پر صبح کو صدقہ ہے(یعنی صحیح آدمی اس حال میں اٹھتا ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء اوران کا ہرجوڑ صحیح سلامت ہے تو اللہ کی اس نعمت کے شکریہ میں ہرجوڑ کی طرف سے اس کو صدقہ یعنی کوئی نیکی اورثواب کا کام کرنا چاہئے اورایسے کاموں کی فہرست بہت وسیع ہے) لہٰذا ایک دفعہ "سُبْحَانَ اللہِ" کہنا بھی صدقہ ہے اور "أَلْحَمْدُ اللہِ" کہنا بھی صدقہ ہے اور "لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کہنا بھی صدقہ اور "اَللہُ أَکْبَرْ" کہنا بھی صدقہ ہے اورامربالمعروف اورنہی عن المنکر بھی صدقہ ہے، اس شکر کی ادائیگی کے لیے دورکعتیں کافی ہیں جو آدمی چاشت کے وقت پڑھے۱؎۔ مطلب یہ ہے کہ جو صدقہ ہر روز صبح کو اداکرنا چاہئے چاشت کی دورکعتیں پڑھنے سے وہ پوری طرح ادا ہوجاتا ہے اوراللہ تعالی اس مختصر شکرانہ کو اس کے ہرجوڑ کی طرف سے قبول فرمالیتا ہے اورغالبا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نماز ایسی عبادت ہے جن میں انسان کے سارے اعضاء اوراس کے تمام جوڑ اوراس کا ظاہر وباطن سب ہی شریک رہتے ہیں۲؎۔ (۲)حضرت ابوالدردا ءاورحضرت ابوذر غفاری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:اے فرزند آدم! تودن کے ابتدائی حصہ میں چاررکعتیں میرے لیے پڑھا کر میں دن کے آخری حصہ تک تجھے کفایت کروں گا۳؎۔ اللہ کا جو بندہ رب کریم کے اس وعدہ پر یقین رکھتے ہوئے اشراق یا چاشت کے وقت پورے اخلاص کے ساتھ چار رکعتیں اللہ تعالی کے لیے پڑھےگا،انشاء اللہ اس حدیث قدسی کے مطابق وہ ضرور دیکھے گا کہ مالک الملک دن بھر کے اس کے مسائل کو کس طرح حل فرماتا ہے۔ (۳)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے دوگانہ چاشت کا اہتمام کیا اس کے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے؛اگر چہ وہ کثرت میں سمندر کے جھاگوں کے برابر ہوں۴؎۔ (۱)مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ، حدیث نمبر:۱۱۸۱۔ (۲)حجۃالله البالغۃ،النوافل:۱/۴۵۳۔ (۳)ترمذی، باب ماجاء فی صلاۃ الضحی، حدیث نمبر:۴۳۷۔ (۴)ترمذی،باب ماجاء صلاۃ الضحی،حدیث نمبر:۴۳۸۔ چاشت کی نماز کی حکمت حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے چاشت کی جو حکمت بیان کی ہے اس کا خلاصہ اس طرح ہے : (اہل عرب کے نزدیک دن کی شروعات فجر کے وقت سے ہوتی ہے اورمکمل دن چار حصوں میں تقسیم ہے جن کو چار پہر کہتے ہیں) حکمت الہٰی کا تقاضا ہوا کہ دن کے ان چار پہروں میں سے کوئی پہر بھی نماز سے خالی نہ رہے؛ اس لیے پہلے پہر کے شروع میں نماز فجر فرض کی گئی اورتیسرے اورچوتھے پہر میں ظہر و عصر اوردوسرا پہر جو عوام الناس کی معاشی مشغولیتوں کی رعایت سے فرض نماز سے خالی رکھا گیا تھا اس میں نفل اورمستحب کے طورپر یہ ‘صلوۃ الضحی’ (چاشت کی نماز) مقرر کردی گئی ہے اوراس کے فضائل و برکات بیان کرکے اس کی ترغیب دی گئی ہے کہ جو بندگان خدا اپنے مشاغل سے وقت نکال کر اس وقت میں چند رکعتیں پڑھ سکیں وہ یہ سعادت حاصل کریں، یہ صلوۃ الضحیٰ کم سے کم دورکعت اوراس سے زیاہ نفع بخش چار رکعت اوراس سے بھی افضل آٹھ رکعت ہیں۔ (حجۃ اللہ البالغۃ، باب النوافل:۱/۴۵۲) خاص حالات کی نفل نمازیں فرض نمازوں سے پہلے یا بعد میں پڑھے جانے والے نوافل اوراسی طرح تہجد، اشراق اورچاشت یہ سب وہ نوافل ہیں جن کے اوقات متعین ہیں، لیکن کچھ نوافل وہ ہیں جن کا تعلق خاص اوقات سے نہیں بلکہ خاص حالات سے ہے جیسے وضو کے بعدکی دورکعت(جس کوتحیۃالوضو کہتے ہیں) یا تحیۃ المسجد اسی طرح صلوۃ الحاجۃ،صلوۃ التوبہ اورنماز استخارہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی وقت متعین نہیں ہے بلکہ جس وقت بھی وہ حالات یا ضروریات پیش آئیں جن سے ان نوافل کا تعلق ہے یہ اسی وقت پڑھے جاتے ہیں۔ تحیۃ الوضو جب بھی وضو کرے تو وضو کے بعد فوراً دورکعت نماز پڑھ لے اس کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فجر کی نماز کے بعد بلالؓ سے فرمایا:تمھیں اپنے جس اسلامی عمل سے سب سے زیادہ امید خیروثواب ہو وہ مجھے بتلاؤ؛ کیونکہ میں نے تمہارے چپلوں کی چاپ (آواز) جنت میں اپنے آگے آگے سنی ہے (مطلب یہ ہے کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں چل پھر رہا ہوں اور آگے آگے تمہارے قدموں کی آہٹ سن رہا ہوں تو میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تمہارے کس عمل کی برکت ہے؛لہٰذا تم مجھے اپنا وہ عمل بتاؤ جس سے تمہیں سب سے زیادہ ثواب اوررحمت کی امیدہو) حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ مجھے اپنے اعمال میں سب سے زیادہ امید اپنے اس عمل سے ہے کہ میں نے رات یا دن کے کسی وقت جب بھی وضو کیا ہے تو اس وضو سے میں نے نماز ضرور پڑھا،جتنی نماز کی بھی مجھے اللہ تعالی کی طرف سے اس وقت توفیق ملی۱؎۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کے قدموں کی آہٹ یا چپلوں کی آواز جنت میں سننے کی جو اطلاع دی ہے، یہ خواب کا واقعہ ہے،اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حضرت بلال ؓ زندگی میں جنت میں کس طرح پہنچ گئے؛ البتہ حضورﷺ کے خواب میں حضرت بلال ؓ کو جنت میں دیکھنا اور اس کا بیان فرمانا اس بات کی قطعی شہادت ہے کہ حضرت بلال ؓ جنتی ہیں؛ بلکہ درجۂ اوّل کے جنتیوں میں ہیں۲؎۔ اس حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہ ہے کہ بندہ اس کی عادت ڈالے کہ جب بھی وضو کرے اس سے حسب توفیق کچھ نماز ضرور پڑھے خواہ فرض ہو یا سنت یا نفل ۔ (۱)بخاری، باب فضل الطھور باللیل والنھار،حدیث نمبر:۱۰۸۱۔ (۲)فتح الباري:۴/۱۳۹۔ تحیۃ المسجد مسجد کو اللہ تعالی سے ایک خاص نسبت ہے اور اسی نسبت سے اس کو "اللہ کا گھر" کہا جاتا ہے، اس لیے اس کے حقوق وآداب میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں جاکر بیٹھنے سے پہلے دورکعت نماز ادا کی جائے یہ گویا بارگاہِ خداوندی کی سلامی ہے اس لیے اس کو "تحیۃ المسجد"کہتے ہیں اور تحیۃ کے معنی سلامی کے ہیں۔ "عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَادَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ "۔ (بخاری، بَاب إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ، حدیث نمبر:۴۲۵) اس حدیث میں صراحۃ یہ حکم ہے کہ تحیۃ المسجد کی دورکعت مسجد میں بیٹھنے سے پہلے پڑھنی چاہئے بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ مسجد میں جاکر پہلے قصدا بیٹھتے ہیں اس کے بعد کھڑے ہوکر نماز کی نیت کرتے ہیں، یہ غلط ہے رواج پڑگیا ہے۔ (مرقات، باب المساجد ومواضع الصلاۃ:۳/۱۸۷) صلوۃ الاستغفار چونکہ خطاء اورنسیان انسانی فطرت میں داخل ہے اس لیے گناہ وغیرہ کا ہوجانا کوئی قصور یا نقص نہیں بلکہ گناہ پر ڈٹے رہنا اور اسی پر باقی رہنا یہ صحیح نہیں اور جو لوگ چھوٹے بڑے گناہ کے بعد اس پر نادم ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراس سے مغفرت اورمعافی کے طالب ہوتے ہیں تو اللہ انہیں پسند فرماتے ہیں؛ بہرحال اللہ کے رسول ﷺ نے مغفرت اورمعافی کے بہت سارے طریقے بتائے ہیں؛ لیکن بہترین طریقہ یہ بتایا کہ بندہ وضو کرکے پہلے دورکعت نماز پڑھے اس کے بعد اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی بخشش اورمعافی طلب کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کی بخشش کا فیصلہ فرمادیگا۔ حضرت علی مرتضی ؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے ابوبکر ؓ نے بیان فرمایا: (جو بلاشبہ صادق وصدیق ہیں) کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے، جس شخص سے کوئی گناہ ہوجائے پھر وہ وضو کرے؛ پھر نماز پڑھے؛ پھر اللہ سے مغفرت اورمعافی طلب کرے تواللہ تعالی اس کو معاف فرماہی دیتا ہے؛ اس کے بعد آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: "وَالَّذِينَ إِذَافَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ"۔ (آل عمران:۱۳۵،۱۳۶) (ترمذی، باب ماجاء فی صلاۃ عندالتوبۃ،حدیث نمبر:۳۷۱) صلوۃ الحاجۃ یہ ایک حقیقت ہے جس میں کسی مؤمن کے لیے شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ مخلوقات کی ساری حاجتیں اورضرورتیں اللہ کے اورصرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور بظاہر جو کام بندوں کے ہاتھوں سے ہوتے دکھائی دیتے ہیں دراصل وہ بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کے حکم سے انجام پاتے ہیں اور صلوۃ الحاجۃ کا جو طریقہ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں تعلیم فرمایا ہے وہ اللہ تعالی سے اپنی حاجتیں پوری کرانے کا بہترین اورمعتمد ترین طریقہ ہے اورجن بندوں کو ان ایمانی حقیقتوں پر یقین نصیب ہے ان کا یہی تجربہ ہے اورانہوں نے "صلوۃ الحاجۃ" ہی کو خزائن الہٰیہ کی کنجی پایا ہے؛ بہرحال جب کسی بھی چیز کی ضرورت ہو،شفا وغیرہ کا طالب ہو ہر چیز میں اچھی طرح وضو کرے اوردورکعت نماز پڑھے پھر اللہ کی خوب تعریفیں کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے پھر جو مانگنا ہو اس سے خوب مانگے انشاء اللہ ضرور اللہ اس کی حاجت کو پوری کریگا۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو کوئی حاجت اورضرورت ہو اللہ تعالی سے متعلق یا کسی آدمی سے متعلق (خواہ حاجت ایسی ہو جس کا تعلق براہِ راست اللہ تعالی ہی سے ہو اورکسی بندے سے اس کا واسطہ ہی نہ ہو، یا ایسا معاملہ ہو کہ بظاہر اس کا تعلق کسی بندے سے ہو بہر صورت) اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے اور خوب اچھا وضو کرے اس کے بعد دورکعت نماز پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالی کی کچھ حمد و ثنا کرے اوراس کے نبی (علیہ السلام) پر درود پڑھے پھر الله کے حضور میں اس طرح عرض کرے۔ "لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّوَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ لَاتَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّاغَفَرْتَهُ وَلَاهَمًّا إِلَّافَرَّجْتَهُ وَلَاحَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّاقَضَيْتَهَا يَاأَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ"۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب مَاجَاءَ فِي صَلَاةِ الْحَاجَةِ، حدیث نمبر:۴۴۱) اللہ کے سوا کوئی مالک و معبود نہیں وہ بڑے حلم والا اوربڑا کریم ہے ، پاک ہے اورمقدس ہے وہ اللہ عرش عظیم کا بھی رب اورمالک ہے ،ساری حمد و ستائش اس اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے، اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ان اعمال اوران اخلاق واحوال کا جو تیری رحمت کا موجب اوروسیلہ اورتیری مغفرت اوربخشش کا پکا ذریعہ بنیں اور تجھ سے طالب ہوں ہر نیکی سے فائدہ اٹھانے اورحصہ لینے کا اورہر گناہ اور معصیت سے سلامتی اور حفاظت کا، خدا وندا میرے سارے ہی گناہ بخش دے اور میری ہر فکر اور پریشانی دور کردے اور میری ہر حاجت جس سے تو راضی ہو اس کو پورا فرمادے، اے ارحم الراحمین !سب مہربانوں سے بڑے مہربان۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مستقل معمول اوردستور تھا کہ جب کوئی فکر آپ کو لاحق ہوتی اورکوئی اہم معاملہ پیش آتا تو آپ نماز میں مشغول ہوجاتے۔ (ابوداؤد، باب وقت قیام النبیﷺ،حدیث نمبر:۱۱۲۴) قرآن شریف میں بھی فرمایا گیا: "وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ"۔ (البقرۃ:۴۵) اسی خداوندی تعلیم وہدایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ کا یہ معمول تھا کہ ہر مشکل اور مہم میں اللہ تعالی کی مدد حاصل کرنے کے لیے آپ ﷺ نماز میں مشغول ہوجاتے تھے اورامت کو اس کا تفصیلی طریقہ بھی تعلیم فرمایا جو اوپر حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ کی حدیث میں مذکور ہوا۔ صلوۃ الحاجۃ کا ایک خاص فائدہ حضرت شاه ولي اللهؒ صلوۃ الحاجۃ کے تحت لکھتے ہیں کہ: رسول اللہؐ نے اس حدیث میں ان حاجتوں کے لیے بھی صلوۃ الحاجۃ تعلیم فرمائی ہے جن کا تعلق بظاہر کسی بندے سے ہو، اس کا ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ جب بندہ اپنی ایسی حاجات کے لیے بھی صلوۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ تعالی سے اس طرح دعا کریگا تو اس کا یہ عقیدہ اور یقین اورزیادہ مستحکم ہوجائے گا کہ کام کرنے اوربنانے والا دراصل وہ بندہ نہیں ہے؛نہ اس کے کچھ اختیار میں ہے؛ بلکہ سب کچھ اللہ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ بندہ اللہ تعالی کا صرف آلہ کار ہے اس کے بعد جب وہ کسی بندے کے ہاتھ سے کام ہوتا ہوا بھی دیکھے گا تو اس کے توحیدی عقیدے میں کوئی فرق نہیں آئیگا۔ (حجۃ اللہ البالغۃ،النوافل:۱/۴۵۴) صلوۃ الاستخارہ استخارہ خیر سے بنا ہے اس کے معنی ہیں اللہ تعالی سے بہتری طلب کرنا چونکہ بندوں کا علم ناقص ہوتا ہے اوربسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اہم کام کرنا چاہتا ہے،مگر اسے کام کا انجام معلوم نہیں ہوتا ایسی صورت میں سمجھ داروں سے مشورہ کرنا بھی مسنون ہے اورنماز استخارہ پڑھ کر استخارہ کی منقول دعامانگ کر اللہ تعالی سے رہنمائی طلب کرنا بھی مسنون ہے۔ (آل عمران:۲۸۸۔ روح المعانی:۳/۹۵۱) استخارہ کی حقیقت استخارہ کی حقیقت اوراس کی روح یہ ہے کہ بندہ اپنی عاجزی اوربے علمی کا احساس و اعتراف کرتے ہوئے اپنے عليم اور قادر مطلق مالک سے رہنمائی اورمدد چاہتاہے اوراپنے معاملے کو اس کے حوالے کردیتا ہے کہ جو اس کے نزدیک بہتر ہو بس وہی کرےاس طرح گویا وہ اپنے مقصد کو اللہ کی مرضی میں فنا کردیتا ہے اورجب اس کی یہ دعا دل سے ہو جیسا کہ ہونا چاہئے تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کی رہنمائی اورمددنہ فرمائے۔ استخارہ کا نتیجہ استخارہ کے نتیجہ کے سلسلہ میں احادیث سے کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اللہ تعالی کی رہنمائی بندے کو کس طرح حاصل ہوگی؛ البتہ اللہ تعالی کے بندوں کا تجربہ ہے کہ یہ رہنمائی کبھی خواب کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے پھر خواب کبھی واضح نہیں ہوتا ہے اورکبھی تعبیر طلب ہوتا ہے اورکبھی رہنمائی اس طرح کی جاتی ہے کہ اس کام کے کرنے کا شدید داعیہ دل میں پیدا ہوتا ہے یا اس سے دل بالکل ہی ہٹ جاتا ہے ایسی صورت میں ان دونوں کیفیتوں کو منجانب اللہ اوردعاکا نتیجہ سمجھنا چاہئے اور اگر استخارہ کے بعد بھی تذبذب باقی رہے تو استخارہ کا عمل مسلسل جاری رکھے اورجب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے۔ (الاذکار، حدیث نمبر:۳۴۱، جلدنمبر:۱/۱۲۰۔ حجۃ اللہ البالغۃ،النوفل:۱/۴۵۳) استخارہ کب تک کریں؟ استخارہ کب تک کرے اس کی کوئی مدت متعین نہیں ہے، حضرت عمرؓ ایک معاملے میں ایک ماہ تک استخارہ کرتے رہے تو ایک ماہ کے بعدآپ کو شرح صدر ہوگیا؛ اگر شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔ بہرحال جب بھی کسی معاملہ ميں تذبذب ہو تو اچھی طرح وضو کرکے دورکعت نماز پڑھ کر اللہ کے حضور میں اس طرح عرض کرے: "اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ" الخ۔ "عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ كَانَ النَّبِيُّﷺيُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَالسُّورَةِ مِنْ الْقُرْآنِ إِذَاهَمَّ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَاأَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَاأَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْقَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْقَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ"۔ (بخاری،بَاب الدُّعَاءِ عِنْدَ الِاسْتِخَارَةِ، حدیث نمبر:۵۹۰۳) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو اپنے معاملات میں استخارہ کرنے کا طریقہ اس اہتمام سے سکھاتے تھے جس اہتمام سے قرآن مجید کی سورتوں کی تعلیم فرماتے تھے،آپ ﷺ ہم کو بتاتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے (اوراس کے انجام کے بارے میں فکر مند ہو تو اس کو اس طرح استخارہ کرنا چاہئے) پہلے وہ دورکعت نفل پڑھے اس کے بعد اللہ کے حضور میں اس طرح عرض کرے: "اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ" (اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیری صفت علم کے وسیلہ سے خیر اور بھلائی کی رہنمائی چاہتا ہوں اورتیری صفت قدرت کے ذریعہ تجھ سے قدرت کا طالب ہوں اورتیرے عظیم فضل کی بھیک مانگتا ہوں؛ کیونکہ توقادرِ مطلق ہے اورمیں بالکل عاجز ہوں اور تو علیم کل ہے اور میں حقائق سے بالکل ناواقف ہوں اورتو سارے غیبوں سے بھی باخبر ہے ؛ لہٰذا اے میرے اللہ !اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے بہتر ہو، میرے دین، میری دنیا اورمیری آخرت کے لحاظ سے تو اس کو میرے لیے مقدر کردے اورآسان بھی فرمادے اورپھر اس میں میرے لیئے برکت بھی دے اوراگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے برا ہے ( اوراس کا نتیجہ خراب نکلنے والا ہے) میرے دین، میری دنیا اورمیری آخرت کے لحاظ سے تو اس کام کو مجھ سے الگ رکھ اورمجھے اس سے روک دے اورمیرے لیے خیر وبھلائی مقدر فرمادے وہ جہاں اور جس کام میں ہو پھر مجھے اس خیر والے کام کے ساتھ راضی اور مطمئن کردے)۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ : جس کام کے بارے میں استخارہ کرنے کی ضرورت ہو استخارہ کی دعا کرتے ہوئے صراحۃ اس کانام لے ۔ (بخاري باب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ مَثْنَى مَثْنَى ۱۰۹۶) صلوة التسبیح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب سے فرمایا: اے عباس، اے میرے محترم چچا! کیا میں آپ کی خدمت میں ایک گراں قدر عطیہ اورایک قیمتی تحفہ پیش نہ کروں؟ کیا میں آپ کو ایک خاص بات نہ بتاؤں ؟ کیا میں آپ کے دس کام اورآپ کی دس خدمتیں نہ کروں(یعنی آپ کو ایک ایسا عمل نہ بتاؤں جس سے آپ كودس عظیم الشان منفعتیں حاصل ہوں؟ وہ ایسا عمل ہے کہ ) جب آپ اس کو کریں گے تو اللہ تعالی آپ کے سارے گناہ معاف فرمادے گا اگلے بھی اورپچھلے بھی، صغیرہ بھی اورکبیرہ بھی،ڈھکے چھپے بھی اورعلانیہ ہونے والے بھی(وہ عمل صلوٰۃ التسبیح ہے اوراس کا طریقہ یہ ہے کہ) آپ چاررکعت نماز پڑھیں اورہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت پڑھیں ،پھر جب آپ پہلی رکعت میں قرأت سے فارغ ہوجائیں تو قیام ہی کی حالت میں پندرہ دفعہ کہیں "سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ الِلہِ وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرْ" پھراس کے بعد رکوع کریں اور رکوع میں بھی یہ کلمہ دس دفعہ پڑھیں، پھر رکوع سے اٹھ کر قومہ میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں؛ پھر سجدہ میں چلے جائیں اوراس میں یہ کلمہ دس دفعہ کہیں پھر سجدے سے اُٹھ کر جلسہ میں یہی کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر دوسرے سجدہ میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر دوسرے سجدے کے بعد بھی (کھڑے ہونے سے پہلے) یہ کلمہ دس دفعہ کہیں، چاروں رکعتیں اسی طرح پڑھیں اوراس ترتیب سے ہر رکعت میں یہ کلمہ پچھتر دفعہ کہیں۔ (میرے چچا) اگر آپ سے ہوسکے تو روزانہ یہ نماز پڑھا کریں اوراگر روزانہ، نہ پڑھ سکیں توہر جمعہ کے دن پڑھ لیا کریں اوراگر آپ یہ بھی نہ کرسکیں تو سال میں ایک دفعہ پڑھ لیا کریں اوراگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کم از کم زندگی میں ایک دفعہ پڑھ ہی لیں۱؎۔ کتب حدیث میں صلوۃ التسبیح کی تعلیم و تلقین رسول اللہؐ سے متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کی گئی ہے، امام ترمذی نے رسول اللہؐ کے خادم اورآزاد کردہ غلام حضرت ابورافع کی روایت اپنی سند سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس اورعبداللہ بن عمرواورفضل بن عباس نے بھی اس کو روایت کیا ہے۲؎ حافظ ابن حجرؒ نے اپنی کتاب "الخصال المکفرۃ" میں ابن الجوزی کا رد کرتے ہوئے "صلوٰۃ التسبیح" کی روایات اوران کی سندی حیثیت پر تفصیل سے کلام کیا ہے، ان کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث کم از کم "حسن" یعنی صحت کے لحاظ سے دوم درجہ کی ضرور ہے اوربعض تابعین اورتبع تابعین حضرات سے(جن میں عبداللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر امام بھی شامل ہیں) صلوٰۃ التسبیح کا پڑھنا اوراس کی فضیلت بیان کرکے لوگوں کو اس کی ترغیب دینا بھی ثابت ہے اوریہ اس کا واضح ثبوت ہے کہ ان حضرات کے نزدیک بھی "صلوۃ التسبیح" کی تلقین اورترغیب کی حدیث رسول اللہؐ سے ثابت تھی اور زمانہ مابعد میں تویہ صلوۃ التسبیح اکثر صالحین امت کا معمول رہا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس نماز کے بارے میں ایک خاص نکتہ لکھا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ سے نمازوں میں (خاص کر نفلی نمازوں میں ) بہت سے اذکار اوردعائیں ثابت ہیں۔ اللہ کے جو بندے ان اذکار اوردعاؤں پر ایسے قابو یافتہ نہیں ہیں کہ اپنی نمازوں میں ان کو پوری طرح شامل کرسکیں اوراس وجہ سے ان اذکار ودعوات والی کامل ترین نماز سے وہ بے نصیب رہتے ہیں ان کے لیے یہی صلوۃ التسبیح اس کامل ترین نماز کے قائم مقام ہوجاتی ہے؛ کیونکہ اس میں اللہ کے ذکر اورتسبیح و تحمید کی بہت بڑی مقدار شامل کردی گئی ہے اورچونکہ ایک ہی کلمہ بار بار پڑھا جاتا ہے اس لیے عوام کے لیے بھی اس نماز کا پڑھنا مشکل نہیں ہے۳؎ صلوۃ التسبیح کا جو طریقہ اوراس کی جو ترتیب امام ترمذی وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے روایت کی ہے اس میں دوسری عام نمازوں کی طرح قرأت سے پہلے ثناء یعنی "سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ" اوررکوع میں "سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم" اورسجدہ میں "سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی" پڑھنے کا بھی ذکر ہے اورہر رکعت کے قیام میں قرأت سے پہلے کلمہ "سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ اللہِ وَلَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرْ" پندرہ دفعہ اورقرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے یہی کلمہ دس دفعہ پڑھنے کا ذکر بھی ہے؛ اسی طرح ہررکعت کے قیام میں یہ کلمہ پچیس دفعہ ہوجائے گا اوراس طریقہ میں دوسرے سجدے کے بعد یہ کلمہ کسی رکعت میں بھی نہیں پڑھا جائے گا، اس طرح اس طریقے کی ہر رکعت میں بھی اس کلمہ کی مجموعی تعداد پچھیتر اورچاررکعتوں کی مجموعی تعداد تین سو ہی ہوگی؛ بہر حال صلوٰۃ التسبیح کے یہ دونوں ہی طریقے منقول اور معمول ہیں، پڑھنے والے کے لیے گنجائش ہے جس طرح چاہے پڑھے۴؎۔ (۱)سنن ابی داؤد ، باب صلاة التسبيح، حدیث نمبر:۱۱۰۵۔ (۲)ترمذي، باب ماجاءفي صلاةالتسبيح، حدیث نمبر:۴۴۳۔ (۳)حجۃ اللہ البالغۃ،النوفل:۱/۴۵۵۔ (۴)ترمذي، باب ماجاءفي صلاةالتسبيح، حدیث نمبر:۴۴۳۔ "صلوۃ التسبیح" کی تاثیر اوربرکت نماز کے ذریعہ گناہوں کے معاف ہونے اورمعصیات کے گندے اثرات کے زائل ہونے کا ذکر تو اصولی طورپر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا: "وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ"۔ (ھود:۱۱۴) لیکن اس تاثیر میں"صلوۃ التسبیح" کا جو خاص مقام اوردرجہ ہے وہ حضرت عبداللہ بن عباس کی مندرجہ بالا حدیث میں پوری صراحت کے ساتھ ذکر کردیا گیا ہے، یعنی یہ اس کی برکت سے بندہ کے اگلے، پچھلے، پرانے، نئے، دانستہ، نادانستہ، صغیرہ کبیرہ، پوشیدہ،علانیہ ،سارے ہی گناہ اللہ تعالی معاف فرمادیتا ہے اور سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک صحابی (عبداللہ بن عمروؓ) کو "صلوۃ التسبیح" کی تلقین کرنے کے بعد ان سے فرمایا: "فَاِنَّکَ لَوْکُنْتَ اَعْظَمَ اَھْلِ الْاَرْضِ ذَنْباً غُفِرَلَکَ بِذَالِکَ"۔ (سنن ابی داؤد ، باب صلاة التسبيح، حدیث نمبر:۱۱۰۵) تم اگر بالفرض دنیا کے سب سے بڑے گناہ گار ہوگے تو بھی اس کی برکت سے اللہ تعالی تمہاری مغفرت فرمادے گا"۔ اللہ تعالی محرومی سے حفاظت فرمائے اوراپنے ان خوش نصیب بندوں میں سے کردے جو رحمت و مغفرت کے ایسے اعلانات کو سن کر ان سے فائدہ اٹھاتے اوران کا حق ادا کرتے ہیں، آمين۔