انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت علیؓ کے مقبوضات پرپیش قدمیاں ۳۸ ھ میں مصر پر قبضہ ہوا ۳۹ ھ میں امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کے دوسرے مقبوضہ مقامات کی طرف پیش قدمی شروع کردی ان میں سے بعض مقامات پر کامیابی ہوئی اوربعض میں ناکامی ،طبری اورابن اثیر نے ان کے تفصیلی حالات لکھے ہیں ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے: سب سے اول امیر معاویہؓ کے عامل نعمان بن بشیر نے ایک شخص کو دوہزار کی جمعیت کے ساتھ عین التمر روانہ کیا، مالک بن کعب حضرت علیؓ کی جانب سے یہاں کے حاکم تھے، انہوں نے نعمان کو شکست دی، اس کے بعد سفیان بن عوف ۶ ہزار کی جمعیت کے ساتھ بڑھے اورانبار ومدائن پر حملہ کرنے کے لئےہیت پر تاخت کرتے ہوئے انبار پہنچےاور یہاں کے حفاظتی دستہ کے افسر اشرس بن حسان کو قتل کرکے کل مال و متاع لوٹ لیا، حضرت علیؓ کو خبر ہوئی تو آپ خود نکلے اورسعید بن قیس کو حملہ آوروں کے تعاقب میں روانہ کیا،مگر شامی نکل چکے تھے پھر عبداللہ بن مسعدہ فزاری تیماء کے اہل بادیہ،حجاز اورمدینہ کے باشندوں سے صدقہ وصول کرنے کے لئے بڑھے ،حضرت علیؓ کی طرف سے مسیب بن نجسہ ان کے مقابلہ کو بڑھے۔ تیمار میں دونوں کا مقابلہ ہوا، عبداللہ بن مسعدہ زخمی ہوکر قلعہ بند ہوگئے مسیب نے ان کو گھیر کر قلعہ میں آگ لگادی، لیکن پھر ان کے امان طلب کرنے کے بعد بجھوادی اورشامی لوٹ گئے۔ اس کے بعدضحاک بن قیس تین ہزارفوج کے ساتھ قوصہ کے نشیبی علاقہ میں حضرت علیؓ کے باجگذار وہقانیوں پر تاخت کرتے ہوئے ثعلبہ پہنچے اور یہاں کے حفاظتی دستہ کو لوٹ کر قطقطانہ کارخ کیا اورعمرو بن عمیس سے جو فوجی سواروں کے ساتھ حج کےلیے جارہے تھے،مزاحم ہوئے اوران کا سامان لوٹ کر روکدیا حضرت علیؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے حجر بن عدی کو مقابلہ کے لئے بھیجا تدمر میں ان دونوں کا مقابلہ ہوا اورشامی لوٹ گئے ۔ پھر۳۹ھ میں امیر معاویہؓ نے یزید بن سنجرہ رہادی کو مکہ میں اپنی بیعت لینے اوروہاں سے علوی عمال کو نکالنے کیلئے امیر الحج بنا کر بھیجا اس وقت قثم بن عباس یہاں کے عامل تھے، ان کو خبر ہوئی تو اہلِ مکہ کو یزید کے مقابلہ کے لئے ابھارا لیکن شیبہ بن عثمان کے سوا کوئی آمادہ نہ ہوا، اس لیے قثم نے حضرت علیؓ کو اس کی اطلاع دی اورخود مکہ چھوڑ کر کسی گھاٹی میں چلے جانے کا قصد کیا لیکن حضرت ابو سعید خدریؓ نے روک دیا، اسی درمیان میں ریا ن بن ضمرہ امدادی فوج لے کر پہنچ گئے،مگر شامیوں نے اعلان کردیا کہ ہم حرم کے امن وامان میں خلل انداز ہونا نہیں چاہتے، ہم یہاں صرف اسی شخص کے مقابلہ میں تلوار اٹھائیں گے جو ہم سے کسی قسم کا تعرض کرے گا، اورحضرت ابوسعید خدریؓ سے درخواست کی کہ ہم حرم میں تفریق ناپسند کرتے ہیں اس لئے آپ کسی ایسے شخص کو امیر الحج مقرر کردیجئے جس پر طرفین متفق ہوں ان کی درخواست پر ابو سعیدؓ نے قثم کو ہٹادیا اورشیبہ بن عثمان نے امارتِ حج کے فرائض انجام دیئے، شامی فوج حج کرکے لوٹ گئی اس کے لوٹنے کے بعد دارالخلافہ سے دوسری عراقی فوج مکہ پہنچ گئی، اس نے شامیوں کا تعاقب کیا اوروادی القریٰ کے آگے چند شامیوں کو پکڑ لیا لیکن کچھ عراقی امیر معاویہ کے یہاں محصور تھے اس لئے طرفین نے قیدیوں کا تبادلہ کرلیا۔ اسی سنہ میں امیر معاویہؓ نے عبدالرحمن بن قباث بن اثیم کو جزیرہ روانہ کیا یہاں کے حاکم شبیب بن عامر نے فوراً نصیبین سے کمیل بن زیاد کو اطلاع دی، یہ ۶۰۰ سوار لے کر مقابلہ کو نکلااور عبدالرحمن کو فاش شکست دی،ا سی درمیان میں شبیب خود بھی پہنچ گئے، مگر شامی واپس جاچکے تھے،شبیب نے بعلبک تک ان کا تعاقب کیا امیر معاویہ نے دوبارہ حبیب بن مسلمہ فہری کو ان کے مقابلہ کے لئے بھیجا مگر حبیب کے آتے آتے شبیب واپس ہوچکے تھے۔ اسی سنہ میں زبیر بن مکحول امیر شام کی جانب سے صدقات وصول کرنے کے لئے آئے،حضرت علیؓ نے کلب اوربکر بن وائل سے صدقہ وصول کرنے کے لئے جعفر بن عبداللہ کو بھیجا تھا ،سماوہ میں دونوں کا مقابلہ ہوا، اس معرکہ میں جعفر مارے گئے۔ دومۃ الجندل کے باشندے اب تک غیر جانب دار تھے،اس لئے امیر معاویہؓ نے مسلم بن عقبہ مری کو ان سے بیعت لینے کے لئے بھیجا، حضرت علیؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے اپنی بیعت کے لئے مالک بن کعب ہمدانی کو روانہ کیا، انہوں نے آتے ہی مسلم پر حملہ کردیا اورایک سال مسلسل مقابلہ کرکے ان کو شکست دی، شکست دینے کے بعد دومۃ الجندل والوں سے بیعت لینی چاہی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ جب تک کسی ایک امام پر اتفاق نہ ہوجائے گا، اس وقت تک ہم کسی کی بیعت نہ کریں گے، ان کے اس جواب پر مالک نے زیادہ اصرار نہ کیا اورلوٹ گئے۔ ابھی تک حجاز مقدس جس کی حکومت سے خلافت کا فیصلہ ہوتا تھا،جناب امیرؓ کے قبضہ میں تھا، ۴۰ھ میں امیر معاویہؓ نے مشہور جفاکار بسر بن ابی ارطاۃ کو حجازیوں سے اپنی بیعت لینے پر مامور کیا، حضرت ابو ایوب ؓ انصاری حضرت علیؓ کی جانب سے مدینہ کے حاکم تھے ، انہوں نے شامیوں کا رخ مدینہ کی طرف دیکھا تو حرم نبویﷺ کی حرمت کے خیال سے مدینہ چھوڑ کر کوفہ چلے گئے، مدینہ پہنچنے کے بعد بسر نے منبر پر چڑھ کر اعلان کیا کہ ہمارے شیخ عثمان کہاں ہیں؟ خدا کی قسم اگر میں معاویہؓ سے عہد نہ کرچکا ہوتا، تو مدینہ میں ایک جوان بھی زندہ نہ چھوڑتا، جب تک تم لوگ جابر بن عبداللہ کو میرے حوالہ نہ کردوگے، اس وقت تک تم پر امن وامان کے دروازے بندرہیں گے، جابر بن عبداللہ نے یہ اعلان سنا تو چھپ کرام سلمہؓ کے پاس پہنچے اورعرض کیا کہ اگر امیر معاویہ کی بیعت کرتا ہوں تو گمراہی کی بیعت ہے اور اگر نہیں کرتاتو جان جاتی ہے، حضرت ام سلمہؓ نے بیعت کرلینے کا مشورہ دیا اوران کے مشورہ پر انہوں نے بیعت کرلی، بسر نے اہل مدینہ کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے بعض گھروں کو ڈھادیا، یہاں سے فارغ ہونے کے بعد مکہ پہنچا، یہاں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اس کے ظلم وجور سے بہت گھبرائے؛ لیکن اس نے اطمینان دلادیا کہ میں کسی صحابی کو قتل نہ کروں گے۔ مکہ کے معاملات درست کرنے کے بعد یہاں سے یمن کی طرف بڑھا، یہاں کے عامل عبید اللہ بن عباسؓ کو خبر ہوئی تو وہ عبداللہ بن عبدالمدان کو اپنا قائم مقام بنا کر کوفہ چلے گئے،بسر نے یمن پہنچ کر پہلے عبداللہ کا کام تمام کیا، پھر تمام شیعیان علیؓ کے قتل عام کا حکم دیا، عبیداللہ بن عباس کے دو صغیر السن بچے بھی یمن میں تھے ؛لیکن بسر کے ظلم وجور سے یہ معصوم بھی زندہ نہ بچے،یمن میں سکہ بٹھانے کے بعد یہ ستم شعار سنگدل شام لوٹ گیا، حضرت علیؓ کو اس کی ستم آرائیوں کی اطلاع ملی تو آپ نے جاریہ بن قدامہ اوروہب بن مسعود کو اس کے مقابلہ کے لئے بھیجا، اس وقت بُسر نجران میں تھا اس لئے یہ دونوں سیدھے نجران آئے بسر نکل کے بھاگا اور جاریہ اور وہب نے انتقام میں بہت سے عثمانیوں کو قتل کراکے ان کے گھروں میں آگ لگوادی اور بُسر کا تعاقب کرتے ہوئے مکہ پہنچے اور یہاں کے باشندوں سے حضرت علیؓ کی بیعت لے کر پھر مدینہ جاکر بیعت لی۔ (یہ تمام واقعات طبری اور ابن اثیر۳۸ھ تا ۴۰ھ سے ماخوذ ہیں) اس مسلسل خانہ جنگی سے گھبرا کر حضرت علیؓ اورامیر معاویہؓ نے ۴۰ ھ میں صلح کرلی، اس صلح کی رو سے شام کا علاقہ امیر معاویہؓ کو ملا، اورعراق حضرت علیؓ کے حصہ میں رہا، اوریہ شرط قرار پائی کہ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے علاقہ میں دست اندازی نہ کرے گا۔ (ابن اثیر:۳/۳۲۴)