انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** توبہ واستغفار اللہ تعالی نے اپنے نبیوں اوررسولوں کو اس واسطے بھیجا اوراپنی کتابیں اس لیے نازل فرمائیں کہ انسانوں کو اپنا برابھلا اورگناہ ثواب سب معلوم ہوجاوے اوروہ بری باتوں اورگناہ کے کاموں سے بچیں اورنیکی اورثواب کے راستہ پرچل کر اللہ کی رضا مندی اورمرنے کے بعدوالی زندگی،یعنی آخرت میں نجات حاصل کریں،توجن لوگوں نے اللہ کے نبیوں رسولوں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں کو نہیں مانااورایمان نہیں لائے،ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ ان کی پوری زندگی گویا بغاوت اورنافرمانی کی زندگی ہے اور اللہ کی اتاری ہوئی ہدایت سے وہ بالکل بے تعلق ہیں اس لیے جب تک وہ اس کے بھیجے ہوئے نبیوں رسولوں پر اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں پراورخاص کر اس آخری زمانہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اوران کی لائی ہوئی خدا کی آخری کتاب قرآن مجید پر ایمان نہ لائیں اور اس کی ہدایت کو تسلیم نہ کریں وہ اللہ کی رضا مندی اور مرنے کے بعد والی زندگی میں فلاح ونجات حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ کا اوراس کے نبیوں اوراس کی کتابوں کا انکار ایسا جرم نہیں جو قابل معافی ہو،اللہ کےہر پیغمبر نے اپنے اپنے زمانے میں اس بات کا بہت صاف صاف اعلان کیا ہے،بہرحال کفر اورشرک والوں کی نجات کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے شرک وکفرسے توبہ کریں اورایمان وتوحید کو اپنا اصول بنائیں اس کے بغیر نجات ممکن نہیں؛ لیکن جو لوگ نبیوں،رسولوں پر ایمان لے آتے ہیں اور ان کی ہدایت پر چلنے کا اقرار اورارادہ کرلیتے ہیں وہ بھی کبھی کبھی شیطان کے بہکاوے سے یا اپنے نفس کی بری خواہش سے گناہ کے کام کر بیٹھتے ہیں،ایسے سب گنہگاروں کے لیے اللہ تعالی نے توبہ اوراستغفار کا دروازہ کھلارکھا ہے۔ توبہ واستغفار کا مطلب یہ ہے کہ جب بندے سے اللہ کی نافرمانی اور گناہ کا کوئی کام ہوجائے تو وہ اس پر نادم اورشرمندہ ہو اور آئندہ اس گناہ سے بچنے کا ارادہ کرلےاوراللہ سے اپنے کئے ہوئے گناہ کی معافی چاہے،قرآن وحدیث میں بتلایا گیا ہے کہ بس اتنا کرنے سے اللہ تعالی اس بندے سے راضی ہوجاتا ہے اور اس کا گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔ یادرکھنا چاہئے کہ توبہ صرف زبان سے نہیں ہوتی؛ بلکہ کیے ہوئے گناہ پر دل سے ندامت اوررنج وافسوس ہونا ضروری ہے اورآئندہ پھر کبھی اس گناہ کے نہ کرنے کا ارادہ بھی دل سے ہونا لازمی ہے۔ توبہ کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کوئی آدمی غصہ یارنج کی حالت میں خودکشی کے ارادہ سے زہر کھالے اورجب اس کے اثر سے آنتیں کٹنے لگیں اورسخت تکلیف ہونے لگے تو اسے اپنی اس غلطی پر رنج وافسوس ہو اور وہ علاج کے لیے تڑپےاورحکیم ڈاکٹر جودوا بتائیں وہی پیئے، اس وقت اس کے دل کا فیصلہ قطعا ًیہ ہوگا کہ اگر میں زندہ بچ گیا تو آئندہ کبھی ایسی حماقت نہیں کروں گا بس گناہ سے توبہ کرنے والے کے دل کی کیفیت بھی ایسی ہی ہونی چاہئے، یعنی اللہ تعالی کی ناراضی اورآخرت کے عذاب کاخیال کرکے اس کو اپنے گناہ کرنے پر خوب رنج اورافسوس ہو اورآئندہ کے لیے اس وقت اس کے دل کا یہ فیصلہ ہو کہ اب کبھی ایسا نہیں کروں گااور جو ہوچکا اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی اوربخشش کی دعاہو۔ اگر اللہ تعالی کسی درجے میں یہ بات نصیب فرمادے تویقین رکھنا چاہئے کہ گناہ کااثر بالکل مٹ گیا اور اللہ کی رحمت کا دروازہ کھل گیا،ایسی توبہ کے بعد گناہ گار گناہ کے اثر سے بالکل پاک صاف ہوجاتا ہے،بلکہ اللہ تعالی کو پہلے سے زیادہ پیارا ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی توگناہ کے بعد سچی توبہ کے ذریعہ بندہ اس درجے پر پہونچ جاتا ہے جس پر سیکڑوں سال کی عبادت وریاضت سے پہونچنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ یہاں تک جو کچھ لکھا گیا یہ سب آیات واحادیث کا مضمون ہے اب چند آیتیں اورحدیثیں بھی توبہ واستغفارکے متعلق لکھی جاتی ہیں،سورہ تحریم میں ارشاد ہے: "یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاo عَسٰى رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰر"۔ (التحریم:۲) اے ایمان والو!توبہ کرواللہ سے سچی توبہ امیدہے کہ تمہارا مالک (اس توبہ کے بعد) مٹاوےگا تمہارے گناہ اورداخل کردے گا تم کو جنت کے ان باغیچوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اور سورۂ مائدہ میں گنہگارخطاکاربندوں کے متعلق ارشاد ہے: "اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللہِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَہٗ oوَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ"۔ (المائدۃ:۷۴) وہ اللہ سے توبہ کیوں نہیں کرتےاورمعافی کیوں نہیں طلب کرتے اوراللہ تو بہت بخشنے والا،بڑامہربان ہے۔ اورسورۂ انعام میں کیسا پیارا ارشاد ہے: "وَاِذَا جَاءَکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَo اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْءًۢ ابِجَــہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَo فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ"۔ (الانعام:۵۴) اوراے نبی!جب تمہارے پاس آویں ہمارے وہ بندے جو ایمان رکھتے ہیں ہماری آیتوں پر توتم کہو ان سے کہ سلام ہو تم پر تمہارے رب نے مقرر کیاہے اپنی ذات پر رحمت کرنا،جو کوئی تم میں سے گناہ کاکام کرے نادانی سے،پھرتوبہ کرلے اس کے بعد اور درست کرلے اپنا عمل،تو اللہ بخشنے والا اوربڑا مہربان ہے۔ اللہ پاک کی شان رحمت کے قربان!انہوں نے توبہ کا دروازہ کھول کے ہم جیسے گنہگاروں کا مسئلہ آسان کردیا،ورنہ ہماراکہاں ٹھکانہ تھا،ان آیتوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند حدیثیں بھی سن لیجئے: "اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے بندوتم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں سب گناہ معاف کرسکتا ہوں،لہذا تم مجھ سے معافی اوربخشش مانگو،میں تمہیں معاف کردوں گا"۔ ایک حدیث میں ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالی ہر رات کو اپنی رحمت اورمغفرت کاہاتھ بڑھاتا ہے کہ دن کے گنہگارتوبہ کرلیں اور ہردن کو ہاتھ بڑھا تا ہے کہ رات کے گناہ کرنے والے توبہ کرلیں اور اللہ کا یہ معاملہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ قیامت کے قریب سورج مغرب کی طرف سے نکلے"۔ (مسلم،بَاب قَبُولِ التَّوْبَةِ مِنْ الذُّنُوبِ،حدیث نمبر:۴۹۵۴، شاملہ، موقع الإسلام) ایک حدیث میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایاکہ: "اللہ کے ایک بندے نے کوئی گناہ کیا،پھر اللہ سے عرض کیا اے میرے رب! میں نے گناہ کیا مجھے معاف کردے تو اللہ تعالی نے فرمایا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں پر پکڑ بھی سکتا ہے اور معاف بھی کرسکتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ بخش دیا؛ پھرجب تک اللہ نے چاہا وہ گناہ سے رکارہااورپھر کسی وقت گناہ کر بیٹھا اور پھر اللہ سے عرض کیا میرے مالک مجھ سے گناہ ہوگیا تو اس کو بخش دے تو اللہ تعالی نے پھر فرمایا:میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہ قصور معاف بھی کرتا ہے اورپکڑ بھی سکتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف کردیا، پھر اللہ نے جب تک چاہا بندہ رکا رہا اورکسی وقت پھر کوئی گناہ کر بیٹھا اورپھر اللہ سے عرض کیا،اے میرے مولا! مجھ سے اورگناہ ہوگیا تو مجھے معاف کردے،تواللہ تعالی نے پھر ارشاد فرمایاکہ:میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا کوئی مالک ومولا ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اورسزابھی دے سکتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا وہ جو چاہے کرے"۔ (بخاری،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى﴿ يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ﴾ ،حدیث نمبر:۶۹۵۳، شاملہ، موقع الإسلام) ایک حدیث میں ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ: "گناہ سے توبہ کرنے والا بالکل اس آدمی کی طرح ہوجاتا ہے جس نے وہ گناہ کیا ہی نہ ہو"۔ (ابن ماجہ،باب ذکر التوبہ،حدیث نمبر:۴۲۴۰، شاملہ، موقع الإسلام) ان حدیثوں میں اللہ کی شان مغفرت اوراس کی رحمت کا بیان ہے ایسی حدیثوں کو سن کر گناہوں پردلیر ہونا یعنی توبہ اورمغفرت کے بھروسہ پر اور زیادہ گناہ کرنے لگنا مومن کا کام نہیں،مغفرت اوررحمت کی ان آیتوں اورحدیثوں کے مضمون سے تو اللہ کی محبت بڑھنی چاہئے، اور یہ سبق لینا چاہئے کہ ایسے رحیم وکریم آقا کی نافرمانی توبڑاہی کمینہ پن ہے،ذرا سوچواگر کسی نوکر کا آقا اس کے ساتھ بہت ہی شفقت اوراحسان کا برتاؤ کرے،تو کیا اس نوکر کو اورزیادہ دلیر ہوکراس کی نافرمانی کرنی چاہئے؟۔ دراصل ان آیتوں اورحدیثوں کا مقصد توصرف یہ ہے کہ کسی مومن بندہ سے اگر گناہ ہوجائے تووہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بلکہ توبہ کرکے اس گناہ کے داغ دھبے دھوڈالے اوراللہ سے معافی مانگے، اللہ تعالی اپنے کرم سے اس کو معاف کردیں گے، اوربجائے ناراضی اورغصہ کے اللہ تعالی اس سے اورزیادہ خوش ہوں گے،ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بندہ جب گناہ کے بعد اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتا ہےاورسچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی توبہ سے اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری کا جانور کسی لق ودق میدان میں اس سے چھوٹ کر بھاگ جائے اوراسی پر اس کے کھانے پینے کا سامان لداہواوروہ اس سے بالکل مایوس ہوکر موت کے انتظار میں کسی درخت کے سایہ میں لیٹ جائے اورپھر اسی حالت میں اچانک وہ دیکھے کہ اس کا وہ جانور اپنے پورے سامان کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اس کو پکڑ لے اور پھر انتہائی خوشی اور مستی میں اس کی زبان سے نکل جائے کہ اے اللہ بس تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں حضورﷺ فرماتے ہیں کہ جتنی خوشی اس شخص کو اپنی سواری کا جانور پھر سے پاکر ہوگی،اللہ تعالی کو اپنے گنہگار بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے"۔ (بخاری،باب التوبہ،حدیث نمبر:۵۸۳۳، شاملہ، موقع الإسلام) ان آیتوں اورحدیثوں کے معلوم ہوجانے کے بعد بھی جوشخص گناہوں سے توبہ کرکے اللہ کی رضا مندی اوررحمت حاصل نہ کرے بلاشبہ وہ بڑاہی محروم اوربے نصیب ہے،بہت سے لوگ اس خیال سے توبہ نہی کرتے کہ ابھی کیا ہے ابھی تو ہم تندرست ہیں مرنے سے پہلے کبھی توبہ کرلیں گے،بھائیو! ہمارے تمہارے دشمن شیطان کا یہ بہت بڑا فریب ہے،وہ جس طرح خود اللہ کی رحمت سے دور اورجہنمی ہوگیا،اسی طرح ہم کو بھی اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے،کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کب آئے گی،اس لیے ہردن کو یہی سمجھو کہ شاید آج کا دن ہی ہماری زندگی کا آخری دن ہو، اس لیے جب کوئی گناہ ہوجائے تو جلدی سے جلدی اس سے توبہ کرلینا ہی عقلمندی ہے،قرآن شریف میں صاف فرمادیا گیا ہے: "اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰئِکَ یَتُوْبُ اللہُ عَلَیْھِمْo وَکَانَ اللہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًاoوَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِo حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌo اُولٰئِکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا"۔ (النساء:۱۷) صرف ان لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے جو نادانی سے گناہ کربیٹھتے ہیں اورپھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں تو ان کو اللہ معاف کرتا ہے اوران کی توبہ قبول کرتاہے اور اللہ علم والا حکمت والا ہے، اوران لوگوں کی کچھ توبہ نہیں جو(ڈھٹائی سے) برابرگناہ کے کام کرتے رہتے ہیں،یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے بالکل سامنے موت آجاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی(تو ایسوں کی توبہ قبول نہیں)اورنہ ان کی توبہ قبول ہوگی جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں،ان سب کے لیے ہم نے تیارکیا ہے دردناک عذاب۔ پس جو دم باقی ہے اس کو ہم غنیمت جانیں اورتوبہ کرنے میں اوراپنی حالت درست کرنے میں بالکل دیر نہ کریں،معلوم نہیں موت کس وقت سرپرآجائے اور اس وقت ہم کو اس کی توفیق بھی ملے یا نہ ملے۔ بھائیو! ہم نے اورآپ نے اپنی عمر میں سیکڑوں کو مرتے دیکھا ہے اور ہمارا آپ کا عام تجربہ یہی ہے کہ جو جس حالت میں جیتا ہے وہ اسی حالت میں مرتا ہے،یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک شخص عمر بھر تو اللہ سے غافل رہےاس کی نافرمانیاں کرتا رہے لیکن مرنے سے ایک دو دن پہلے وہ ایک دم توبہ کرکے ولی ہوجائے، اس لیے جو شخص چاہتا ہے کہ وہ نیکی کی حالت میں مرے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی ہی میں نیک بن جائے اللہ کے فضل سے امید ہے کہ اس کا خاتمہ ضرور اچھا ہوگا اورقیامت میں نیکوں کے ساتھ اس کا حشر ہوگا۔ توبہ کے متعلق ایک ضروری بات بندہ اگر کسی گناہ سے توبہ کرے اورپھر اس سے وہی گناہ ہوجائے تو بھی اللہ کی رحمت سے ہرگز ناامید نہ ہو، بلکہ پھر توبہ کرلےاور پھر ٹوٹے توپھر توبہ کرلے اس طرح اگر سیکڑوں ہزاروں دفعہ بھی اس کی توبہ ٹوٹے تو بھی ناامید نہ ہوجب بھی وہ سچے دل سے توبہ کرےگا اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ اس کی توبہ قبول کرلیں گے اور اس کو معاف فرماتے رہیں گے، اللہ کی رحمت اور جنت بڑی وسیع ہے۔ توبہ واستغفار کے کلمات توبہ اوراستغفار کی جو حقیقت اوپر بیان کی گئی ہے، یہ توآپ نے اسی سے سمجھ لیا ہوگا کہ بندہ جس زبان میں اورجن الفاظ میں بھی اللہ سے توبہ کرے اور معافی چاہے اللہ تعالی اس کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے؛لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو توبہ استغفار کے بعض خاص خاص کلمے بھی تعلیم فرمائے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان کو پڑھا کرتے تھے،کوئی شبہ نہیں کہ وہ کلمہ بہت ہی بابرکت اوربہت قبول ہونے والے اور اللہ کو بہت ہی پیارے ہیں،ان میں سے چند ہم یہاں درج کرتے ہیں آپ ان کو یاد کرلیجئے، اوران کے ذریعہ توبہ واستغفارکیا کیجئے۔ "اَسْتَغْفِرُاللہ الَّذِیْ لاَاِلٰہَ اِلاَّھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ"۔ میں معافی اوربخشش طلب کرتا ہوں اس اللہ سے جس کے سواکوئی معبود نہیں وہ حی وقیوم ہے اور میں توبہ کرتا ہوں اس کی طرف۔ "جوشخص اللہ سے اس کلمہ کے ذریعہ توبہ واستغفارکرے گا اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کردے گا،اگرچہ اس نے جہاد کے میدان سے بھاگنے کا گناہ کیا ہو،جواللہ کےنزدیک بہت ہی بڑاگناہ ہے۔ (ابو داؤد،باب فی الاستغفار،حدیث نمبر:۱۲۹۶، شاملہ، موقع الإسلام) اورایک اورحدیث میں ہے کہ: "جوشخص رات کو سوتے وقت تین دفعہ اس کلمہ کے ذریعہ اللہ سے توبہ واستغفار کرے تو اللہ تعالی اس کے سب گناہ معاف کردے گا،اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں"۔ (مسند احمد،مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۱۰۶۵۲، شاملہ، موقع الإسلام) حضورصلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی صرف اَسْتَغْفِرُاللہ(میں اللہ سے معافی چاہتاہوں) اَسْتَغْفِرُاللہ(میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں) بھی پڑھا کرتے تھے،یہ بہت مختصراستغفارہے اس کے ہر وقت زبان پر جاری رہنے کی عادت ڈال لینا چاہئے۔ "اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ لكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ"۔ (ابو داؤد،باب افضل الاستغفار،حدیث نمبر:۵۸۳۱، شاملہ، موقع الإسلام) اے اللہ!تومیرارب ہے،تیرے سواکوئی معبود نہیں تونے مجھے پیداکیا ہے اور میں تیرابندہ ہوں اورجہاں تک مجھ سے ہوسکا میں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں میں نے جوبرے کام کئے ہیں ان کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں،مجھے اپنے پر تیرے انعامات کا اقرارہے اورگناہوں کا بھی اعتراف ہے پس تو مجھےبخش دے گناہوں کو تیرے سوا کوئی بھی نہیں بخش سکتا۔ جوبندہ اس کلمہ کے ذریعہ اس کے مضمون کے دھیان اوریقین کے ساتھ دن میں اللہ تعالی سے استغفار کرے اور اس دن رات شروع ہونے کے پہلے مرجائے تووہ جنت میں جائے گااور جوبندہ اسی طرح اس کلمہ کے مضمون کے دھیان اوریقین کے ساتھ رات میں اس کلمہ کے ذریعہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے اورصبح ہونے سے پہلے اسی رات میں مرجائے تو وہ جنتی ہوگا۔ یہاں استغفار کے صرف یہ تین کلمے نقل کئے گئے ہیں ان کا یاد کرلینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے، حدیث شریف میں ہے کہ: "خوش خبری ہو اور مبارک ہو اس آدمی کو جس کے اعمالنامہ میں استغفار کثرت سے درج ہو"۔ (ابن ماجہ،باب الاستغفار،حدیث نمبر:۳۸۰۸، شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بندہ استغفار کو لازم پکڑے(یعنی اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی برابرمعافی مانگتا رہے) اس کو اللہ تعالی ہر مشکل سے نجات دیں گے اور اس کی ہر فکر اورپریشانی دور فرمائیں گے اور اس کو(اپنے خزانہ غیب سے) اس طرح رزق دیں گے جس کا خود اس کو وہم وگمان نہ ہوگا"۔ (ابوداؤد،باب فی الاستغفار،حدیث نمبر:۱۲۹۷، شاملہ، موقع الإسلام)