انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بغاوتوں کا استیصال ۲۳۹ھ میں باشندگان طلیطلہ نہ محسوس کرکے کہ دربار قرطبہ پر فقہاء کا قبضہ واثر زیادہ ہوگیا ہے اور عیسائی فدائیوں کو بلاتامل قتل کیاجانے لگا ہے اپنے آپ کو خطرہ میں محسوس کرکے یا شمالی عیسائیوں کی قرارداد کے موافق سلطنت اسلامیہ کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی غرض سے بغاوت کی تیاری کی یہ واضح رہے کہ سلطان محمد نے تخت نشین ہوکر جب عیسائی مقتولین کی تعداد میں بےدریغ اضافہ کرنا شروع کردیا تو عیسائیوں نےاپنی حرکت ناشائستہ کو بالکل ترک کردیاتھا اس کے عوض اب طلیطلہ کی بغاوت کا اہتمام ہونےلگا اہل طلیطلہ نے اپنے عربی النسل گورنرکو گرفتار کرکے قرطبہ میں پیغام بھیجا کہ سلطان عبدالرحمن ثانی نے ہمارے جن لوگوں کو بطور یرغمال قرطبہ میں لےجاکرزیر نگرانی رکھا تھا ان کو واپس کردو ورنہ ہم تمہارے گورنر کو قتل کرکے خود محتاری کا اعلان کردیں گے۔ سلطان محمد نے اہل طلیطلہ کی درخواست کو منظور کرکے انلوگوں کو جو بطور یرغمال قرطبہ میں موجود تھے طلیطلہ بھیج دیا اہل طلیطلہ نے بجائے اس کے کہ وہ اب راہ راست پو آجاتے سلطان محمد کی کمزوری کا یقین رکرکے علانیہ علم بغاوت بلند کردیا اور طلیطلہ کو ہر طرح مضبوط کرکے شمالی عیسائی سلاطین سے امداد طلب کی، اہل طلیطلہ بار بار بغاوت کرچکے تھے مگر تعجب ہے کہ اب تک کسی بادشاہ نے بھی طلیطلہ کے قلعہ اور شہر پناہ کو منہدم کرنا ضروری نہیں سمجھا ،اس کا سبب بھی مسلمانوں کی وہی بلند نظری ہے جس نے ان کو شمالی قرحدی ریاستوں کے استیصال سے باز رکھا ورنہ یہ کام اس سے پہلے ان کے لیے نہایت ہی آسان اور معمولی تھا۔ سلطان محمد خود فوج لےکر ۲۴۰ھ میں قرطبہ سے طلیطلہ کی جانب روانہ ہوا ابھی سلطانمحمد طلیطلہ تک نہیں پہنچنے پایا تھا کہ ریاست ایسٹریاس کی فوج اور پہاڑی جنگ جو اہل طلیطلہ کی امداد کے لیے طلیطلہ میں داخل ہوگئے سلطان نے طلیطلہ کی فتح کو دشوار دیکھ کر یہ ترکیب کی کہ اپنی فوج کے برے حصے کو پہاڑیوں ٹیلوں اور جھاڑیوں میں چھپاکر ایک چھوٹے سے حصے کو میدان سلیط میں جوان ٹیلوں اور جھاڑیوں کے درمیان تھا خیمہ زن کیا اہل طلیطلہ نے جب یہ دیکھا کہ سلطان کے ساتھ بہت ہی تھوڑی سی فوج ہے اور اسی لیے وہ طلیطلہ کے محاصرے کی جرأت نہیں کرسکا تو وہ خود طلیطلہ سے نکل کر سلطانی لشکر پر حملہ آور ہوئے،جب لڑائی شروع ہوگئی تو چاروں طرف سے سلطانی لشکر نکل کر حملہ آور ہوا اس غیر مترقبہ آفت سے پہاڑی عیسائی اور اہل طلیطلہ حواس باختہ ہوکر بھاگنے لگے مگر سلطانی لشکر نے اس میدان میں بیس ہزار آدمیوں کو قتل کرڈالا اس شکست سے اہل طلیطلہ کی ہمت پست ہوگئی اور سلطان محمد نے بآسانی طلیطلہ پر قبضہ کرکے وہاں ایک معمولی دستہ فوج متعین کیا۔ اس لڑائی میں اس قدر عظیم الشان کشت وخون ہوا تھا کہ اب اہل طلیطلہ کے باغی ہونے اور سرکشی اختیار کرنے کی توقع نہ رہی تھی ،لیکن اہل طلیطلہ کے تعلقات اب شمالی عیسائی سلاطین سے قائم ہوچکے تھے ادھر لشکر شاہی میں بہت سے سردار صوبوں کی عامل ایسے تھے جو شاہ ایسٹریاس شاہ گاتھک مارچ شاہ جلیقیہ شاہ نوار شاہ ایکیوٹین شہنشاہ فرانس سے درپردہ خط واکتابت رکھتے اور سازش کرچکے تھے ،جس طرح ہو ملک میں مسلمانو ںکی حکومت کے زوال کا سبب آپس کی نااتفاقی ہوا ہے اسی طرح اندلس میں بھی آپس کی نااتفاقی اور خٓنہ جنگی نے روز بددکھایا اندلس میں اس نااتفاقی اور خانہ جنگی کی مثالیں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کسی قدر زیادہ اور غیر معمولی نظر آتی ہیں اندلس کی اسلامی تاریخ میں کوئی زمانہ ایسا دستیاب نہیں ہوتا جس میں مسلمان اس مہلک مرض سے محفوظ ومامون نظر آتے ہوں بہرحال عیسائیوں کے اتحاد اور مسلمانوں کی غداری نے اہل طلیطلہ کو ۲۴۲ھ کے آخر میں پھر بغاوت وسرکشی پر آمادہ کردیا اس مرتبہ سلطان محمد نے پھر طلیطلہ پر چڑھائی اور دوبارہ ان کو مطیع ومنقاد بناکر اور باغیوں کو سزائیں دےکرواپس ہوا ،سلطان محمد کے واپس ہوتے ہی اہل طلیطلہ نے ایک عیسائی سردار کے زیر قیادت پھر علم بغاوت بلند کیا غرض اہل طلیطلہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اور سلطان محمد کو بار بار ان پر چڑھائی کرنے میں مصروف رہنا پڑا آخر ۲۴۸ھ میں سلطان محمد اس بات پر رضامند ہوگیا کہ اہل طلیطلہ کو اقرار اطاعت لےکر حکومت خو اختیاری عطاکردے،یعنی اہل طلیطلہ کو یہ اختیار دےدیاگیا کہ وہ اپنا گورنر خود منتخب کرلیں، اور وہ گورنر ایک مقررہ سالانہ رقم دارلسلطنت قرطبہ میں بھیجا کرے باقی اندرونی انتظام میں وہ خود مختار ہوگا۔ سلطان محمد نے اہل طلیطلہ کی اس شرط کو منظور کرکے نہ صرف اپنی کمزوری کا اظہار کیا بلکہ یوں کہیے کہ عیسائیوں کے اس قدیمی دارلسلطنت کو خود اختیاری حکومت عطاکرکے اندلس میں دوبارہ عیسائی سلطنت کا سنگ بنیاد رکھ دیا اور اسلامی سلطنت اندلس کے ایوان کی بنیاد میں سرنگ لگادی جس سے ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کا نام ونشان ملک اندلس سے گم ہوگیا طلیطلہ والوں نے موسی بن موسی کے بیٹے لوپ کو گورنر بنانا چاہا سلطان محمد نے اس کو بخوشی منظور کرلیا اس کے بعد طلیطلہ میں شمالی علاقے کی عیسائی حکومتوں سے پہاڑی اور جنگ جو عیسائی آآکر بکثرت آباد ہونا شروع ہوئے،اور مسلمانوں کو جوطلیطلہ میں آباد تھے بتدریج وہاں سے خارج اور بےدخل کرنا شروع کیا نہ صرف شہر طلیطلہ بلکہ اس کے ارد گرد کا تمام علاقہ ریاست ایسٹریاس کا نمونہ بن گیا ادھر موسی بن موسی گورنر سرقسطہ نے عیسائی سلاطین سے خفیہ معاہدے کرلیے تھے غرض اس غدار خاندان نے سلطنت اسلامیہ کو کمزور کرنے میں خوب حصہ لیا جو بظاہر مسلمان کہلاتا تھا۔ اسی سال نارمن قوم نے اندلس کے مغربی ساحل پر اپنی کشتیاں لاکر اس طرف کے ساحلی علاقے پر چھاپہ مارا مگر سلطان محمد کے جہازوں نے جو اس ساحل پر موجود تھے نارمنوں کی پچاس کشتیاں گرفتار کرلیں اور وہ بلا سخت نقصان پہنچائے اندلس سے بھاگ گئے۔ رجب۲۵۱ھ میں سلطان محمد نے اپنے بیٹے منذر کو سرحد شمال کی جانب البہ اور قلاع کے عیسائی سرکشوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا اور اس کے پیچھے خود فوج لےکر جلیقیہ کے قصد سے روانہ ہوا یہاں باپ بیٹوں کو فتوحات حاصل ہوئیں ،لیکن عیسائی لوگ اب مسلمانوں کے ان حملوں اور شمالی علاقے پر چڑھائیوں کو خوب پہچان گئے تھے جب کوئی نہایت زبردست فوج حملہ آور ہوتی وہ معمولی مقابلہ کرکے پہاڑوں میں جاچھپتے اور معافی کی درخواستیں بھیجتے،اطاعت کا اقرار کرتے اور اس طرح ان حملہ آوروں کو واپس کرکے پھر اپنے مقبوضہ ملک پر قابض ومتصرف ہوکر حکومت کرنے لگتے اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ،شاہی فوجیں قرطبہ کی جانب واپس آئیں اور عیسائیوں نے اپنی پیش قدمی شروع کی اس سے پیشتر عیسائیوں کے حملے اسلامی شہروں پر لوٹ مار کی غرض سے ہوتے تھے لیکن اب مسلمانوں کی کمزوری کو بخوبی محسوس کرچکے تھے اب انھوں نے جس شہر پر قبضہ کیا اپنا عامل مقرر کیا اور وہاں باقاعدہ حکومت قائم کرکے جلد جلد اپنے رقبہ ٔ حکومت کو وسیع کرنے لگے چنانچہ جس طرح مشرقی ساحل پر برشلونہ لے لینے کے بعد عیسائی مشرقی ساحل پر نیچے اترنے کی فکر میں تھے اسی طری انہوں نے مغربی ساحل پر قبضہ کرنا شروع کیا اور پرتگال کے علاقے کو زیر تصرف لے آئے سلطان محمد نے ایک جنگی بیڑہ ترتیب دے کر بحری راستے سے فوج بھیجی کہ وہ خلیج بسکی میں پہنچ کر جلیقیہ کے شمالی جانب سے حملہ آور ہو لیکن اتفاق سے سمندر میں طوفان آیا اور یہ بیڑا طوفان میں سخت نقصان اٹھاکر بے نیل ومرام واپسآیا ،اس کے بعد بحری مہم کا خیال ترک کردیاگیا۔ اہل طلیطلہ کی مثال دیکھ کر جابجا شہروں میں بغاوتیں شروع ہوئیں اور ہر ایک اس شہر نے جہاں عیسائیوں کی آبادی زیادہ تھی ،حکومت خوداختیاری کا مطالبہ کیا ان بغاوتوں کے فرو کرنے میں سلطان محمد کو مطلق اطمینا ن میسر نہ ہوا۔