انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عیسیٰ بن یونس الہمدانیؒ نام ونسب عیسیٰ نام اور ابو عمر وکنیت تھی(العبر فی خبر من غبر:۱/۲۰۱)پورا سلسلہ نسب یہ ہے:عیسیٰ بن یونس ابن ابی اسحاق عمرو بن عبداللہ بن احمدبن ذی یحمدبن السبیع بن سبع بن صعب بن معاویہ،ابن کثیر بن حشم بن حاشدبن چشم بن خیوان بن نوف بن ہمدان (تاریخ بغداد:۱۱/۱۵۲) خاندانی نسبت سے ہمدانی اور وطن کی طرف منسوب ہوکر کوفی کہلاتے ہیں۔ وطن ان کا اصلی وطن تو کوفہ تھا اور غالباً وہیں پیدا بھی ہوئے ،کچھ دنوں بغداد میں بھی مجلس درس وافادہ گرم کی،لیکن پھر شام کے سرحدی علاقہ حدث میں (مقام حدث کی تعیین کرتے ہوئے صاحب تقویم رقم طراز ہیں "ھو مدینۃ صغیرۃ عامرۃ فیھا میاہ وزرع کثیر واشجار کثیرۃ وھو ثغر:۲۶۳)مستقل طور پر مرابط (یعنی سرحدی محافظ)کی حیثیت سے اقامت گزیں ہوگئے تھے،سمعانی کا بیان ہے: کان عیسیٰ قدا نتقل عن الکوفۃ الیٰ بعض ثغورالشام فسکنھا (کتاب الانساب للسمعانی:۲۹۰) عیسیٰ بن یونس کوفہ سے شام کے ایک سرحدی علاقہ میں منتقل ہوکر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ علامہ ابن سعد کا بیان اس سلسلہ میں سب سے زیادہ واضح ہے،وہ رقمطراز ہیں: عیسیٰ بن یونس السبیعی من اھل الکوفۃ تحول الی الثغر منزل بالحدث ومات بھا فی خلافۃ ھارون (طبقات ابن سعد:۶/۷۸) عیسیٰ بن یونس کوفہ کے رہنے والے تھے پھر سرحدی علاقہ حدث میں منتقل ہوکر مقیم ہوگئے اوروہیں ہارون الرشید کے زمانہ خلافت میں وفات پائی۔ خاندان عیسیٰ بن یونس اس خانوادۂ فضل وکمال سے تعلق رکھتے تھے،جس کا ہر فرد آسمان علم وفن کا اختر تاباں تھا،بلاشبہ جماعت تابعین میں ابو اسحاق سبیعی اس حیثیت سے بہت ہی ممتاز ہیں کہ ان کے خاندان میں ائمہ و علماء کی پوری ایک جماعت تیار ہوکر نکلی،جن میں سے کسی نے قرآن وحدیث میں نام روشن کیا،تو کوئی فقہ و فتاویٰ کی مسند ریاست پر فائز ہوا، عبادت وریاضت،تواضع وانکسار،بے نفسی وفروتنی ان سب میں قدر مشترک تھی،ابو اسحاق سبیعی کے علاوہ اس خانوادہ عالیہ میں جو علماء نامور ہوئے،ان میں یونس بن ابی اسحاق،اسرائیل بن یونس،عیسیٰ بن یونس،یوسف بن یونس، اسحاق بن ابی اسحاق السبیعی اوریوسف بن اسحاق بن ابی اسحاق،قابل ذکر شامل ہیں۔ فضل وکمال علمی اعتبار سے وہ بلند پایہ اتباع تابعین میں تھے،جامعیت اورتبحر علمی میں ان کی نظیر شاید وباید ہی ملتی ہے،ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ امام اوزاعی سے میری روایات کے بارے میں سوائے عیسیٰ بن یونس کے مجھے کسی کی بھی مخالفت کی پرواہ نہیں؛ کیونکہ میں نے موصوف کو امام اوزاعی سے پوری محنت اور توجہ کے ساتھ کسب فیض کرتے دیکھا ہے اوربلاشبہ وہ تمام باقی علمائے عرب سے افضل ہیں،امام وکیع کا قول ہے۔ ذالک رجل قد قھر العلم (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۵) یہ شخص علم پر غالب ہے۔ حدیث حدیث میں انہوں نے وقت کے کبار محدثین اور ارباب فن سے مہارت حاصل کی تھی اورپھر خود بھی اساتذہ عصر میں شمار ہوئے،اپنے جدّ امجد ابو اسحاق سبیعی کے دیدار سے دید شوق کو روشن کیا تھا،لیکن ان سے سماع کی سعادت نصیب نہ ہوسکی،دوسرے تابعین کرام کےسامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ان کے خصوصی اساتذہ حدیث میں سلیمان الاعمش کو نمایاں حیثیت حاصل ہے،خود عیسیٰ بن یونس ہی سے مروی ہے کہ: اربعین حدیثا حدثنا بھا الاعمش فیھا ضرب الرقاب لم یشرکنی فیھا احد غیر محمد بن اسحاق (تہذیب التہذیب:۸/۲۳۹) مجھ سے اعمش نے چالیس حدیثیں بیان کی تھیں، ان میں سے ایک ضرب الرقاب کی حدیث بھی ہے اس کی سماعت میں محمد بن اسحاق کے علاوہ میرا کوئی شریک نہیں ہے۔ ان کے لائق ذکر اساتذہ کے نام یہ ہیں، ہشام بن عروہ،عبیداللہ بن عمر،سلیمان الاعمش،امام اوزاعی،شعبہ،مالک بن انس،ابن جریج،یحییٰ بن سعد الانصاری،محمد ابن اسحاق، یونس بن ابی اسحاق، اسرائیل بن یونس،ابن عون،ولید بن کثیر،زکریا بن ابی زائدہ،ابن ابی عروبہ ،معمر بن راشد۔ (تاریخ بغداد:۱۱/۱۵۲،وتہذیب التہذیب:۸/۲۳۹) تلامذہ اسی طرح ان کے چشمہ فیض سے اپنی تشنگی علم کو فرو کرنے والے وارفتگانِ علم کا دائرہ بھی خاصا وسیع ہے جن میں ان کے والد یونس بن ابی اسحاق اورصاحبزادے عمر بن عیسیٰ کے علاوہ اسماعیل بن عیاش،یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، اسحاق بن راہویہ ابوبکر بن ابی شیبہ، یعقوب الدورقی،حسن بن عرفہ،ولید بن مسلم، بقیہ بن ابولید،عبداللہ بن وہب،مسدد،حکم بن موسیٰ، یحییٰ بن اکثم ،علی بن حجر،حسن بن عرفہ کے نام لائق ذکر ہیں۔ (کتاب الانساب لللسمعانی:۲۹۰،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۱۵۵،وتہذیب التہذیب:۸/۲۳۹) علاوہ ازیں حماد بن سلمہ بھی عمر میں ابن یونس سے بڑے ہونے کے باوجود ان سے روایت کرتےہیں۔ فقہ پورا خاندان سبیعی فقہ میں تمغۂ امتیاز رکھتا تھا،عیسیٰ بن یونس کو بھی اس چشمہ فیض سے بہرہ وافر نصیب ہوا تھا،سلیمان بن داؤد کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رئیس الفقہاء سفیان بن عیینہ کی مجلس درس میں شریک تھے کہ اسی اثنا میں عیسیٰ بن یونس تشریف لے آئے،ان پر نظر پڑتے ہی ابن عیینہ نے بڑی گرمجوشی سے ان کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا:مرحبا بالفقیہ ابن الفقیہ ابن الفقیہ (تاریخ بغداد:۱۱/۱۵۴) قرأتِ قرآن کلامِ پاک کی مختلف قرأتوں کا علم بھی گذشتہ زمانہ میں بڑی اہمیت اور عظمت کا حامل رہا ہے،اس لیے حدیث وفقہ کی طرح علماء اس کی تحصیل کو بھی ضروری خیال کرتے اوراس میں جدوجہد کرتے تھے؛چنانچہ عیسیٰ بن یونس اس فن میں مہارت اوریدِ طولیٰ رکھتے تھے،جعفر بن یحییٰ البر مکی کا قول ہے۔ مارأینا فی القراء مثل عیسی بن یونس (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۵) ہم نے قرأ میں عیسیٰ بن یونس کی نظیر نہیں دیکھی۔ نحو عنفوان شباب میں علمِ نحو کی طرف ان کا خصوصی رجحان تھا اوراس میں انہیں جلد ہی اس حد تک قدرت حاصل ہوگئی تھی کہ اپنے معاصرین پر تفوق کا احساس پیدا ہوگیا تھا،اس لیے اپنی نفس کشی کے لیے انہوں نے نحو کی طرف سے اپنی توجہ کو بالکل ہٹا لیا،احمد بن داؤد کی روایت سے خود عیسیٰ بن یونس کا بیان ہے کہ: لم یکن فی اسنانی ابصر بالنحو منی قد خلتنی منہ نخوۃ فترکتہ (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۰۱) میرے ہمعصروں میں نحو کا مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں تھا،اس سے مجھ میں غرور پیدا ہوگیا؛چنانچہ میں نے اسے چھوڑدیا حج وجہاد کم وبیش ۹۰ برس کی طویل عمر میں انہوں نے مختلف مقامات پر علم وفن کے چشمے جاری کیے تھے،لیکن ان کی عمر کا پیشتر حصہ حج اورجہاد میں گزرا تھا۔ بعض بیانات سے منکشف ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک سال حج کرنے اورایک سال جہاد فی سبیل اللہ میں رہنے کا معمول بنالیا تھااور آخر عمر تک اس پر عامل رہے،ان کے شاگرد رشید احمد بن خباب راوی ہیں کہ: غزاعیسیٰ بن یونس خمساً واربعین غزوۃً وحج خمسا واربعین حجۃ (تہذیب الاسماء واللغات:۲/۴۸) عیسیٰ بن یونس نے ۴۵ حج اور۴۵ جہاد میں شرکت کی۔ استغناء ائمہ اسلاف کے عام اشعار کے مطابق عیسیٰ بن یونس بھی استغناء وبے نیازی کا پیکر مجسم تھے،بالخصوص وہ حدیثِ نبوی کی تعلیم وتدریس پر کوئی معاوضہ قطعی جائز نہیں سمجھتے تھے، اسی مثالی اورمعیاری شعار نے بلاشبہ گذشتہ صدیوں میں محیر العقول علمی وفنی کارنامے انجام دلائے،حُب جاہ اورحرص وآز کی زیادتی علم کی افادیت کو ختم کردیتی ہے، جس کی نظیر عصر حاضر میں عامۃ الورود ہے،لیکن علمائے سلف کے نزدیک اس کا تصور بھی محال تھا،ابن یونس بھی اس کی اعلیٰ مثال تھے؛چنانچہ منقول ہے کہ ایک مرتبہ ہارون رشید کے ایامِ خلافت میں امین اورمامون امام موصوف کی خدمت میں حاضر ہوئے اورحدیث سُنانے کی درخواست کی؛چنانچہ انہوں نے متعدد روایتیں بیان کیں، پھر اس کےبعد مامون نے انہیں دس ہزار درہم دیے جانے کا حکم دیا،لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا، مامون نے خیال کیا کہ وہ اس رقم کوکم سمجھ کر قبول نہیں کررہے ہیں؛چنانچہ اس نے پھر بیس ہزار درہم پیش کیے مگر اس پر بھی ابن یونس نے انتہائی شانِ استغناء کے ساتھ جواب دیا: لا ولا أهليلجة ولا شربة ماء على حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ولو ملئت لى هذا المسجد إلى السقف (تہذیب الاسماء:۲/۵۱) نہ، حدیث رسولﷺ کی تعلیم پر نہ تو میں ایک ہڑ ہی قبول کروں گا اورنہ ایک گھونٹ پانی، خواہ میرے لیے یہ مسجد زمین سے چھت تک بھر کیوں نہ دی جائے۔ اسی طرح ایک دفعہ انہیں اہل رقہ نے درس دینے کے لیے بلایا،جب وہ اس سے فارغ ہوکر واپس جانے لگے تو ایک لاکھ کی خطیر رقم ان کی خدمت میں بار بار پیش کی گئی مگر وہ کسی طرح اسے قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے اور ہر مرتبہ فرماتے لاحاجۃ لی فیھا ،جب اصرار حد سے فزوں تر ہوا تو بہت درشتی کے ساتھ نہایت فیصلہ کن انداز میں فرمایا : قال لا والله لا يتحدث أهل العلم أني أكلت للسنة ثمناً ألا كان هذا قبل أن ترسلوا إلي؟ فأما على الحديث فلا والله ولا شربة ماء ولا هليلجة (تاریخ بغداد:۵/۹۵) نہیں بخدا اہل علم یہ نہ کہیں کہ میں نے حدیث کی قیمت وصول کی ہے،ہاں اس صورت میں اسے قبول کرلیتا،جب تم مجھے بلانہ بھیجتے،بخدا حدیث پر نہ تو میں ایک گھونٹ پانی قبول کرنے کو تیارہوں اورنہ ایک ہڑلینے کو۔ تثبت وعدالت اوراعتراف علماء ان کی ثقاہت وعدالت علم وفضل اوراوصاف وکمالات کا اعتراف نہ صرف ان کے فضلائے وقت تلامذہ نے ؛بلکہ ان کے معاصرین اورہم پلہ ائمہ نے بھی نہایت فراغ دلی کے ساتھ کیا ہے، حتی کہ امام نوویؒ نے لکھا ہے: اجمع الائمۃ علیٰ جلالتہ وتوثیقہ وارتفاع مرتبتہ (تہذیب الاسماء:۲/۴۸) ان کی جلالتِ شان علوّ مرتبت اورثقاہت پرائمہ کا اجماع ہے۔ اس حیثیت سے بلاشبہ عیسیٰ بن یونس منفرد اورعدیم النظیر تھے کہ ان پر کسی بھی اہل علم اورناقدین کو کلام کی جرأت نہ ہوسکی،یحییٰ بن معین سے دریافت کیا گیا تو فرمایا: "بخ بخ ثقۃ مامون" (العبر نی خبر من غبر:۱/۳۰۰) علی بن مدینی کا بیان ہے۔ جماعۃ من الاولا داثبت عندنا من ابائھم منھم عیسی بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی (تاریخ بغداد:۱۱/۱۵۴) ہمارے نزدیک ائمہ کی اولاد کی ایک جماعت اپنے آباء سے زیادہ تثبت رکھتی ہے،انہی میں عیسیٰ بن یونس بھی ہیں۔ ابن عمار کہتے ہیں کہ فرزندانِ یونس یعنی اسرائیل،عیسیٰ اوریوسف میں عیسیٰ کا مرتبہ ثقاہت سب سے بلند وبرتر ہے،عجلی کا قول ہے۔ عیسی بن یونس کوفی ثقۃ وکان تثبتا فی الحدیث عیسیٰ بن یونس کوفی ثقہ ہیں اورحدیث میں تثبت رکھتے تھے۔ علامہ سمعانی رقمطراز ہیں: کان مامونا ثقۃ صدوقاً (کتاب الانساب:۲۹) وہ مامون ،ثقہ اورصدوق تھے۔ ابن سعد خامہ ریز ہیں کہ "کان ثقۃ ثبتا" (طبقات ابن سعد:۱/) وفات ان کی وفات کے متعلق بہت متضاد بیانات سامنے آتے ہیں،اس سلسلہ میں ۱۸۱ھ سے ۱۹۱ھ تک کے مختلف اقوال ہیں لیکن علامہ یافعی اورحافظہ ذہبی نے لکھا ہے کہ صحیح ترین قول کے مطابق وسط رمضان ۱۸۸ھ میں بمقامِ حدث،یہ آفتابِ علم غروب ہوا۔ (مراۃ الجنان:۱/۴۴۰،والعبر نی خبر من غبر:۱/۳۰۱)