انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت محرزبن نضلہؓ نام،ونسب محرزنام اورابونضلہ کنیت ہے ؛لیکن عموماً اخرم اسدی کے لقب سے مشہور تھے،پورا سلسلہ نسب یہ ہے۔ محرز بن نضلہ بن عبداللہ بن مرہ بن کبیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ اسدی ،یہ ایام جاہلیت میں بنو عبد شمس کے حلیف تھے۔ (اسد الغابہ :۴/۳۰۷) اسلام وہجرت قبولِ اسلام کا زمانہ متعین نہیں تاہم مومنین سابقین میں ہیں، مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو انصار کے قبیلہ عبدالاشہل نے ان کو اپنا حلیف بنالیا اورحضرت عمار بن حزم ؓ سے اسلامی بھائی چارہ ہوا۔ (طبقات ابن سعد قسم ۱ جلد ۳:۶۷) غزوات غزوۂ بدر، اُحد اورخندق میں جانبازی وشجاعت کے ساتھ سرگرم کارزار تھے،غزوۂ ذی قرد کی معرکہ آرائی ان کا سب سے شاندار اورآخری کارنامہ ہے،(ایضاً )اس کی تفصیل یہ ہے۔ شہادت ۶۰ھ میں بنو فزارہ نے مدینہ کی چراگاہ میں آنحضرت ﷺ کے اونٹوں پر چھاپہ مارا اورگلہ بان کو قتل کرکے اونٹوں کو اپنے ساتھ لے چلے ،حضرت سلمہ بن الاکوعؓ موقع وارادات کے قریب موجود تھے، انہوں نے آنحضرت ﷺ کے غلام حضرت رباح ؓ کو گھوڑے پر سوار کرکے اطلاع کے لیے مدینہ بھیجا اور خود پہاڑ پر چڑھ کر، یا صباحاہ کا نعرہ بلند کیا اور دیر تک تنہا تیروں اورپتھروں سے ان غارت گروں کا مقابلہ کرتے رہے، اسی اثناء میں درختوں کے جھنڈ سے آنحضرت ﷺ کے سوار نکلتے ہوئے نظر آئے، سب سے آگے حضرت اخرم اسدیؓ یعنی محرز بن نضلہ اوران کے پیچھے حضرت ابو قتادہ انصاری ؓ اورحضرت مقداد بن اسودؓ تھے، حضرت سلمہؓ نے حضرت اخرمؓ کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کہا، اخرم! آگے نہ بڑھو، مجھے ڈر ہے کہ غنیم تمکو گھیر کر آنحضرت ﷺ اوران کے اصحاب سے ملنے نہ دے گا، بولے سلمہ اگر تم خدا اورقیامت پر ایمان رکھتے ہو تو میری شہادت میں حائل نہ ہو، یہ جملہ کچھ ایسے جوش میں ادا ہوا تھا کہ حضرت سلمہؓ نے باگ چھوڑدی اوروہ گھوڑا اڑاتے ہوئے عبدالرحمن فزاری کے سامنے جاکھڑے ہوئے،انہوں نے ایک ایسا وار کیا کہ عبدالرحمن کا گھوڑا کٹ کر ڈھیر ہوگیا ،لیکن اس کا نیزہ بھی خالی نہ گیا، حضرت محرزؓ شہید ہوکر فرشِ خاک پر آئے، اوروہ اچھل کر ان کے گھوڑے پر سوار ہوگیا، تاہم ابوقتادہؓ پیچھے موجود تھے، انہوں نے اس کو واصلِ جہنم کرکے ان کا انتقام لیا۔ (مسلم جلد ۲ باب غزوۂ ذی قرو) فضل وکمال گذشتہ واقعہ سے ان کے غیر متزلزل ایمان و شوق شہادت کا اندازہ ہوا ہوگا، شہادت سے چند دن پہلے انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمان کے دروازے ان کے لیے کھولدئے گئے اوروہ عالم بالا کی سیر کرتے ہوئے ساتویں آسمان اورسدرۃ المنتہی تک پہنچ گئے ہیں، یہاں سے ان سے کہا گیا کہ یہی تمہار مسکن ہے۔ دوسرے روز انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے جو تعبیر رویا میں کمال رکھتے تھے اس خواب کو بیان فرمایا، اخرم! تمہیں شہادت کی بشارت ہو، چنانچہ چند ہی دنوں کے بعد اس بشارت نے واقعہ کی صورت اختیار کی اورغزوۂ ذی قرد کی شہادت نے ان کو سدرۃ المنتہیٰ کے دائمی مسکن میں پہنچا دیا۔ (طبقات ابن سعد قسم ۱ جلد ۳ :۶۷) حلیہ رنگ سپید اورمجموعی حیثیت سے حسین وخوبصورت۔ ( ایضاً)