انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتنہ برداز قافلوں کی روانگی سب سے پہلے ایک ہزار آدمیوں کا ایک قافلہ مشہور کرکے کہ ہم حج کرنے جاتے ہیں مصر سے روانہ ہوا اس قافلہ میں عبدالرحمن بن عدیس،کنانہ بن بشر یمنی سودان بن عمران وغیرہ شامل تھے، اس قافلے کاسردار غافقی بن حرب مکی تھا، تجویز کی گئی تھی کہ مصر سے یہ ایک ہزار آدمی سب کے سب ایک ہی مرتبہ ایک ساتھ روانہ نہ ہوں؛بلکہ مختلف اوقات میں یکے بعد دیگرے چار چھوٹے چھوٹے قافلوں کی شکل میں روانہ ہوں اور آگے کئی منزل کے بعد مل کر سب ایک قافلہ بن جائیں ؛چنانچہ ایسا ہی ہوا، ایک ہزار کا قافلہ مقام کوفہ سے مالک اشترکی سرداری میں اسی اہتمام کے ساتھ یعنی چار حصوں میں منقسم ہوکر روانہ ہوا اس قافلہ میں زید بن صفوان عبدی، زیاد بن النفرحارثی، عبداللہ بن اماسم عامری بھی شامل تھے اسی طرح ایک ہزار کا قافلہ حرقوس بن زہیر سعدی کی سرداری میں بصرہ سے روانہ ہوا جس میں حکیم بن جبلہ عبدی بشر بن شریک قیسی وغیرہ شامل تھے،یہ تمام قافلے ماہ شوال ۳۵ ھ میں اپنے اپنے شہروں سے روانہ ہوئے اور سب نے یہ مشہور کیا کہ ہم حج ادا کرنے جاتے ہیں،ان سب نے آپس میں پہلے ہی سے یہ تجویز پختہ کرلی تھی کہ اس مرتبہ امیر المومنین عثمان بن عفانؓ کو ضرور معزول یا قتل کریں گے اپنے اپنے مقاموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر روانہ ہوئے پھر سب یک جا ہوئے اس کے بعد چند منزلیں طے کرکے تینوں صوبوں کے قافلے مل کرایک ہوگئے اور سب کے سب مل کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے جب مدینہ منورہ تین منزل کے فاصلے پر رہ گیا تو وہ لوگ جو طلحہ ؓ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے آگے بڑھ کر زوخشب میں ٹھیر گئے،جو لوگ زبیرالعوام کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے مقام اعوص میں آکر مقیم ہوگئے جو لوگ حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے وہ ذوالمروہ میں مقیم ہوگئے،طلحہؓ کے حامیوں میں زیادہ تعداد بصرہ کے لوگوں کی ،زبیر بن العوام کے طرفداروں میں زیادہ تعداد کوفہ کے لوگوں کی تھی جو لوگ حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے ان میں زیادہ تر مصر کے لوگ شامل تھے۔ زیاد بن المنظر اورعبداللہ بن الاصم نے ان تمام بلوائیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو،جلدی نہ کرو ہم پہلے مدینہ میں داخل ہوکر اہل مدینہ کی حالت معلوم کرآئیں، کیونکہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ مدینہ والوں نے بھی جنگی تیاری کی ہے،اگر یہ خبر صحیح ہے تو پھر ہم سے کچھ نہ ہوسکے گا، تمام بلوائی یہ سن کر خاموش ہوگئے اور یہ دونوں مدینہ میں داخل ہوئے مدینہ میں پہنچ کر یہ دونوں حضرت علیؓ،طلحہؓ،زبیر اورامہات المومنین سے ملے اوران سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا ان سبھوں نے ان کو ملامت کی اور واپس جانے کا حکم دیا۔ اس جگہ یہ بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ عبداللہ بن سبا کے آدمی جو مدینہ منورہ میں موجود تھے،انہوں نے حضرت علیؓ،حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اورامہات المومنین کے نام سے بہت سے خطوط لکھ لکھ کر کوفہ،بصرہ،ومصر کے ان لوگوں کے نام روانہ کئے جوان بزرگوں کے نام سے عقیدت رکھتے تھے اور عبداللہ بن سبا کے دام تزویر میں پورے اوریقینی طور سے نہیں پھنسے تھے،ان خطوط میں لکھا گیا تھا کہ حضرت عثمان اب اس قابل نہیں رہے کہ ان کو تخت خلافت پر متمکن رہنے دیا جائے،مناسب یہی ہے اورامت مسلمہ کی فلاح اسی میں مضمر ہے کہ آنے والے ماہ ذی الحجہ میں اس ضروری کام کو سرانجام دے دیا جائے، یہی وجہ تھی کہ یہ تینوں قافلے مدینہ منورہ میں ہر قسم کا فساد مچانے اورکشت وخون کرنے کے ارادے سے چلے تھے،تین ہزار آدمیوں کا کیا حوصلہ تھا کہ وہ اس مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تصرف کرتے،اورزبردستی اپنے ارادے پورے کرانے کے عزم سے آتے، جس مدینہ پر جنگ احزاب کے کثیر التعداد کفار دخل نہ پاسکے تھے،ان بلوائیوں کو یہی شیری اوردلیری تھی کہ مدینہ کے اکابر سب ہماری حمایت پر آمادہ ہیں اورہم جو کچھ کریں گے گویا انہی کے منشا کو پورا کریں گے،مدینہ میں جب ہر ایک بزرگ نے ان کی آمد کو نامناسب قرار دیا اور انہوں نے مدینہ میں کسی قسم کی مستعدی اورجنگی تیاری بھی نہ دیکھی تو انہوں نے ان بزرگوں کی مخالفت رائے کو مصلحت اندیشی پر محمول کیا اورواپس جاکر تمام بلوائیوں کے نمائندوں اورسرداروں کو جمع کیا اورمدینہ والوں کی طرف سے اطمینان دلا کر یہ تجویز پیش کی ،سرداران مصر جن میں زیادہ تر حضرت علیؓ کے حامی ہیں حضرت علیؓ کے پاس بصرہ والے طلحہؓ کے پاس اورکوفہ والے زبیرؓ کےپاس جائیں ؛چنانچہ یہ لوگ مدینہ میں داخل ہوکر تینوں حضرات کی خدمت میں الگ الگ حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم حضرت عثمان کی خلافت کو کسی طرح پسند نہیں کرتے،آپ ہم سے بیعت خلافت لے لیں،ہر ایک بزرگ سے بیعت لینے کی فرمائش کی گئی اورہر ایک نے سختی سے انکار کیا،جب انکار دیکھا تو مصر والوں نے حضرت علیؓ سے کہاکہ ہمارے یہاں کا عامل عبداللہ بن سعد چونکہ ظالم ہے ہم اس کو معزول کرائے بغیر مدینہ سے باہر ہرگز نہ جائیں گے،بلوائیوں کے ان سرداروں کے اصرار اورجرأت کو دیکھ کر اورمناسب وقت سمجھ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اوربعض دوسرے اصحاب کرام نے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشورہ دیا کہ ان بلوائیوں کو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہاں سے ٹال دو اوران کی ضدپوری کردو،یعنی عبداللہ بن سعدؓ کو مصر کی امارت سے معزول کردو،حضرت عثمان غنیؓ نے دریافت کیا کہ پھر کس کو مصر کا عامل تجویز کیا جائے۔