انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فتوحات صحابہ تعمیر مساجد اگر صحابہ کرام کے نظام اخلاق،نظام عمل اورنظام عقائد کی تحلیل کی جائے تو ان فتوحات کے اہم اوراصولی اسباب حسب ذیل قراردیئے جاسکتے ہیں: (۱)صحابہ کرام دنیا کی فتح کے لئے اٹھے تو ان کے سامنے ایک خاص مقصد تھا جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مطمع نظر قرار دیا تھا، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ جب آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو غزوۂ خیبر میں عَلم فتح عنایت فرمایا تو ساتھ ساتھ یہ الفاظ بھی فرمائے: لَأَنْ يُهْدَى بِكَ رَجُلٌ وَاحِدٌ خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَم اگر خدا تمہارے ذریعہ سے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ لیکن جس قوم سے بادہ ہدایت کے ان متوالوں کا مقابلہ ہوا ان کے دل اس کیف سے بالکل خالی تھے، ان کا فوجی نظام اگرچہ نہایت مکمل تھا تاہم ان کے سامنے کوئی مقصد نہ تھا، وہ خارجی قوت سے لڑنا چاہتے تھے، حالانکہ فوج صرف اندرونی طاقت سے لڑتی ہے ،خود فرانس کا مشہور مورخ لیبان صحابہ کرام کی فتوحات کا سبب اسی مقصد جلیل اوراسی قوت ایمانیہ کو قرار دیتا ہے؛ چنانچہ اپنی مشہور فلسفیانہ کتاب سر تطور الامم میں لکھتا ہے: اگر ہم عرب کی ابتدائی فتوحات کے زمانے کی تاریخ پر غور کریں (حالانکہ ابتدائی فتوحات عادۃ مشکل اوراہم ہوتی ہیں) تو ہم کو معلوم ہوگا کہ ان کا مقابلہ ان حریفوں سے ہوا جن کا نظام فوج اگرچہ نہایت مستحکم تھا، تاہم ان کی اخلاقی طاقت ضعیف ہوگئی تھی، عرب کی فوج نے اول اول شام کی طرف پیش قدمی کی جہاں ان کو بیز نٹائن فوج سے سابقہ پڑا جو ان افراد سے مرکب تھی جو کسی مقصد کے لئے اپنے اندر جان فروشی کا جذبہ نہیں رکھتی تھی، لیکن عرب کی قوت ایمانیہ ان کی تعداد کو کئی گناہ بڑھادیتی تھی، اس لئے ان کو ایسی کھوکھلی فوج کے شیرازہ کے پراگندہ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ (سرتطورالامم مطبوعہ مصر،صفحہ:۲۲۵) (۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک خود صحابہ کرام کی فتوحات کا ایک عظیم الشان سبب تھی، محبت واطاعت نے صحابہ کرام کو اس شمع ہدایت کا پروانہ بنادیا تھا، اوروہ صرف جان دے کر اس سے جدا ہوسکتے تھے؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ نے کہا کہ میں تمہارے سامنے ایسے چہرے اوراسیے مخلوط آدمی دیکھتا ہوں جو تم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، تو اس طنز آمیز فقرے نے جانثاران رسول کے دلوں پر نشتر کا کام کیا اورحضرت ابوبکرؓ نے برہم ہوکر کہا ہم اورآپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ (بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد ومصالحۃ مع اہل الحرب ) غزوۂ بدر میں جب آپ ﷺنے کفار کے مقابلہ کے لئے صحابہ کرام کو جوش دلایا تو حضرت مقدادؓ نے کہا ہم وہ نہیں ہیں جو موسیٰ کی قوم کی طرح یہ کہہ کر الگ ہوجائیں۔ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا ۔ (المائدہ:۲۴) تم اپنے خدا کے ساتھ جاؤ اور دونوں مل کر لڑو بلکہ ہم آپ کے دائیں سے بائیں سے آگے سے پیچھے سے لڑیں گے؛ چنانچہ یہ جاں نثارانہ فقرے سنے تو فرط مسرت سے آپﷺ کا چہرہ دمک اٹھا۔ (بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدر) غزوۂ حنین میں معرکہ کا وقت آیا تو آپ ﷺنے حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ اصحاب سمرہ کو بلائیں، انہوں نے آوازدی تو وہ لوگ لبیک کہہ کر اس جوش کے ساتھ ٹوٹ پڑے، جس طرح بچے والی گائیں اپنے بچوں پر ٹوٹتی ہیں۔ (مسلم کتاب الجہاد باب فی غزوہ حنین) جاں نثاری رسول کے عنوان میں اس قسم کی متعدد مثالیں گذر چکی ہیں اوران تمام مثالوں کو پیش نظر رکھ کر ہر شخص خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ جو قوم اپنے پیغمبر کی اس قدر جاں نثار ہوا اس کی محبت میں ، اس قدر سرشار ہو، اس کی اس قدر اطاعت گذار ہو، اس کی حکومت کا پھر یراافقِ عالم پر لہرا سکتا ہے، یا اس قوم کا؟ جس نے اپنے پیغمبر سے صاف صاف کہدیا تھا: فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُون (المائدہ:۲۴) تم اپنے خدا کے ساتھ جاؤ اور لڑوہم تو اسی جگہ بیٹھتے ہیں۔ (۳)صحابہ کرام کی فتوحات کا ایک بڑا سبب تحمل مشتاق تھا، تحمل مشاق فوج کے نظام اخلاق کا نہایت ضروری عنصر ہے، اورصحابہ کرام نے فوجی خدمات کے ادا کرنے میں جس قدر جسمانی تکلیفیں اٹھائی ہیں، اس کی نظر سے دنیا کی مذہبی اورسیاسی تاریخ خالی ہے ،بنو اسرائیل کو وادی تیہ میں کوئی فوجی خدمت انجام نہیں دینی پڑتی تھی، ان کو بھوک اورپیاس کی شدت کا مقابلہ کرنا نہیں پڑتا تھا، ان کے لئے آسمان سے من و سلویٰ اترتا تھا، اورزمیں سے چشمے ابلتے تھے،تاہم وہ فوجی زندگی کے ابتدائی امتحان میں بھی پورے نہیں اترے، اور گھبرا کر بول اٹھے۔ لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا (بقرہ:۶۱) ہم ایک ہی کھانے پر قناعت نہیں کرسکتے ہمارے لئے خدا سے دعا کرو کہ زمین سے ترکاری ،کھیرے،گیہوں،مسور اورپیاز اگائے۔ لیکن صحابہ کرام کو ایک غزوہ میں فی کس صرف ایک کھجور ملتی تھی جس کو وہ بچوں کی طرح چوس کے پانی پی لیتے تھے، درخت سےپتے جھاڑ لاتے تھے اوراس کو پانی میں بھگو کرکھالیتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الاطعمہ باب فی دواب البحر) ایک غزوہ میں سامان رسد ختم ہوگیا تو صحابہ کرام کھجور کی گھٹلیاں چوس چوس کر پانی پی لیتے تھے۔ (مسلم کتاب الایمان باب من لقی اللہ بالایمان وہو غیر شاک فیہ داخل الجنتہ وحرم علی النار) غزوہ احزاب میں سامان رسد اس قدر کم تھا کہ تمام صحابہ مٹی بھر جو اورسڑی ہوئی چربی پر بسر کرتے تھے۔ (بخاری غزوہ خندق) ایک غزوہ میں تمام صحابہ کے درمیان صرف ایک سواری تھی اس لئے پیدل چلتے چلتے تلووں میں سوراخ ہوگئے تھے ،پاؤں کے ناخن گر گر پڑے تھے، مجبوراً تمام صحابہ کو پاؤں میں چیتھڑے لپیٹنے پڑے، اسی مناسبت سے اس غزوہ کا نام ذات الرقاع پڑگیا جس کے معنی چیتھڑے کے ہیں۔ (مسلم کتاب اللجہاد باب غزوہ ذات الرقاع) (۴)صحابہ کرام کی فتوحات کا ایک سبب ان کا بے باکانہ اقدام تھا، چنانچہ صحابہ کرام نے مدین میں داخل ہوناچاہا تو بیچ میں دریا پڑتا تھا، لیکن اس سیلاب کو یہ دریا کیوں کر روک سکتا تھا؟ تمام صحابہ نے دریا میں گھوڑے ڈالدئے اوراس کو عبور کرکے شہر میں داخل ہونا چاہا،ایرانیوں نے اس منظر کو دیکھا تو کہا کہ" دیوان آمدند" اوریہ کہہ کر شہر کو خالی کردیا۔ (طبری،صفحہ:۲۴۴۱) (۵)فوجی نظام اخلاق کا اصلی عنصر صبر واستقلال ہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے جہاد کے ہر موقع پر صبرواستقلال کی تعلیم دی ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ (الانفال:۶۵) اے پیغمبر مسلمانوں کو جہاد کے لئے ابھارو اگر تم میں بیس شخص بھی صاحب استقلال ہوں تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اوراگر تم میں سو ہوں تو ہزار کافروں پر غالب ہوں گے کیونکہ وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ فیض تربیت نبویﷺ نے اس عنصر کو صحابہ کرام کے نظام اخلاق کا ایک لازمی جز بنادیا تھا، اللہ تعالی خود فرماتا ہے: "وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ" اور تنگی اورتکلیف میں نیز جنگ کے وقت صبر واستقلال کے خوگر ہوں،ایسے لوگ ہیں جو سچے(کہلانے کے مستحق)ہیں اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔ اس لئے سخت سے سخت فوجی مشکلات میں وہ ثابت قدم رہے اورآخر غالب آئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف پر چڑھائی کی تو وہاں کے لوگ قلعہ بند ہوگئے اورآپﷺ واپس پلٹ آئے، حضرت صخرؓ کمک لے کر پہونچے تو معلوم ہوا کہ آپ واپس تشریف لے گئے، لیکن انہوں نے قسم کھالی کہ جب تک قلعہ مسخر نہ ہوجائے گا وہ واپس نہ آئیں گے، چنانچہ انہوں نے محاصرہ کیا اور قلعہ مسخر ہوگیا۔ (ابوداؤد کتاب الخراج والامارۃ باب اقطاع الارضین) ایک بار رومیوں نے مسلمانوں کے مقابل میں ایک لشکر گراں جمع کیا ،حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے حضرت عمرؓ کو اس خطرے کی اطلاع دی تو انہوں نے لکھا کہ مسلمان بندے پر جب کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو اس کے بعد خدا اس کو اطمینان وسکون عطافرماتا ہے، ایک مشکل دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی، خدا وند تعالی قرآن پاک میں خود کہتا ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران:۲۰۰) مسلمانوں صبرکرو، باہم صبر کی تلقین کرو، استقلال اختیار کرو اورخدا سے ڈرو شائد تم کامیاب ہوجاؤ۔ (۶)اگر فوج میں ایک بددیانت سپاہی بھی شامل ہے تو وہ پوری فوج کی مادی اوراخلاقی طاقت کو بے اثر کرسکتا ہے، اس کو حرص و طمع ہر قسم کی منافقت پر آمادہ کرسکتی ہے، وہ ہر قسم کی نمک حرامی کرسکتا ہے، وہ درپردہ دشمن کا جاسوس بن سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چند پیسوں پر اپنے فوجی مقصد کو قربان کرسکتا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول ہے۔ ماظھرالقول فی قوم قط الا القی فی القوبھم الرعب (طبری،صفحہ۲۶۹۶) کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں خیانت پیدا ہو اور مرعوب نہ ہو جائے۔ لیکن صحابہ کرام نے قیصر و کسریٰ کے دربار کے سامان دیکھے ، دنیا نے ان کے آگے اپنا خرانہ اگل دیا، ان کے سامنے زر وجواہر کے انبار لگ گئے، تاہم ان میں کوئی چیز ان کی دیانت کو صدمہ نہ پہونچا سکی، ایران کی فتح کے بعد جب دربار خلافت میں کسریٰ کی مرصع تلوار اور زریں کمر بند آیا تو حضرت عمرؓ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ جس قوم نے ان چیزوں کو ہاتھ نہیں لگایا وہ ایک متدین قوم ہے۔ یہی دیانت تھی جس نے صحابہ کے سامنے فتوحات کے دروازے کھول دیئے تھے؛ چنانچہ جب اصطخر فتح ہوا، اورصحابہ کرام نے بلا کم وکاست مال غنیمت کو امیرالعسکر کے سامنے لاکر رکھ دیا تو اس نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا، جس میں کہا اسلام اوراہل اسلام کی تمام ترقیاں اسی وقت تک ہیں جب تک لوگ خیانت نہ کریں؛ لیکن جب بددیانتی شروع ہوگی تو نادید نی چیزیں دیکھنے میں آئیں گی اور بہت اس قدر کافی نہ ہوگا جتنا تھوڑا ہوتا ہے۔ (طبری،صفحہ۲۶۹۰) (۷)صحابہ کرام کے فتوحات کا ایک سبب ان کا مساویانہ طرز عمل تھا ،رومیوں اور ایرانیوں نے انسانوں کے جو مختلف طبقے قائم کردیئے تھے، اس کا ناگوار احساس خود رعایا کو ہوچکا تھا، اس لئے ان میں مدافعت کا وہ شریفانہ جذبہ نہیں پیدا ہوسکتا تھا جو خودار کان سلطنت کے دلوں میں موجود تھا،چنانچہ جب حضرت مغیرہؓ قید کرکے رستم کے دربار میں پیش کئے گئے تو وہ بے تکلف رستم کے برابر تخت پر جاکر بیٹھ گئے ایرانیوں کو یہ کیونکر گوارا ہوسکتا تھا؟ خدام بارگاہ چھپٹے اوران کو فوراً تخت سے اتاردیا ،اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم پہلے صرف تمہارے قصے سنتے تھے، لیکن آج مجھے تم سے زیادہ احمق کوئی قوم نظر نہیں آتی، ہم عرب لوگ باہم مساویانہ برتاؤ کرتے ہیں کوئی کسی کو غلام نہیں بناتا، میرا خیال تھا کہ تم لوگ ہماری طرح ایک دوسرے کے ساتھ سلوک کرتے ہوگے اس لئے یہ بہت اچھا ہوا کہ تم نے خود مجھے بتادیا کہ تم میں بعض لوگ بعض لوگوں کے خدا ہیں، اب تمہاری سلطنت قائم نہیں رہ سکتی، میں نے اس راز کے انکشاف کے لئے خود کوئی کوشش نہیں کی تم نے بلایا تو مجھے معلوم ہوا کہ اب تم لوگ مغلوب ہوگے کیونکہ اس طرز عمل سے کوئی ملک قائم نہیں رہ سکتا، اس آزادانہ تقریر کو سن کر طبقہ اسفلیٰ کے اصلی جذبات ابھر آئے اور سب کے سب ہم زبان ہو کر بول اٹھے کہ خدا کی قسم یہ عرب سچ کہتا ہے، دہقانوں نے کہا کہ اس نے ہمارے غلاموں کے دل کی بات کہہ دی۔ (طبری صفحہ:۲۲۷۴) اس کے برخلاف اسلامی فوج میں اصول مساوات سے ذرہ برابر تجاوز نہیں کیا جاسکتا تھا، جنگ ایران میں حضرت ابو عبیدہؓ سپہ سالار تھے ان کے سامنے چند ایرانی رئیسوں نے نہایت لذیذ کھانے پیش کئے تو انہوں نے پوچھا کیا تم نے اسی طرح کے کھانوں سے تمام فوج کی ضیافت کی ہے؟ بولے نہیں فرمایا ابو عبیدہ بدترین شخص ہوگا اگر ایک قوم کو ساتھ لیک آئے جو اس کے آگے اپنا خون بہائے اورپھر وہ اپنے آپ کو ان پر ترجیح دے ،وہ وہی کھائے گا جس کو سب لوگ کھاتے ہیں۔ (طبری ،صفحہ،۲۱۷۱) اس مساوات نے خود مخالفین کو یقین دلادیا تھا کہ اس قوم کے سامنے اب ان کے عرش کے پائے متزلزل ہوجائیں گے؛ چنانچہ جب رومیوں سے جنگ ہوئی تو قینقلاء نے ایک عربی جاسوس کو بھیجا کہ مسلمانوں کی اخلاقی حالت کا پتہ لگائے، اس نے پلٹ کر خبردی کہ یہ لوگ راتوں کو تو راہب رہتے ہیں اور دن کو شہسوار بن جاتے ہیں، اگر ان کے بادشاہ کا لڑکا بھی کوئی چیز چرائے تو اس کے ہاتھ کاٹ لیتے ہیں اوراگر زنا کرے تو اس کو سنگسار کرتے ہیں، یہ سن کر قینقلاء خود بول اٹھا کہ، اگریہ سچ ہے تو میرے لئے یہی بہتر ہے کہ میں پیوند خاک ہوجاؤں۔ (ایضا،۲۱۲۶) (۸)صحابہ کرام کی فتوحات کو ذمیوں کی ہمدردی اور اعانت نے بھی بہت کچھ ترقی دی،کیونکہ صحابہ کرام نے ذمیوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس نے ان کو اس قدر گرویدہ کرلیا کہ جب یرموک میں رومیوں سے معرکہ آرائی ہوئی اور صحابہ کرام نے اس خیال سے کہ اب وہ ذمیوں کی جان و مال کی حفاظت نہیں کرسکتے، جزیہ و خراج کی کل رقم ان کو واپس کردی، تو اہل حمص نے کہا کہ تمہاری عادلانہ حکومت ہم کو اپنی قدیم ظالمانہ حکومت سے زیادہ پسند ہے ،ہم تمہارے عامل کے ساتھ ہر قل کی فوج سے معرکہ آرا ہوں گے ،یہودیوں نے تورات کی قسم کھا کر کہا کہ جب تک ہم مغلوب نہ ہوجائیں ہر قل کا عامل حمص میں داخل نہیں ہوسکتا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۴۴) اس گروید گی کا نتیجہ یہ تھا کہ یہی لوگ تمام فوجی کام جن پر فوج کی کامیابی کا دار مدار ہے، انجام دیتے تھے، جاسوسی کرتے تھے، مینا بازار لگاتے تھے اور دشمن کی خبریں لاتے تھے، معجم البلدان میں ہے۔ وکان الدھا قین ناصحر المسلمین ودلوھم علی عورات فارس و اھدواھم واقامو الھم الا سراق (معجم البلدان،ذکر کوفہ) دہقانوں نے مسلمانوں کی خیر خواہی کی، ان کو ایرانیوں کی کمزوریاں بتائیں، ان کو راستہ دکھایا اوران کے لئے بازار لگائے۔ صحابہ کرام کے حریفوں کو اس طرز عمل نے خود یقین دلادیا تھا کہ یہ جو قوم معاہدہ کی اس قدر پابند ہو اس کی اخلاقی طاقت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ،چنانچہ جب مسلمانوں کی فوج سے ایک رومی قیدی بھاگ نکلا اور ہر قل نے اس سے مسلمانوں کے حالات پوچھے تو اس نے کہا کہ وہ لوگ دن کو شہسوار اوررات کو راہب ہوتے ہیں جس قوم سے معاہدہ کرتے ہیں اس سے ہر چیز بہ قمیت لے کر کھاتے ہیں اور جس شہر میں داخل ہوتے ہیں امن و امان کے ساتھ داخل ہوتے ہیں، ہر قل نے یہ سن کر کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو وہ میرے ان دونوں قدموں کے نیچے کی زمین تک کے مالک ہوجائیں گے۔ (طبری، صفحہ ۲۳۹۵) (۹)صحابہ کرام کی فتوحات کا ایک سبب ان کا اتحاد وایتلاف تھا، اللہ تعالی خود قرآن مجید میں فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (انفال:۶۲،۶۳) خدا وہ ہے جس نے اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی اوران میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا، اگر تم زمین کا کل خزانہ صرف کردیتے تب بھی ان کے دلوں کو نہ ملاتے، لیکن اللہ نے ان میں اتحاد پیدا کی اور اللہ غالب اور دانا ہے۔ اللہ تعالی کی نصر ت و تائید اوراس اتحاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی ہر مادی طاقت سے بے نیاز کردیا تھا،چنانچہ خود اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے۔ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (انفال:۶۴) اے پیغمبر تمہارے لئے اللہ اورمسلمان کافی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی صحابہ کرام نے اس اتحاد کو قائم رکھا اور جب اس میں کسی قسم کا ضعف پیدا ہوا تو اس کی اصلاح کی ایک بار حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی کہ قریش نے مختلف مجلسیں قائم کرلی ہیں اور باہم مل جل کر نہیں بیٹھتے تو ان کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا کہ تم لوگوں نے مختلف مجلسیں قائم کرلی ہیں اوراب یہ امتیاز قائم ہوگیا ہے کہ لوگ کہتے ہیں یہ فلاں کا دوست ہے اور وہ فلاں کا ہمنشین ہے، خدا کی قسم یہ تمہارے مذہب کو، تمہارے شرف کو اورتمہارے تعلقات کو بہت جلد برباد کردے گا اورگویا میں ان لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو اس کے بعد کہیں گے کہ یہ فلاں کی رائے ہے، اور اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے، ایک ساتھ نشست و برخاست کرو، کیونکہ وہ ہمیشہ تمہاری محبت کو قائم رکھے گا اوردشمن تمہارے اجتماع کو دیکھ کر مرعوب ہوں گے۔ (طبری،صفحۃ ۲۷۵۶) (۱۰)ان اسباب کے علاوہ اور دوسرے اخلاقی اوصاف مثلاً مذہبی پابندی،وفا، صدق، اصلاح اور مواسات وغیرہ نے بھی صحابہ کرام کی فتوحات کو بہت کچھ ترقی دی، صحابہ کرام کی مادی طاقت کا غیر قوموں پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا تھا، چنانچ عجمیوں نے جب ان کے تیر دیکھے تو نہایت حقارت آمیز لہجے میں کہا کہ: یہ تکلے ہیں؛ لیکن ان کی روحانیت عجمیوں کے بڑے بڑے جنزلوں کو مرعوب کردیتی تھی، ایک بار بمقام قادسیہ صبح کی اذان ہوئی تو تمام صحابہ اس تیزی سے نماز ادا کرنے کے لئے دوڑے کہ ایرانیوں کو دھوکا ہوا کہ حملہ کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن جب رستم نے دیکھا کہ وہ ایک روحانی آواز پر اس قدر جلد جمع ہوجاتے ہیں تو خود بخود بول اٹھا کہ عمرمیرا کلیجہ کھا گیا۔ (طبری،صفحہ ۲۲۹۱) اسی جنگ میں جب ایک ایرانی گرفتار ہوا اور اس نے مسلمانوں کے اخلاقی منظر کو دیکھا تو مسلمان ہوگیا اورکہا کہ جب تک تم میں یہ وفا، یہ صداقت ،یہ اصلاح ، یہ مواسات ہے تم لوگ شکست نہیں کھاسکتے۔ (طبری،صفحہ ۲۲۶۴) (۱۱)بعض اوقات صحابہ کرام کی ظاہری شان و شوکت ،کچھ کم موثر اور ان کا ظاھری جوش وخروش بھی کچھ کم مرعوب نہ تھا، حضرت حارث بن یزیدبکری کا بیان ہے کہ میں مدینہ آیا تو دیکھا کہ مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی ہے، سیاہ جھنڈیاں لہرا رہی ہیں، حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلوار لگائے ہوئے کھڑے ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا آپﷺ عمروبن العاصؓ کو ایک مہم پر روانہ فرما رہے ہیں۔ (ترمذی،تفسیر القرآن سورہ ذاریات) فتح مکہ کے زمانہ میں کفار کو اس جوش اوراس ظاہری شان و شوکت کا نہایت موثر اور مرعوب کن منظر نظر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار جان نثار شریک تھے اورآپ نے ہر قبیلے کے الگ الگ دستے بنائے تھے ،جب یہ پر جوش فوج روانہ ہوئی تو اس کی روانگی سے پہلے حضرت ابو سفیانؓ اسلام لاچکے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صحابہ کرام کے جوش سے مرعوب کرنا چاہا اورحضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ ان کو یہ پر اثر منظر دکھائیں، ابو سفیان کو انہوں نے ایک مقام پر روک لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے ساتھ یہ دستے تر تیب و نظام کے ساتھ روانہ ہوئے تو ہر دستہ ابوسفیان کے سامنے سے گذرا انہوں نے پہلے دستے کے متعلق حضرت عباسؓ سے سوال کیا کہ یہ کس قبیلے کے لوگ ہیں؟ بولے "غفار" بولے مجھے ان سے غرض نہیں ، اسی طرح جہینہ ، سعد بن ہذیم اور قبیلہ سلیم کے دستے گذرے توانہوں نے نام پوچھ کر کہا کہ مجھے ان سے کوئی واسطہ نہیں ،سب کے آخر میں ایک عظیم الشان دستہ گذرا جس کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہؓ تھے، ابوسفیان نے ان کا نام پوچھا تو حضرت عباسؓ نے کہا کہ یہ انصارہیں ، اخیر میں ایک چھوٹا سا دستہ گذرا جس کے علمبردار حضرت زبیرؓ بن عوام تھے اور خود شمع نبوت ان ہی پروانوں کے جھرمٹ میں تھی، آپ ﷺمقام حجون میں پہونچے تو آپ ﷺکا علم نصب کیا گیا اور صحابہ کرام اس جوش سے حملہ آور ہوئے کہ ابو سفیان بول اٹھے کہ آج قریش کا باغ اجڑگیا۔ صحابہ کرام جب کوئی فوجی خدمت انجام دیتے تو یہ جوش اور بھی تازہ ہوجاتا ، غزوہ ٔخندق کے زمانہ میں موسم نہایت سرد اور رسد کا سامان اس قدر کم تھا کہ: یوتون بملاء کفی من الشعیر فیصنع لھم باھالۃ سنخۃ توضع بین یدی القوم والقوم جیاع وھی بشعۃ فی الحلق ولھا ریح منتن۔ صحابہ کے پاس مٹھی بھر جو آتا اور سڑی ہوئی بدبو دار بد مزہ چربی کے ساتھ ملا کر پکایا جاتا اور اس گرسنہ قوم کے سامنے یہ بد مزہ اوربدبودار کھانا رکھ دیا جاتا۔ زمین اس قدر سخت تھی کہ بعض پتھروں کے توڑنے میں صحابہ کرام کی مجموعی طاقت نے جواب دے دیا اورخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی معجزانہ طاقت سے کام لینا پڑا؛ لیکن باایں ہمہ صحابہ کے جوش کا یہ حال تھا کہ نہایت بلند آہنگی کے ساتھ یہ رجز پڑھتے جاتے تھے۔ نحن الذین بایعوا محمدا ہم نے محمد کے ہاتھ پر جہاد کے لئے بیعت کی ہے علی الجھاد ما بقینا ابدا اس وقت تک کے لئے جب تک زندہ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ یہ رجز پڑھ کر اس جوش کو تازہ کرتے رہتے تھے: واللہ لو لا اللہ ما اھتدینا خدا کی قسم اگر خدا ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ولا تصدقنا ولا صلینا نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔ فانزلن سکینۃ علینا پس اے خدا ہم پر اپنا سکینہ نازل فرما وثبت الا قدام ان لا قینا اوراگر دشمن سے مقابلہ ہو تو ہم کو ثابت قدم رکھ ان الا ولی قد بغواعلینا ان لوگوں نے (کفارنے) ہمارے خلاف بغاوت کی ہے اذا ارادو افتنۃ ابینا جب وہ لوگ جنگ کے خواہاں ہوتے ہیں تو ہم ان سے ابا کرتے ہیں۔ جب اخیر مصرع پر پہونچتے تو آواز نہایت بلند ہوجاتی اور مکرر فرماتے، ابیناابینا (بخاری،غزوہ خندق) (۱۲)صحابہ کرام کو ان کی مستعدی اورسرگرمی نے بھی غزوات میں بہت کچھ کامیاب کیا اوران کو مختلف جنگی خطرات سے محفوظ رکھا۔ ایک بار آپ ﷺسفر میں تھے کفار نے ایک جاسوس کو بھیجا وہ آکر صحابہ کرام کے پاس بیٹھا اورچپکے سے نکل گیا، آپ نے حکم دیا کہ اس کو پکڑ کر قتل کرڈالو، حضرت اکوعؓ نہایت مستعد ،تیز رو اورسرگرم صحابی تھے،سب کے آگے نکل گئے اور اس کو قتل کرڈالا۔ ایک دوسرے سفر جہاد میں مسلمانوں کی فوجی حالت نہایت ابتر تھی اکثر لوگ پا پیادہ تھے، فوج میں بہت سے کمزور لوگ شامل تھے، اتفاق سے کفار کا ایک جاسوس آیا اورصحابہ کرام کی تمام فوجی کمزوریوں کو دیکھ بھال کر چلتا ہوا، قبیلہ اسلم کے ایک مستعد صحابی نے اس کا تعاقب کیا اوراس کو جالیا، حضرت سلمہ بن اکوعؓ بھی پیچھے پیچھے تھے، اب انہوں نے آگے بڑھ کر اس کے اونٹ کی مہار پکڑلی، اس کو زمین پر بٹھا دیا اور تلوار کھینچ کر اس کی گردن اڑادی۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الجاسوس المستامن) ایک بار عبدالرحمن بن عینیہ نے سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر چھاپہ مارا، حضرت سلمہؓ بن اکوع کو خبر ہوئی تو نہایت تیزی کے ساتھ پہلے مدینہ کا رخ کیا اورعرب کے طریقہ پر تین بار"یاصباحاہ" کا نعرہ مارا پھر پلٹ کر انکا تعاقب کیا، وہ اگرچہ تنہا تھے اور دشمن تیر پر تیر برساتے تھے اورتلوار پر تلوار چلاتے تھے ؛لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف تمام اونٹنیوں کو واپس لیا؛ بلکہ ڈاکو بھاگے اور سرعت اوربدحواسی کے ساتھ بھاگے کہ ۳۰ سے زیادہ نیز ے اور ۳۰ سے زیادہ چادریں بھی چھوڑتے گئے۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی السریہ ترو علی اہل العسکر) تعمیر مساجد مسجد قباء اورمسجد نبوی کی عالمگیر شہرت نے اگرچہ مدینہ منورہ اوراس کے آس پاس کی اور تمام مسجدوں کو گم نام کردیا ہے، تاہم تاریخ رجال اوراحادیث کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے مدینہ کے متصل ہر جگہ بہ کثرت مسجدیں تعمیر کی تھیں اوران میں باجماعت نماز ہوتی تھی، فتح الباری میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے۔ لق لبثنا بالمدینۃ قبل ان یتقدم علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسنین نعمر المساجد ونقیم الصلاۃ۔ (فتح الباری ،جلد۷،صفحہ۱۹۱) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے کئی سال پیشتر مدینہ میں مسجدیں تعمیر کرتے تھے، اوران میں نماز پڑھاکرتے تھے۔ دار قطنی میں ہے کہ مسجد نبوی کے متصل قبیلہ بنو عمر، بنو ساعدہ، بنو عبید، بنو سلمہ، بنو راتج بنو زریق، اسلم، جہینہ اوربنو سنان کی نو مسجدیں آباد تھیں ، جن میں حضرت بلالؓ کی اذان کی صدا پہونچنے کے ساتھ جماعت شروع ہوتی تھی، (دارقطنی کتاب الصلوٰۃ باب تکرار المساجد) اس روایت کا ایک راوی یعنی ابو لہیعہ اگرچہ ضعیف ہے ؛لیکن اورروایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، امام بخاری نے ایک مستقل باب باندھا ہے کہ مساجد کو اشخاص کی طرف منسوب کیا جاسکتاہے یا نہیں؟ اور اس باب میں جو حدیث لائے ہیں اس میں بہ تصریح مسجد بنو زریق کا نام لیا ہے، طبقات ابن سعد میں ہے۔ ولجھینۃ مسجد بالمدینۃ (طبقات ابن سعد،جلد ۴،صفحہ۶۷) مدینہ میں جہینہ کی ایک مسجد ہے۔ اصابہ میں ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد کی داغ بیل ڈالی تھی۔ (اصابہ تذکرہ حضرت ابو مریم جہنیؓ) صرف انہی قبائل کی خصوصیت نہیں؛ بلکہ کوئی قبیلہ، کوئی محلہ اور کوئی گاؤں مساجد سے خالی نہ تھا، مسند ابن حنبل میں ایک مدنی سے روایت ہے کہ میں نے مسجد بنو غفار میں نماز پڑھی، (مسند ابن حنبل،جلد۴،صفحہ۱۵۷)اور صحیح مسلم میں ہے کہ اس قبیلے کے امام خفاف بن ایماء ابن رخصہ غفاری تھے، ایک راوی کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبیلہ بنو عبدالاشہل کی مسجد میں دیکھا، (اسدالغابہ تذکرہ حضرت ثابت ابن الصامت انصاریؓ ) اسی کتاب میں حضرت عبداللہ بن عمر خطمیؓ کے حال میں لکھا ہے کہ وہ اپنے قبیلہ بنو خطمہ کی مسجد کے امام تھے، ابو سفیان عبدی کے حال میں صاحب اصابہ نے لکھا ہے کہ وہ بنو صباح کی مسجد کے موذن تھے، انصار کی جو آبادیاں تھیں، سب میں الگ الگ مسجدیں قائم تھیں، صحیح مسلم میں ہے کہ حوالی مدینہ میں انصار کے جو قصبے آباد تھے، عاشورہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں عام منادی کرادیتے تھے کہ جو لوگ روزہ دار ہیں اپنے روزے پورے کرلیں اور جو افطار کرچکے ہیں وہ بقیہ دن کا روزہ رکھیں، چنانچہ صحابہ اپنے بچوں کو لے کر مسجدوں میں نکل جاتے تھے،(صحیح مسلم کتاب الصیام باب من کل فی عاشورہ فلیکف بقیۃ یومہ) موطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ایک گاؤں میں آئے، جس میں قبیلہ بنو معاویہ آباد تھا اورپوچھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری مسجد میں کہاں نماز پڑھی تھی۔ (موطا کتاب الصلوٰۃ باب ماجاء فی الدعاء) قبائل اور آبادیوں کے علاوہ مدینہ کے راستوں میں بہ کثرت مسجدیں آباد تھیں، اور ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی، چنانچہ امام بخاری نے ایک خاص باب باندھا ہے جس کی سرخی یہ ہے (باب المساجد التی علی طرق المدینۃ والمواضع التی صلی فیھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم) اوراس کے تحت میں اس قسم کی متعدد مسجدوں کا نام لیا ہے۔ ان تمام مساجد میں بہت سی مسجدیں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒکے زمانے تک قائم تھیں؛ چنانچہ جن مساجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی تھی انہوں نے ان کو دوبارہ منقش پتھروں سے تعمیر کروایا، (فتح الباری ،جلد اول صفحہ:۴۷۱) وفاء الوفاء میں ان مسجدوں کا مفصل حال لکھا ہے، ہم اس موقع پر ان کی ایک مختصر فہرست درج کرتے ہیں۔ مسجد جمعہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں پہلا جمعہ ادا فرمایا تھا اس لئے وہ مسجد جمعہ کے نام سے موسوم ہوگئی۔ مسجد فضیح یہ مسجد قبا کے مشرقی جانب وادی کے کنارے ایک بلند مقام پر واقع تھی اس کا ایک نام مسجد الشمس بھی ہے جس کی وجہ تسمیہ بظاہر یہ ہے کہ بلند مقام پر ہونے سے سورج کی شعاعیں سب سے پہلے اسی مسجد پر پڑتی تھیں۔ مسجد بنو قریظہ بنو قریظہ کے مکانات کے کھنڈر اسی کے متصل تھے، حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ محاصرہ کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کی تیمار داری کے لئے جو مسجد متعین کردی تھی وہ بظاہر یہی مسجد تھی۔ مشربہ ام ابراہیم یہ ایک باغ کے اندر ایک بالاخانہ تھا اورحضرت ماریہ قبطیہؓ اسی میں رہتی تھیں، آپ نے چونکہ اس میں نماز ادا فرمائی تھی اس لئے اخیر میں اس نے مسجد کی صورت اخیتار کرلی ؛تاہم کوئی دیوار قائم نہیں کی گئی؛ بلکہ اِدھر اُدھر سے پتھر کھڑے کردیئے گئے۔ مسجد بنو ظفر یہ مسجد نقیع کے مشرقی جانب واقع تھی۔ مسجد بنو معاویہ اس مسجد کا نام مسجد اجابہ بھی ہے جس کی وجہ جیسا کہ صحیح مسلم کتاب الفتن میں ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا مقبول ہوئی تھی۔ مسجد فتح چونکہ غزوۂ احزاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں فتح کی دعائیں مانگی تھیں، اس لئے اس کا ایک نام مسجد احزاب بھی ہے جس کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے اس کے آس پاس اور تین مسجدیں تھیں جو اسی نام سے موسوم تھیں۔ مسجد قبلتین یہ مسجد وادی عقیق کے کنارے واقع تھی ،بعض لوگوں کے نزدیک چونکہ تحویل قبلہ اسی مسجد میں ہوئی تھی اس لئے اس کا یہ نام پڑگیا۔ مسجد السقیا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا ایک قطعہ زمین تھا جس میں ایک کنواں تھا جس کو سقیاء کہتے تھے، یہ مسجد اسی کنوئیں کے متصل آباد تھی۔ مسجد ذباب ذباب ایک پہاڑ کا نام ہے جس پر یہ مسجد واقع تھی۔ مسجد احد یہ مسجد کوہ احد کے متصل واقع تھی۔ ان مساجد کے علاوہ وفاء الوفاء میں اور مسجدوں کے نام بھی مذکور ہیں جن کو ہم اختصار کے خیال سے نظر انداز کرتے ہیں۔ مدینہ اور حوالی مدینہ کے علاوہ عرب کے جن ممالک میں اسلام پھیلا وہاں صحابہ کرام نے مسجدیں تعمیر کیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد صحابہ کو بت شکنی کے لئے طائف بھیجا تو حکم دیا کہ جہاں جہاں یہ بت نصب تھا وہیں مسجد تعمیر کی جائے تاکہ خدا وہاں پوجا جائے جہاں پوجا نہیں جاتا تھا۔ (اسد الغابہ تذکرہ تمیم بن غیلان بن سلمہ التقفی) آفتاب اسلام کی شعاعیں سواحل یمن پر پڑیں اور یہاں کا ایک قبیلہ عبدالقیس اسلام لایا تو اس قبیلہ نے جو مسجد تعمیر کی اس کو یہ شرف حاصل ہے کہ مسند نبوی ﷺ کے بعد جمعہ کی سب سے پہلی نماز اسی مسجد میں ادا کی گئی ۔ (بخاری کتاب الجمعہ فی القری والدن) صنعاء میں بھی کوہ ضبیل کے پاس ایک مسجد تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں حضرت دبربنؓ بجنس کلبی کو اشاعتِ اسلام کے لئے بھیجا تو فرمایا کہ اس مسجد میں جانا، (اصابہ تذکرہ حضرت دبر بن بجنس کلبیؓ) حضرت طلق بنؓ علی سے روایت ہے کہ جب ہماری قوم کا وفد آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہمارے ملک میں ایک گرجا ہے تو آپﷺ نے ان لوگوں کی درخواست پر اپنے وضو کا پانی عنایت فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ گرجے کو توڑ ڈالو اوراس پانی کو چھڑک کر وہاں مسجد بنالو؛ چنانچہ ان لوگوں نے واپس جاکر حسب ارشاد مسجد تعمیر کرلی ،ابوداؤد میں ایک روایت ہے۔ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا مرتا بالمساجدان نصنعھا فی دیارنا ناد نصلح صنعتھا ونطھرھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو حکم دیتے تھےکہ اپنے دیار میں عمدہ مسجدیں بنائیں اوران کو پاک وصاف رکھیں۔ "ابوداؤد ،کتاب الصلوٰۃ ،باب اتخاذالمساجد فی الدور" میں اس حدیث کو درج کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہ مسجدیں تھیں جو آپﷺ کے حکم سے صحابہ اپنے گھروں میں بنالیتے تھے؛ لیکن دیار کے لفظ سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ یہ حکم باہر کے مسلمانوں کے متعلق ہوگا، بہرحال اسلام جہاں جہاں پھیلا وہاں مسجدیں تعمیر ہوئیں، یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺکہیں فوج کشی کرتے تھے تو ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی کرتے تھے۔ اذا رایتم مسجدا اوسمعتم موذنافلا تقتلوااحدا۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین) اگر کہیں مسجد دیکھو یا اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی کو قتل نہ کرو۔ خلفاء راشدین کے زمانے میں فتوحات کے ساتھ ساتھ جا بجا اسلام اور مسلمان دونوں پھیل گئے اس لئے خلفاء راشدیںؓ نے بکثرت مسجدیں تعمیر کروائیں، حضرت ابوبکرؓ کا زمانہ تو نہایت مختصر اور پر آشوب تھا، لیکن حضرت عمرؓ کے عہد میں ہر شہر میں کم از کم ایک ورنہ بعض بعض شہروں میں متعدد مسجدیں تعمیر ہوئیں؛ چنانچہ انہوں نے شام کے تمام عمال کو لکھا کہ ہر ہر شہر میں ایک ایک مسجد تعمیر کی جائے، (حسن المحاضرہ جلد۲،صفحہ ۲۳ ذکر جوامع مصر، حسن المحاضرہ کی اصل عبارت یہ ہے،لما افتتح عمر البلدان كتب إلى أبي موسى وهو على البصرة يأمره أن يتخذ مسجد للجماعة، ويتخذ للقبائل مساجد، فإذا كان يوم الجمعة انضموا إلى مسجد الجماعة، وكتب إلى سعد بن أبي وقاص وهو على الكوفة بمثل ذلك، وكتب إلى عمرو بن العاص وهو على مصر بمثل ذلك، وكتب إلى أمراء أجناد الشام ألا ينبذوا إلى القرى وأن ينزلوا المدائن، وأن يتخذوا في كل مدينة مسجدا واحدا، ولا تتخذ القبائل مساجد؛ وكان الناس متمسكين بأمر عمر وعهده) کوفہ آباد کیا گیا تو حضرت عمرؓ کے حکم سے ہر قبیلہ کے لئے الگ الگ مسجدیں تعمیر ہوئیں؛ چنانچہ جب کوفہ والوں نے حضرت سعدؓ کی شکایت کی کہ وہ ٹھیک طورپر نماز نہیں پڑھاتے تو حضرت عمرؓ نے ایک ایک مسجد میں اس کی تحقیقات کروائی،(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب وجواب القرآۃ لامام فی الصلوٰۃ کلہانی الحضر والسفر) اسی طرح بصرہ کی آبادی کے ساتھ ہر قبیلے کے لئے الگ الگ مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ (حسن المحاضرہ ،جلد۲،صفحہ۱۳۳،ذکر جوامع مصر) عراق فتح ہوا تو ہر جگہ مسجدیں تعمیر کی گئیں، سب سے پہلے حضرت سعدؓ نے مدائن میں جامع مسجد تعمیر کروائی ،پھر حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے اس کی عمارت کو اوروسیع و مستحکم کیا، اس کے بعد بہ ترتیب کوفہ اورابنار کی مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ (فتوح البلدان،صفحہ ،۲۹۸) حضرت عتبہ بن فرقدؓ موصل کے گورنر مقرر ہوئے تو انہوں نے ایک مسجد تعمیر کروائی، (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عتبہ بن فرقدؓ) حضرت عمرؓ نے ان کو معزول کرکے حضرت ہر ثمہ بنؓ عرفجۃ الیارقی کو وہاں کا والی مقرر کیا تو انہوں نے وہاں مسلمانوں کی ایک مستقل نوآبادی قائم کی اوران کے لئے ایک جامع مسجد تعمیر کروائی۔ (فتوح البلدان ،صفحہ ۳۴) حضرت سعید بن عامربن حذیمؓ جزیرہ کے والی مقرر ہوئے تو رقہ اوررہا کی مسجدیں تعمیر کرائیں، ان کے انتقال کے بعد حضرت عمیر بن سعدؓ ان کے قائم مقام ہوئے تو دیار ربیعہ اوردیار مضر میں متعدد مسجدیں تعمیر کرائیں۔ (فتوح البلدان،صفحہ۱۰۶) مصر فتح ہوا تو حضرت عمروبن العاصؓ نے وہاں نہایت عظیم الشان مسجد تعمیر کرائی اور تقریباً اسی صحابہ نے اس کا قبلہ سیدھا کیا، اس مسجد میں بخور بھی سلگا یا جاتا تھا۔ (حسن المحاضرہ ،صفحۃ ۵۸،جلد اول) شام میں لاذ قیہ فتح ہوا تو حضرت عبادہ بن صامتؓ کے حکم سے ایک جامع مسجد تیار ہوئی اور بعد کو اس کو اور توسیع دی گئی۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۳۹) حضرت عثمان بن العاصیؓ نے بحری حملہ کرکے توج کو فتح کیا تو وہاں عرب کی ایک نو آبادی قائم کی اوروہاں متعدد مسجدیں بنوائیں۔ (فتوح البلدان،صفحہ۳۹۴) حضرت عمرؓ نے جدید مسجدوں کی تعمیر کے ساتھ مسجد نبوی اورمسجد حرام کی تجدید و توسیع بھی کی، ازواج مطہرات کے حجروں کے علاوہ مسجد نبوی کے آس پاس کے اور تمام مکانات نہایت گراں قیمت پر خریدلئے، حضرت عباسؓ اول اول اپنا مکان دینا نہیں چاہتے تھے؛لیکن اخیر میں انہوں نے بھی اس کو وقف کردیا، اب حضرت عمرؓ نے مسجد کو از سر نو اینٹ سے تعمیر کیا، ستون پہلے کھجور کے تھے، انہوں نے لکڑی کے ستون لگوائے،(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب فی بناء المساجد) مسجد کا طول پہلے ،۱۰۰، گز تھا انہوں نے ،۱۴۰ گز کردیا عرض میں بھی ۲۰ گز کا اضافہ ہوا۔ تجدید عمارت کے ساتھ حضرت عمرؓ نے مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ایک چبوترہ بھی بنوایا کہ جو لوگ شور و شغب کرنا یا اشعار و غیرہ پڑھنا چاہیں وہیں جاکر پڑھیں۔ (موطا کتاب الصلوٰۃ العمل فی جامع الصلوٰۃ) ۱۷ھ میں حرم کی عمارت کو بھی بہت کچھ وسعت دی ،جن لوگوں نے بالکل خانہ کعبہ کے متصل مکانات بنوالئے تھے، حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ کعبہ خدا کا گھر ہے اور گھر کے لئے صحن چاہئے؛ لیکن تم نے الٹے کعبہ ہی کو دبا لیا ہے، اس نے تم کونہیں دبایا ہے؛ چنانچہ اس غرض سے تمام مکانات منہدم کروادیئے ،پہلے خانہ کعبہ کی کوئی دیوار نہ تھی حضرت عمرؓ نے اس کے گرد چار دیواری بنوائی،(بخاری باب بنیان الکعبہ) اوراس پر چراغ جلوائے۔ (معجم البلدان ذکر مسجد الحرام) کعبہ پر اگرچہ غلاف ہمیشہ سے چڑھایا جاتا تھا،چنانچہ جاہلیت میں نطع اورمغافر کا غلاف چڑھاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی کپڑوں کے غلاف چڑھوائے؛لیکن حضرت عمرؓ نے قباطی کا غلاف تیار کروایا جو نہایت عمدہ مصری کپڑا ہوتا ہے۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۵۴) حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں بہ کثرت نو آبادیاں قائم ہوئیں اور بہ کثرت مسجدیں تعمیر ہوئیں، انہوں نے حضرت امیر معاویہؓ کو غزوہ بحریہ کی اجازت دی تو ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا کہ متعینہ فوج کے علاوہ تمام سواحل پر جدید فوجی آدمی آباد کرائے جائیں ،ان کو جاگیریں اور جلا وطن شدہ لوگوں کے مکانات دیئے جائیں، مسجدیں تعمیر کرائی جائیں اور ان کے زمانے سے پیشتر جو مسجدیں تعمیر ہوچکی ہیں ان کوو سعت دی جائے۔ (فتوح البلدان،صفحہ:۱۳۵) حضرت عثمان ؓ نے مسجد نبوی اورحرم محترم کو بھی بہت کچھ وسعت دی، پہلے پہل جب انہوں نے توسیع مسجد نبوی کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اگرچہ مخالفت کی اور قدیم ہیٔت کو بدلنا پسند نہیں کیا، (صحیح مسلم باب فضل بناء المساجد) لیکن بالآخر سب لوگ راضی ہوگئے اور اب حضرت عثمان نے نہایت اہتمام کے ساتھ ربیع الاول ۲۹ھ میں تعمیر کا کام شروع کروایا اورپورے دس مہینے میں کام ختم ہوا، (خلاصۃ الوفاء ،صفحۃ ۱۳۴) حضرت عمرؓ کے زمانے تک دیوار کچی اینٹ کی تھی انہوں نے منقش پتھروں کی دیواریں قائم کیں اور اس پر چونے کی سفیدی کروائی حضرت عمرؓ نے لکڑی کے ستون لگوائے تھے، انہوں نے منقش پتھروں کے ستون قائم کروائے ،رسول اللہ ﷺ کے زمانے تک گویا چھپر کی چھت تھی انہوں نے ساکھو کی چھت بنوائی۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب فی بناء المساجد) حضرت عثمانؓ نے حرم محترم کی عمارت کو اور بھی وسعت دی ،ارد گرد کے تمام مکانات خرید کر گروادیئے اوران کی زمین کو حرم میں شامل کردیا، انہوں نے مسجد حرام میں یہ جدت کی کہ رواق بنوائے جن کو ان کے اولیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۵۳) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد میں اگرچہ بہت کم مسجدیں تعمیر ہوئیں؛ تاہم یہ سلسلہ بالکل منقطع نہیں ہوا، فتوح البلدان میں ہے کہ انہوں نے حضرت اشعث بن قیسؓ کو آذربائیجان کا والی مقرر کیا وہ آئے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ مسلمان ہوکر قرآن مجید پڑ چکے ہیں، انہوں نے ارد بیل ایک نیا شہر آباد کیا وہاں بہت سے عرب بسائے اورایک مسجد تعمیر کروائی،(فتوح البلدان،صفحہ۳۳۷) اس کے علاوہ ان کے عہد میں ہم کو اور کسی جدید مسجد کا نام نہیں ملتا۔ حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں بہ کثرت نو آبادیاں قائم ہوئیں اور نو آبادیوں کے ساتھ مساجد کا تعمیر ہونا لازمی تھا، انہوں نے جزیرہ قبرس کو فتح کیا تو وہاں ایک شہر آباد کرایا اوربارہ ہزار فوجی آدمی متعین کئے، جنہوں نے وہاں متعدد مسجدیں تعمیر کیں،(فتوح البلدان،صفحہ۱۶۰) ان کے عہد میں افریقہ فتح ہواتو عقبہ بن نافع فہری نے جو وہاں کے گورنر تھے وہاں مسلمانوں کی ایک ایک مستقل نو آبادی قائم کی بہت سے مکانات اورایک جامع مسجد بنوالی،(فتوح البلدان،صفحہ ۲۳۶) حضرت امیر معاویہ ؓ نے ان مسجدوں میں بھی تو سیع واضافہ کیا جوان سے پہلے تعمیر ہوچکی تھیں مثلاً انہوں نے زیاد کو بصرہ کا گورنر مقرر کیا تو اس نے وہاں کی مسجد کو نہایت وسعت دی اوراس کو اینٹ اورچونے سے بنوایا اورساکھو کی چھت بنوائی۔ (فتوح البلدان،صفحہ۲۵۵) حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں فن تعمیر میں بھی ایک جدید ترقی ہوئی یعنی حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ جوان کی جانب سے سجستان کے عامل تھے آئے تو اپنے ساتھ کابل سے چند غلام لائے جنہوں نے ان کے محل میں کابلی طرز کی ایک مسجد تعمیر کی، (فتوح ابلدان ،صفحہ ۴۰۴۰) مصر میں جو مسجدیں تعمیر ہوئی تھیں اب تک ان میں منارے نہیں تھے، حضرت سلمہ بن مخلد نے جو حضرت امیر معاویہؓ کی طرف سے مصر کے گورنر تھے، ۵۳ھ میں مساجد میں منارے بنوائے۔ (اصابہ تذکرہ سلمہ بن مخلد) انصاب حرم حرم کے حدود سے چونکہ بہت سے شرعی احکام متعلق ہیں، اس لیے اس کے ہرطرف پتھر کھڑے کردیئے گئے تھے، جن کو انصاب حرم کہتے تھے، ہر زمانے میں ان پتھروں کی تجدید ہوتی رہی، سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت تمیم بن اسیدؓ کو اس خدمت پر مامور کیا، (اسد الغابہ تذکرہ حضرت تمیم بن اسیدؓ) اس کے بعد حضرت عمرؓ نے اس کی تجدید کرائی۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت مخزمہ بن نوفلؓ) حضرت امیر معایہ ؓ کے زمانے میں پھر تجدید واصلاح کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے حضرت کرز بن علقمہؓ سے یہ کام لیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت کرذبن علقمہؓ)