انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محتملاتِ قرآنی میں حدیث کی ضرورت قرآن پاک میں جو امور مذکور ہیں ان میں بھی بہت سے ایسے مقامات بھی ہیں جہاں آیات قرآنی کئی کئی وجوہ کی محتمل ہیں، ان کی تعیین بھی بدون اس جزولازم کے کسی طرح قطعی واضح اورآسان نہیں اور اس پہلو پر بھی ہر مکتب خیال کی شہادت موجود ہے، سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: "إِنَّهُ سَيَأْتِى نَاسٌ يُجَادِلُونَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ، فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ"۔ (سنن الدارمی،باب التورع عن الجواب فیما،حدیث نمبر:۱۲۱) ترجمہ: بیشک تمہارے پاس کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جو قرآنی شبہات پیش کر کے تم سے جھگڑنے لگیں گے، ایسے وقت میں تم سنتوں سے تمسک کرنا؛ کیونکہ اصحاب سنن ہی کتاب اللہ کو زیادہ جانتے ہیں۔ قرآن کریم کی آیات جہاں کئی کئی وجوہ کی محتمل ہوں وہاں ان کا حل پائے بغیر ہم دین کی پوری سمجھ پا نہیں سکتے۔ شریف رضی حضرت علی المرتضیٰؓ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؓ نے جب حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو خوارج کے مناظرہ پر بھیجا تو نصیحت فرمائی کہ قرآن کریم سے براہ راست استدلال نہ کرنا۔ "ومن وصیۃ لہ علیہ السلام لعبداللہ بن عباس لما بعثہ لا احتجاج الی الخوارج لاتخاصمھم بالقران فان القران حمال ذووجوہ تقول ویقولون ولکن حاججھم بالسنۃ خانہم لن یجحدوا عنہا محیصا"۔ (نہج البلاغہ:۳/۱۵۰۰) جو لوگ اس ضرورت کو حدیث سے پورا کرنا نہیں چاہتے وہ اس ضرورت کا حل مرکز ملت اور قوم کی پنچایت تجویز کرتے ہیں،گویہ بات غلط ہے ؛لیکن اس میں بھی اس بات کا اقرار ہے کہ قرآن پاک کے ساتھ ایک جز و لازم کی بہرحال ضرورت باقی تھی، جسے وہ اب اس طرح پورا کررہے ہیں۔