انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ایام قریش عام عربوں کی طرح قریش بھی سخت جنگجو تھے،بات بات پر تلوار بن نکل آتی تھیں، ادنی ادنی باتوں پر قتل وغارت کا ہنگامہ برپا ہوجاتا تھا،ان کی مشہور لڑائیوں میں سے بعض یہ ہیں: یوم فجار اول یہ لڑائی قریش کنانہ اورقیس عیلان کے درمیان ہوئی،اس کی ابتدااس طرح ہوئی کہ ایک کنانی بنونضر(قیس عیلان) کے قبیلہ کے ایک شخص کا قرض دار تھا،مگر تنگدستی کی وجہ سے اس کو ادانہ کرسکتا تھا،نضری قرض خواہ ایک بندر کوبازار عکاظ میں لے کر آیا، اورکنانی کو ذلیل کرنے کے خیال سے کہا کہ اس بندر کو کنانی قرض دار کی رقم کے مساوی قیمت پر کون خریدتا ہے، اتفاق سے ایک کنانی ادھر سے گذررہا تھا،اس نے سن لیا اورغصہ میں بندر پر ایسی تلوار لگائی کہ وہیں ٹھنڈا ہوکر رہ گیا، نضری شخص نے بنو قیس سے فریاد کی اورکنانی نے اپنے قبیلہ سے مدد مانگی ،طرفین کے آدمی جمع ہوئے مگر جنگ کی نوبت نہیں آئی اورآپس میں صلح ہوگئی، یہ واقعہ متعدد صورتوں سے بیان کیا جاتا ہے،مگر نتیجہ سب کا صلح ہے۔ (ابن اثری :۱/۴۳۹) یوم فجار ثانی حرب فجار عرب کی سب سے بڑی اور مشہور جنگ ہے، جو عام فیل کے بیس سال بعد ہوئی، اس کا واقعہ یہ ہے کہ براض قبیلہ کنانہ کا ایک شخص تھا، اس کے قبیلہ والوں نے اس کو نکال دیا، یہ اپنے قبیلہ سے نکل کر نعمان بن منذر کے یہاں آیا، نعمان بن منذر تجارت پیشہ تھا اورہر سال کچھ نہ کچھ مال بازار عکاظ وغیرہ میں بغرض فروخت بھیجا کرتا تھا،عکاظ کے میلہ کا زمانہ آیا، تو براض نعمان کے یہاں موجود تھا، اتفاق سے عروہ رحال بھی وہیں موجود تھا، یہ شخص سلاطین اورامراء کے درباروں میں بہت آیا جایا کرتا تھا، نعمان نے کہا میں کچھ سامان عکاظ بھیجنا چاہتا ہوں ،تم میں سے کون شخص ذمہ داری لیتا ہے،عروہ اوربراض دونوں نے اس خدمت کے لیے اپنے کو پیش کیا اوراس مسابقت میں سخت کلامی کی نوبت آگئی؛ مگر چونکہ عروہ زیادہ تجربہ کارتھا،اس لیے نعمان نے یہ خدمت اسی کے سپرد کی جب عروہ مال لے کر نکلا، تو براض بھی بدلہ لینے کے لیے اس کے پیچھے ہولیا اورموقعہ پاکر اس کو قتل کرکے سامان پر قبضہ کرلیا،جب عروہ کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو قبیلہ قیس کے کچھ لوگ براض سے بدلہ لینے کو نکلے،مگر براض نے ان کو بھی دھوکے سے قتل کردیا اورمکہ کی طرف روانہ ہوگیا اورامیہ بن حرب سے کہلادیا کہ میں نے عروہ کو قتل کیا ہے،بنو قیس اس کا بدلہ ضرور لیں گے اس لیے پہلے سے تیار رہنا چاہئے ،امیہ کو یہ پیام عکاظ میں ملا، اس نے تمام روسائے قریش کو خبر کردی اورپھر باہمی مشورہ سے عامر بن مالک سرداربنوقیس کے پاس ایک وفد مصالحت بھیجا، ابھی طرفین میں صلح کی گفت شنید ہو ہی رہی تھی کہ قریش کے کچھ لوگوں کو یہ غلط خبر ملی کہ قریش بنو قیس میں جنگ ہوا چاہتی ہے، قریش یہ سن کہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے،عامر بن مالک کو جب قریش کی روانگی کی خبر ہوئی تو سمجھا کہ قریش نے دھوکا دیا، اس لیے ایک جمعیت لے کر قریش کا تعاقب کیا، مکہ کے قریب مقابلہ ہوا، قریش کے پاؤں اکھڑنےہی کو تھے کہ بڑھ کر حرم میں داخل ہوگئے اوربنو قیس واپس ہوگئے، مگریہ کہتے ہوئے گئے کہ آئندہ سال عکاظ میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہوگا،چنانچہ سال بھر میں دونوں نے پھر تیاری کی اورحسب وعدہ عکاظ میں سخت مقابلہ ہوا، ابتداءً قریش پسپا ہو رہے تھے،لیکن ان کے عزم وثبات نے جنگ کا رخ بدل دیا اوربنو قیس نے سخت ہزیمت اٹھائی، آخر میں اس شرط پر صلح ہوگئی کہ طرفین کے مقتولین شمار کیے جائیں ،جن کے زیادہ ہوں ،بقدر زیادتی دوسرا اس کے دیت ادا کرے،اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے اورآپ کا سن مبارک بیس سال کا تھا۔ (ابن اثیر :۱/۴۴،۴۴۴) واقعہ فیل اصحاب فیل کا واقعہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے چالیس سال قبل ہوا،اس موقع پر بھی بڑی ہولناک جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی، اس کا واقعہ یہ ہے کہ یمن کے عیسائی حبشی بادشاہ ابرہہ اشرم نے یمن میں ایک عظیم الشان کنیسہ تیار کرایا اور نجاشی اورقیصر روم کو لکھا کہ میں نے ایک بے مثل کنیسہ تعمیر کرایا ہے اورمیں چاہتاہوں کہ خانۂ کعبہ کے حجاج کو اس طرف پھیرلوں،عربوں نے سنا تو بہت برافروختہ ہوئے اوراسی حالت غضب میں ایک کنانی نے کنیسہ میں نجاست ڈال دی، ابرہہ کو اس حرکت کی خبر ہوئی تو اس کے بدلہ میں خانۂ کعبہ کو منہدم کرنے کے لیے چلا، مکہ کے پاس پہونچ کر لوٹ مارشروع کردی،قریش اورکنانہ کو معلوم ہوا تو مقابلہ کا ارادہ کیا،مگر پھر مشورہ سے طے ہوا کہ چند قریش ابرہہ کی ٹڈی دل فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اس لیے خاموش ہورہے،مکہ کے سرداراس وقت عبد المطلب تھے اس لیے ابرہہ نے ان کے پاس کہلا بھیجا کہ ہم صرف خانۂ کعبہ کو ڈھانے کے ارادہ سے آئے ہیں، اگر تم اس میں کسی قسم کا تعرض نہ کرو تو خواہ مخواہ ہم کو تم سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے،عبدالمطلب خود گئے اور جاکر کہا کہ ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہارا مقابلہ کرسکیں، خدا خود اپنے گھر کا محافظ ہے، اگر اس کو اپنی حرمت کا پاس ہوگا تو خود ہی بچالے گا،چنانچہ اس گفتگو کے بعد عبدالمطلب واپس آئے اورقریش کہ محفوظ مقامات میں بھیج دیا اور خود مع چند قریش کے خانہ کعبہ کی زنجیر پکڑ کر نہایت رقت انگیز دعائیں مانگیں اور چلے گئے، جب ابرہہ نے حملہ کیا،تواللہ نے اپنے گھر کو اس کے شر سے بچالیا،(سیرۃ ابن ہشام،:۳۰ تا ۳۵)اور اس کی فوج پر آفت آئی، سپاہیوں میں چیچک کی بیماری پھیلی اوراللہ تعالی نے ان پرپرندوں کا جھنڈ بھیجا۔ ایک جنگ قریش ،کنانہ،خزاعہ اورقضاعہ میں تولیت حرم کے بارہ میں دو لڑائیاں ہوئیں، تفصیل یہ ہے کہ قصی جب مکہ میں آیا،تو حرم کے متولی بنوصوفہ تھے، قصی چند کنانی اورقضاعی اشخاص کے ساتھ عقبہ گیا اوربنو صوفہ سے کہاکہ تولیت حرم کے ہم تم سے زیادہ حقدار ہیں مگر انہوں نے انکار کردیا، جس پر فریقین میں جنگ ہوئی اوربنو صوفہ نے شکست کھائی،بنوخزاعہ نے جب یہ دیکھا تو ان کو یقین ہوگیا کہ قصی عنقریب صوفہ کی طرح ان کے اختیارات بھی سلب کرکے ان کو حرم سے الگ کردے گا، اس لیے بنو بکر کو لے کر قصی سے علیحدہ ہوگئے اورچاہا کہ لڑکر قصی کو الگ کردیں،قریش کے معاون قضاعہ اورکنانہ تھے، غرضکہ دونوں میں سخت جنگ ہوئی، فریقین کے ہزاروں آدمی کام آئے، جب دونوں خوب لڑکر تھک گئے،تو معمربن عوف کنانی کو حکم بنایا اس نے فیصلہ کیا کہ متولی قصی کو تسلیم کیا جائے اوروہ اپنے مقتولین کا معاوضہ نہ لے اوربنو بکر وخزاعہ کے مقتولین کی دیت ادا کرے، اس پر طرفین راضی ہوگئے۔ (طبری : ۱۰۹۶تا ٍ۱۰۹۷) یوم ذات نکیف چونکہ قصی بنو بکر کو خانہ کعبہ کی تولیت سے بیدخل کرکے خود متولی ہوگیا تھا، اس لیے قبیلہ بنو بکر میں قریش کے خلاف ہمیشہ رشک ورقابت کی آگ سلگتی رہی،مگر کوئی موقعہ نہ ملا ،آخر کار عبدالمطلب کے زمانہ میں دفعۃ یہ آگ پھڑک گئی ، چنانچہ انہوں نے ارادہ کرلیا کہ کسی نہ کسی طرح لڑبھڑ کر قریش کو حرم سے نکال دیں اورجنگ کی تیاریاں شروع کردیں، ادھر قریش بھی مقابلہ کے لیے آمادہ ہوگئے، عبدالمطلب نے بنوہوں، بنوحارث، اوربنو مصطلق کو جمع کرلیا اورذات نکیف میں دونوں کا مقابلہ ہوا بنو بکربری طرح مغلوب ہوئے اور ان کے بہت سے آدمی مارے گئے۔ (ابن اثری : ا/۴۱) خانہ کعبہ کی مرمت خانہ کعبہ کی مرمت کے موقعہ پر بھی ایک خونریز جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی، اس کا واقعہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی عمارت امتدادِ زمانہ سے بہت کمزور ہوگئی تھی،دیواریں پست تھیں،چھت گرگئی تھی، اس لیے قریش نے اس کو منہدم کرکے ازسر نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اور اس قدر اہتمام کیا تھا کہ ناجائز مال سے ایک جبہ بھی نہیں لگایا،جب دیواریں اس قدر بلند ہوگئیں کہ حجر اسود نسب کیا جائے تو قبائل قریش میں سخت اختلاف ہوا کہ اس کا شرف کس کو حاصل ہو، یہ اختلاف اس حد تک بڑھ گیا کہ بنو عبددار اور بنو عدی نے موت کا حلف لے لیا، چاردن اسی کشمکش میں گذرے،آخر میں یہ طے پایا کہ صبح سویرے جو شخص سب سے پہلے مسجد میں داخل ہو، وہ حکم مانا جائے، حسن اتفاق سے دوسرے دن سب سے پہلے آنحضرت ﷺ داخل ہوئے،سب نے باتفاق آپ کو حکم مان لیا، ابھی تک آنحضرت ﷺ اس سے بے خبر تھے،آپ کو اطلاع دی گئی، تو آپ نے رفعِ شرکی بہترین صورت یہ نکالی کہ ایک چادر پھیلا کر حجر اسود کو اس میں رکھ دیا اور فرمایا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک شخص چادر کا ایک ایک کونہ پکڑ کر اٹھائے ، غرضکہ اس عاقلانہ تدبیر سے یہ فتنہ عظیم رک گیا۔ (سیرۃ ابن ہشام) قریش کی سیاسی خود مختاری مکہ چونکہ حجاز میں تھا، اس لیے وہ عرب کے دوسرے صوبوں کی بہ نسبت زیادہ سیاسی اہمیت رکھتا تھااور اہمیت کی وجہ سے قدرۃ آس پاس کے حکمرانوں کی نظریں اس طرف اٹھتی تھیں، چنانچہ عجمی سلطنتوں میں روم اورایران نے اورعربوں میں حمیری اورحبشی حکومتوں نے بارہا حجاز کو لینا چاہا، مگر ہمیشہ ناکام رہیں، یہاں تک کہ بعض محققین نے مکہ کی وجہ تسمیہ یہ بتائی ہے کہ مکہ "تبکک سے" مشتق ہے جس کے معنی میں نخوت اورغرور توڑنا اورسرکشوں کی گردن جھکانا، چونکہ مکہ کی تسخیر میں بڑے بڑے جیابرہ کی گردنیں جھک جاتی تھیں، اس لیے اس کو مکہ کہنے لگے،(معجم البلدان :۸/ ۱۳۴) بہر حال مکہ اغیار کی دست برد سے ہمیشہ بچتارہا حتی کہ وہاں خود عربوں کی حکومت بھی نہ قائم ہوسکی، اسی آزادی کا یہ نتیجہ تھا،کہ مکہ کے آس پاس بسنے والے قبائل میں کوئی باقاعدہ نظام حکومت قائم نہ تھا،بلکہ عام غیر متمدن اقوام کی طرح ایک سردار کی ماتحتی میں زندگی بسر کرتے تھے، خاص مکہ میں جہاں بہت کچھ تمدن موجود تھا،کوئی نظام اجتماعی نہ تھا، البتہ ان کا ایک مشترک مرکز خانہ کعبہ تھا، جس کے گرد قبائل جمع ہوسکتے تھےچنانچہ آئندہ چل کر ان منتشر قبائل نے جو کچھ بھی حکومت کی شکل اختیار کی اس کا دارومدار اسی خانہ کعبہ پر تھا،قبائل کے آزاد پسند طبائع اگرچہ کسی کے تابع فرمان ہونا عار سمجھتے تھے، تاہم متولی کعبہ کا وقار ان کی نگاہوں میں بحیثیت مذہبی پیشوا کے ضرور تھا۔ قصی کا ظہور اورقریش کا اجتماع وحشت اورتمدن کی یہی طبعی عمر ہوتی ہے جس کو ختم کر کے تمدن تباہ ہوتاہے اوروحشت تمدن کی شکل اختیارکرتی ہے،چنانچہ قریش کی بداوت کا دور ختم ہوا اور تمدن کی بنیاد پڑی،اگرچہ شہر مکہ کے قریش ضرور کچھ متمدن تھے،لیکن عام طور پر ان میں بدویت ہی کا دور تھا، لیکن فہر کی پانچویں پشت میں کلاب بن مرہ کی پشت میں قصی نامی ایک مدبر پیدا ہوا جس نے قریش کی کایا پلٹ دی ،قصی ابھی بچہ ہی تھا کہ باپ کا سایہ سرسے اٹھ گیا،ماں نے قبیلہ بنی عذرہ میں شادی کرلی،قصی کی بھی نشو ونماوہیں ہوئی، جوان ہوا تو غیور طبیعت نے اجنبیوں میں رہنا گوارانہ کیا، ماں کی زبانی اپنی خاندانی وجاہت وعظمت کا حال معلوم کرکے فورا مکہ کا رخ کیا،دادہیال والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا، اس وقت حرم کی ولایت حلیل بن حبشہ خزاعی کے ہاتھ میں تھی قصی نے حلیل کی لڑکی سے شادی کرلی، جب حلیل مرگیا،توقصی کو خیال ہوا کہ قریش کے ہوتے بنوخزاعہ کو ولایت حرم کا کیا حق ہے، چنانچہ اس نے قریش وکنانہ کو آمادہ کرکے بنو خزاعہ کو لڑکر حرم سے نکال دیا، چونکہ قصی سے زیادہ خدمت حرم کا اہل و مستحق کوئی دوسرا نہ تھا اس لیے یہ معزز عہدہ اسی کے سپرد ہوا اس سے فراغت کے بعد قصی نے دیکھا کہ قریش کے تمام قبائل منتشر ہیں، کوئی پہاڑوں پر بسا ہے، کوئی خانہ بدوش ہے، نہ ان میں کوئی نظام ہے اور نہ اصول ،جس سے ان کی قوت بالکل ٹوٹی ہوئی ہے، چنانچہ اس نے سب کو پہاڑوں اورصحراؤں سے اکٹھا کرکے، ایک جگہ آباد کیا ،اسی لیے اس کو مجمع بھی کہتے ہیں اب اس اجتماعی زندگی کے لیے ایک ایسی طاقت کی ضرورت تھی ،جو اس کو منتظم صورت میں قائم رکھ سکے، اسی لیے قصی نے ایک چھوٹی سی جمہوری حکومت قائم کی جو باہمی مشورہ سے چلتی تھی اس دن سے قریش کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوا اور یہ پہلا دن تھا، جب کہ قریش کو حجاز میں سیاسی اہمیت حاصل ہوئی،تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ قصی پہلا شخص ہے، جس کی اطاعت تمام قبائل قریش نے قبول کی اوروہ خود اس سرزمین کا بادشاہ ہوا۔ قریش کا تمدن حکومت کی بنیاد ڈالنے کے بعد سب سے پہلا اور اہم کام یہ تھا کہ فوجی اور عدالتی نظام کو علیحدہ علیحدہ منظم صورت میں قائم کیا جائے،چنانچہ فوجی، عدالتی اورمذہبی نظام علیحدہ علیحدہ قائم کیے گئے اور جمہوریت کے اصول کو ہر شعبہ حکومت میں ملحوظ رکھا گیا، چنانچہ تمام شعبوں میں ہر قبیلہ کے اشخاص لیے گئے، ان میں بعض بعض عہدے بہت قدیم تھے، لیکن قصی نے تمام صیغوں کو ترقی دے کر بہت سے نئے عہدے بھی اضافہ کیے، ان صیغوں اورعہدوں کی تقسیم حسب ذیل تھی۔ نظام عسکری قریش نے چار فوجی عہدے قائم کیے تھے،عقاب،قبہ ،عنہ، سفارہ۔ نام عہدہ توضیح نام قبیلہ عقاب قبّہ اعنہّ سفارت حکومت اشناق نشانِ قومی کی علمداری فوجی کیمپ کا انتظام اوراس کی دیکھ بھال فوج کی سپہ سالاری قبائل اورحکومت کے درمیان مراسلت کرنا مقدمات کی سماعت اوران کا فیصلہ جرمانہ خوں بہا اورمالی تاواں کی نگرانی بنوامیہ بنومخزوم بنو مخزوم بنوعدی بنو سہم بنو تیم نظام مذہبی قریش چونکہ خانہ کعبہ کے متولی تھے، جہاں حج کے موقعہ پر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کا اجتماع ہوتا تھا، اس پر بڑی بڑی جائدادیں وقف تھیں، لاکھوں روپیہ نقد اورجنس کی صورت میں جمع ہوتا تھا، اس بنا پر اس کے لیے نہایت وسیع انتظام کی ضرورت تھی، چنانچہ قریش نے اس کا انتظام بہت وسیع پیمانہ پر کیا تھا اور اس سے زیادہ مکمل ان کا کوئی انتظام نہ تھا، اس لیے چھ عہدے تھے، سقایہ، عمارہ، سدانہ، اموال مجھرہ، سقایہ اوررفادہ حجاج کے متعلق تھے اور باقی خاص خانہ کعبہ کے متعلق۔ سقایہ :یعنی حج کے موسم میں لاکھوں انسانوں کو پانی پلانا، یہ اہم ذمہ داری بنو ہاشم کے سپرد تھی۔ رفادہ: یعنی حجاج کے خوردونوش کا انتظام،نادار حجاج کی مالی امداد اوران کے کھانے پینے کی خبر گیری، اس کار خیر کی بنیاد قصی نے ڈالی تھی، ایک دن اس نے تمام قریش کو جمع کرکے تقریر کی کہ برادران قریش حجاج بیت اللہ معلوم نہیں کتنی مصبیتیں اٹھا کر بڑی بڑی مسافتیں طے کرکے محض زیارت بیت اللہ کے خاطر آتے ہیں اوراللہ کے مہمان ہوتے ہیں اور تم اپنے آپ کو "جیراللہ" اللہ کے پڑوسی کہتے ہو،کیا تمہارا اس قدر بھی فرض نہیں کہ تم ان کی خاطر و مدارات کرو، مفلسوں کو کھانا کھلاؤ،ناداروں کی مالی امداد کرو اور ہر طرح ان کی آسائش کا سامان بہم پہنچاؤ،(طبری :۱۰۹۶) اس تقریر کا قریش پر بہت اثر ہوا اورہر شخص نے ایک سالانہ رقم مقررکردی جو حجاج پر صرف ہوتی تھی،(طبری :۱۰۹۶) اس کا انتظام بنو نوفل کے سپرد تھا۔ عمارہ: چونکہ قریش کی ساری عظمت خانہ کعبہ سے تھی اس لیے ان کو اس کی نگرانی اوردیکھ بھال میں خاص اہتمام تھا اوراس کے لیے علیحدہ علیحدہ عمارہ قائم کیا تھا، جس کے منتظم بنو ہاشم تھے۔ سدانہ: خانہ کعبہ کی کلید برداری یاد ربانی،چونکہ خانہ کعبہ ایک حجرے کی شکل کا تھا اوراس میں بیش قیمت سامان بھی رہتا تھا، اس لیے عموماً بندرہا کرتا تھا، صرف ضرورت کے اوقات میں کھولا جاتا تھا، اس دربانی کا شرف بنو عذار کو حاصل تھا۔ ایسار: خانۂ کعبہ میں کچھ تیررکھے ہوئے تھے، جن سے ضرورت کے وقت استخارہ کیا جاتا تھا، اس استخارہ کی خدمت بنو جمح کے سپرد تھی۔ اموال محجرہ: حجاج وزائرین کعبہ بتوں پر بڑے بڑے چڑھاوے چڑھایا کرتے اورجائدادیں وقف کرتے تھے، اس لیے اوقاف ومحاصل کے انتظام کے لیے مخصوص ایک عہدہ قائم تھا جس کو اموال محجرہ کہتے تھے، اس کی نگرانی بنو سہم کے متعلق تھی۔ ندوہ دارلندوہ ایک عمارت تھی جس کو قصی نے خانہ کعبہ کے بالمقابل تعمیر کیا تھا، اس میں اہم کاموں کے وقت قریش جمع ہوکر مشورہ وغیرہ کرتے تھے، بلکہ بہت سی تقریبات بھی یہیں انجام پذیر ہوتی تھیں ۔ مشورہ اگرچہ قریش کے تمام کام پبلک کے مشورہ سے انجام پاتے تھے، تاہم بنو اسد کا قبیلہ مشورہ کے لیے مخصوص تھا بغیر ان سے مشورہ کیے ہوئے کوئی کام نہیں انجام پاتا تھا۔ حلف فضول عام نظام عدالت کے علاوہ قریش نے انسداد مظالم کے لیے ایک خاص انجمن قائم کر رکھی تھی، جس کا محرک ایک واقعہ تھا وہ یہ کہ بنو زبید کا ایک شخص مکہ میں کچھ مال بغرض فروخت لایا، جس کو عاص ابن وائل نے خرید لیا مگر اس کی قیمت نہیں ادا کی وہ بیچارہ قبائل قریش میں فریاد لے کر گیا، مگر عاص ابن وائل کی وجاہت سے اس کی فریاد رسی کی کسی کو ہمت نہ ہوئی تھی ،ایک صبح کو جب قریش خانہ کعبہ کے گرد جمع تھے، تو اس تاجر نے چند دردناک اشعار پڑھ کر اپنی بیکسی ظاہر کی زبیر بن عبدالمطلب پر اس کا بہت اثر ہوا اوراس نے بنو ہاشم ،بنوزہرہ، بنو تمیم بن مرہ کو عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع کیا اورسبھوں نے حلف لے کر عہد کیا کہ جب تک بحر صوفہ میں رواں رہے گا اورجب تک حراء اورثبیر (حراء ثبیر پہاڑ کے نام ہیں)اپنی جگہ قائم رہیں گے، اس وقت تک ہم سب مظلوم کی اعانت کرنا اپنا فرض سمجھیں گے جب تک کہ ظالم سے مظلوم کا بدلہ نہ لے لیں۔ اس حلف کی بنیاد ایسے پاکیزہ مقاصد کے لیے رکھی گئی تھی کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : شھدت نی دارعبداللہ بن جدعان حلفا لودعیت بہ فی الاسلام لا جیب یعنی عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ،میں ایسے حلف میں شریک ہوا کہ اگر اس کی شرکت کی دعوت مجھ کو زمانہ اسلام میں بھی دی جائے تو قبول کرلوں۔