انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عقل کے ذریعہ قرآن مجید میں فرمایا گیا: "وَفِیْ الْأَرْضِ آیَاتٌ لِّلْمُوقِنِیْنَo وَفِیْ أَنفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَo"۔ (الذاریات:۲۰،۲۱) "اور یقین لانے والوں کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خودتمہاری ذات میں بھی تو کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا"۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) مطلب یہ ہے کہ انسان اگر بصیرت سے کام لے اور دیکھنا چاہے تو زمین میں ہماری ہستی اور ہماری قدرت کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں اور خود انسانوں کے وجود میں بھی ہماری کچھ نشانیاں موجود ہیں اور انسان غور کرے کہ ماں کے رحم میں اس کی یہ حسین وموزوں صورت کس نے بنائی؟ کس نے دیکھنے والی آنکھ بنائی؟ کس نے سننے والے کان بنائے؟ کس نے ذائقہ لینے والی زبان اور سونگھنے والی ناک بنائی؟ کس نے اس کی زبان کو گویائی دی؟ کس نے ماں کے پستانوں میں اس کے لیے دودھ کی نہرجاری کی؟ کس کے قبضہ میں اس کی زندگی اور موت ہے؟۔ انسان اگر خود اپنے بارے میں اس طرح غور کرے، تو ہرسوال کا جواب خود اس کی عقل یہی دے گی کہ یہ سب کچھ نظر نہ آنے والی ایک قدرت وحکمت والی ہستی نے کیا ہے اور وہی اللہ ہے۔ اور ایک جگہ بڑے عجیب سوالیہ پیرایہ میں فرمایا گیا: "قَالَتْ رُسُلُہُمْ أَفِیْ اللہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ"۔ (ابراہیم:۱۰) "کیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک ہے جوکہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والاہے"۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) یعنی جوشخص زمین کو دیکھتا ہے اور زمین پرجوکچھ ہوتا رہتا ہے اس کوبھی دیکھتا رہتا ہے اور اوپر جو آسمان اور ستارے وغیرہ نظرآتے ہیں ان کو بھی دیکھتا ہے اس کے لیے زمین وآسمان کے خالق کے بارے میں شک کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے؟۔ کائنات کو پیدا کرنے بنانے اور اس کے نشو ونما میں اس لطیف مگر مضبوط نظام پر غور کیجئے کہ کس طرح زندہ ساری کائنات ایک ہی مربوط نظام میں پروئی ہوئی ہے جس سے وہ سوئی کے ناکہ کے برابر ہٹ نہیں سکتی مثلا انسان رحم میں وہ نطفہ ڈالتا ہے پھر اس میں عجیب انداز سے آہستہ آہستہ سارے مرحلے طئے کرتا ہے، جس میں اللہ تعالی کے سوا کسی کا دخل نہیں ہوتا اور پھر ایک مکمل انسان بن کر باہر آجاتا ہے، اس کی پیدائش سے پہلے اور بعد کے حالات بچپن ،جوانی اور پڑھاپے میں عبرت ونصیحت کے بے شمار پہلو ہیں فطرت کے یہ اصول جوانسان وحیوان میں کام کرتے ہیں، درخت وغیرہ کے اندربھی رہتے ہیں اور اسی طرح بلند و بالا آسمان پر چکمتے ہوئے ستاروں میں بھی یہ سب ایک ہی ضابطہ کار کے پابند ہیں اور اس سے باہر نہیں جاسکتے، ایک ہی دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں ، جس سے وہ نکل نہیں سکتے اور اگر ایسا ہو جائے تو کائنات تباہ اور زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔