انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح مدائن یزد جرد مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلےہی اپنے اہل وعیال اورخزانوں کو مدائن سے روانہ کرچکا تھا تاہم قصرابیض (شاہی محل) اوردارلسلطنت میں مال و دولت کی کمی نہ تھی اسلامی لشکر کے دریا عبور کرلینے کا حال سُن کر یزد جرد بھی مدائن سے چل دیا، مسلمانوں نے شہر کی مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونا شروع کیا،خود باشندگان شہر نے شاہی محلات کی لوٹ مار مسلمانوں کے پہنچنے اورشہر میں داخل ہونے سے پہلے شروع کردی تھی،حضرت سعد قصر ابیض میں داخل ہوئے اوران کی زبان سے بے اختیار یہ آیتیں نکلیں:" كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ،وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ،وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ،كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ"حضرت سعدؓ نے وہیں ایک سلام سے آٹھ رکعتیں صلوۃ الفتح کی پڑھیں ،جمعہ کاروز تھا،قصرا بیض میں جس جگہ کسری کا تخت تھا،وہاں منبر رکھا گیا اوراسی قصر میں جمعہ ادا کیا گیا ،یہ پہلا جمعہ تھا جو دارالسلطنت ایران میں ادا کیا گیا، اس شاہی محل میں جس قدر تصاویر وتماثیل تھیں وہ علیٰ حالہ قائم رہیں نہ حضرت سعدؓ نے ان کو توڑ ا پھوڑا نہ وہاں سے جداکیا بوجہ نیت اقامت اس قصر میں نماز کو قصر بھی نہیں کیا گیا ،زہرہ بن حیوۃ کو ایرانیوں کے تعاقب میں نہروں کی جانب روانہ کیا گیا، مال غنیمت کے فراہم کرنے پر عمرو دبن مقرن کو اوراس کی تقسیم پر سلیمان بن ربیعہ باہلی کو مامور کیا گیا،مال غنیمت میں شہنشاہ ایران کی بہت سی نادر روزگار چیزیں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں چاندی سونے اور جواہرات کی مورتیں کسری کا شاہی لباس اس کا زرنگار تاج،اس کی زرہ اوراسی قسم کی بہت سی چیزیں مسلمانوں نے ان بھاگنے والوں سے چھینیں جوان چیزوں کو لے لے کر ایوان شاہی سے بھاگتے تھے،ایوان شاہی کے خزانے اورعجائب خانے میں خاقان چین ،قیصر روم داہرہ شاہِ ہند، بہرام گور،سیاوش ،نعمان بن منذر، کسریٰ، ہرمزفیروز کے خود زر ہیں،تلواریں اور خنجر دستیاب ہوئے، جو عجائب روزگار سمجھ کر شاہی خزانے میں محفوظ رکھے جاتے تھے اور ایرانی ان چیزوں پر فخر کیا کرتے تھے ان چیزوں کے فراہم ہوجانے پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت قعقاعؓ کو اجازت دی کہ تلواروں میں سے تلوار کو پسند کر لو،حضرت قعقاع نے یہ سُن کر قیصر روم ہر قل کی تلوار اٹھالی، پھر حضرت سعدؓ نے اپنی طرف سے بہرام گور کی زرہ بھی ان کو مرحمت فرمائی۔ حضرت سعدؓ نے علاوہ خمس کے جو چیزیں نادرات روزگار میں شمار ہوتی تھیں، وہ سب جمع کرکے دربار خلافت کو روانہ کردیں، انہیں نادرات روزگار میں کسریٰ کا فرش تھا جو بہار کے نام سے موسوم تھا،یہ فرش نوے گز لمبا اوردس گز چوڑا تھا،اس میں پھول ،پتیاں ،درخت نہریں،تصویریں،غنچے سب سونے چاندی،اورجواہرات سے بنائے گئے تھےشاہانِ فارس جب موسم بہار گزر جاتا تھا،تو اس کی یاد میں اس فرش پر بیٹھ کر شراب نوشی کیا کرتے تھے، جب یہ تمام چیزیں مدینہ منورہ میں پہنچیں ،تو لوگ دیکھ کر حیران ہوگئے، فاروق اعظمؓ نے تمام سامان واسباب کو لوگوں میں تقسیم کردیا،فرش کی نسبت عام طور پر لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اس کو تقسیم نہ کیا جائے،لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ نہیں اس کو بھی تقسیم کردیا جائے؛چنانچہ فاروق اعظمؓ نے حضرت علیؓ کی رائے سے اس فرش کو بھی کاٹ کاٹ کر لوگوں میں تقسیم کردیا،حضرت علیؓ کے حصے میں جو فرش کا ٹکڑا آیا تھا،وہ بہت نفیس ٹکڑوں میں نہ تھا تاہم انہوں نے اس کو تیس ہزار دینار کو فروخت کردیا۔ حضرت سعدؓ نے مدائن پر قابض ومتصرف ہوکر اپنے اوراہل لشکر کے اہل وعیال کو قادسیہ سے بلوایا،اورشاہی ایوانات لوگوں میں تقسیم کردئے،جن میں انہوں نے اپنے اہل وعیال کو ٹھہرایا۔ جب مدائن پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا،تویزدجرد مدائن سےبھاگ کر مقام حلوان میں مقیم ہوا، رستم بن فرخ زاد کے بھائی خرذادبن فرخ زاد نے مقام جلولاء میں لشکر اورسامان حرب بڑی مقدار میں قابلیت اورحوصلے کے ساتھ فراہم کرنا شروع کیا قلعہ اور شہر کے گرد خندق کھدوائی کو کھرو بنواکر مسلمانوں کی آمد اور حملے کے راستوں میں بچھوائے،یہ جنگی تیاری اورفوجی اجتماع اس قدر عظیم اوراہم تھا کہ ایک طرف ایرانیوں کی آنکھیں اس طرف لگی ہوئی تھیں تو دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اس کا خاص طور پر خیال تھا؛ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے یہ تمام کیفیت مدینہ منورہ میں حضرت فاروق اعظمؓ کے پاس لکھ کر بھیجی،دربار فاروقی سے حکم آیا، کہ ہاشم بن عتبہ بارہ ہزار فوج لے کر جلولاء کی مہم پر روانہ ہوں، مقدمۃ الجیش حضرت قعقاعؓ کو سپرد کیا جائے،معشر بن مالک کو میمنہ کی اورعمرو بن مالک کو میسرہ کی سرداری دی جائے اور ساقہ پر عمرو بن مرہ کو مقرر کیا جائے،اس حکم فاروقی کے موافق حضرت ہاشم مدائن سے روانہ ہوکر چوتھے روز جلولا پہنچے اورشہر کا محاصرہ کیا،یہ محاصرہ کئی مہینے جاری رہا،ایرانی قلعہ سے نکل نکل کر حملہ آور بھی ہوتے رہتے تھے۔ اس طرح مسلمانوں اورایرانیوں میں جلولاء کے محاصرہ کے ایام میں بہت سے معرکے ہوئے اور ہر معر کے میں ایرانی مغلوب ہوتے رہے جلولاء میں لاکھوں ایرانی جنگ جو موجود تھے مسلمانوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز نہ تھی،اپنی جمعیت کی کثرت اورسامان حرب کی فراوانی پر اعتماد کرکے ایرانیوں نے خوب جی توڑ کر مقابلہ کیا مگر آخر مسلمانوں کے مقابلہ میں ناکام ونامراد ثابت ہوئے ایک لاکھ ایرانی اس معرکے میں مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ تین کروڑ کا مال غنیمت مسلمانوں کےہاتھ آیا،یزد جرد نے حلوان میں جب جلولاء کے سقوط کا حال سُنا،تو وہ حلوان میں نہ ٹھہر سکا،وہاں سے بھاگ کر رے کی جانب روانہ ہوا، اورحلوان میں خسرو شنوم کو ایک مناسب جنگی جمعیت کے ساتھ چھوڑ گیا ،حضرت قعقاعؓ معرکہ جلولاء کے بعد مقام حلوان کی طرف روانہ ہوئے،خسروشنوم نے حلوان سے نکل کر مقابلہ کیا مگر شکست کھا کر بھاگا اورقعقاعؓ نے حلوان پر قبضہ کیا۔ حضرت سعدؓ نے ان فتوحات کے بعد مال غنیمت کا خمس اورفتح کی خوشخبری حضرت زیادؓ کے ہاتھ فاروق اعظمؓ کی خدمت میں بھیجی اورملکِ ایران میں آگے بڑھنے کی اجازت طلب کی، حضرت زیادؓ یہ مال غنیمت لے کر شام کے وقت مدینہ منورہ میں داخل ہوئے،فاروق اعظم ؓ نے فتوحات کا حال سُن کر لوگوں کو جمع کیا اورزیاد کو حکم دیا کہ اب ان سب کو وہ حالات جو مجھ کو سُنا چکے ہو سُناؤ؛چنانچہ حضرت زیادؓ نے نہایت طلاقت وفصاحت کے ساتھ مسلمانوں کی بہادریوں کے نقشے کھینچ کر سامعین کے سامنے رکھ دئے،پھر فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا کہ مالِ غنیمت کا انبار صحن مسجد میں اسی طرح موجود رہے،اُس کی چوکسی ونگرانی کا انتظام کردیا،اگلے دن فجر کے بعد آپ نے وہ تمام مال و اسباب لوگوں کو تقسیم فرمادیا، جواہرات کے انبار اورمالِ غنیمت کی پیش قیمتی وکثرت دیکھ کر فاروق اعظمؓ روپڑے، توحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیر المومنین یہ تو مقامِ شکر تھا، آپ روتے کیوں ہیں؟ حضرت فاروق اعظمؓ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خدائے تعالیٰ جس قوم کو دنیا کی دولت عطا فرماتا ہے،اُس میں رشک وحسد بھی پیدا ہوجاتا ہے اور اس لئے اُس قوم میں تفرقہ پڑجاتا ہے،پس مجھ کو اسی تصور نے اس وقت رُلادیا۔ اُس کے بعد فاروق اعظمؓ نے حضرت سعدؓ کے جواب میں اُن کے پاس حکم بھیجا کہ مسلمانوں نے پیہم صعوبات برداشت کی ہیں، ابھی چند روز اپنے لشکر کو آرام کرنے کا موقع دو۔ جنگ جلولاء ۱۶ھ میں واقع ہوئی یہاں تک حالات کے بیان کرنے میں دانستہ تاریخ مہینہ اورسال کا ذکر اس لئے ترک کردیا ہے کہ بعض واقعات کی تاریخ اور سنہ ایک مورخ کچھ بیان کرتا ہے اور دوسرا کچھ اندریں صورت واقعات کی ترتیب کا صحیح ہونا کافی سمجھا گیا عراق کے حالات ۱۶ ھ یعنی معرکہ جلولاء تک اسی ترتیب سے وقوع پذیر ہوئے جو اوپر مذکور ہوئے،اب ان حالات کو یہیں تک چھوڑ کر پھر ملک شام کی طرف متوجہ ہونا چاہئیے۔