انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دارالندوہ میں قبائلِ قریش کا جلسہ مشورہ قریش نے جب دیکھا کہ مسلمان ایک ایک کرکے سب نکل گئے اورمدینہ میں معقول تعداد مسلمانوں کی فراہم و مہیا ہوچکی تھی،جس کی طاقت اورخطرہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا تو ان کو اپنے مستقبل کی فکر پیدا ہوئی اور اُن کو نمایاں طور پر نظر آنے لگا کہ ہماری عزت اورحیات کی حفاظت اسی پر منحصرہے کہ اسلام کا استیصال کلی طور پر کردیا جائے،چونکہ مکہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے قریباً سب لوگ جاچکے تھے اورآپ تنہا رہ گئے تھے لہذا ان کے لئے اس فیصلہ پر پہنچنا بہت ہی آسان تھا کہ اس سے دین کے بانی کا خاتمہ کردینا نہایت ضروری ہے اوراس کام میں غفلت کرنا خطرے سے خالی نہیں،کیونکہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ سے نکل گئے اور مدینہ میں اپنی جماعت سے جاملے تو پھر اس نئے مذہب کے خطرہ کا مقابلہ کرنا بہت دشوار ہوگا، یہ خیالات قریش کے ہر شخص کی زبان سے اور ہر شخص کے دماغ میں پیدا ہوتے تھے،حتیٰ کہ مکہ کی فضا میں ان خونی خیالات نے تمام قبائل کا احاطہ کرلیا اوربالآخرماہِ صفر کی آخری تاریخوں میں نبوت کے چودہویں سال بنو ہاشم کے سوا تمام قبائل قریش کے بڑے بڑے سردار الندوہ میں اسی مسئلہ پر غور وخوض کے لئے جمع ہوئے، اس اجلاس میں قریش کے مشہور اورقابل تذکرہ سردار یہ تھے: ابو جہل بن ہشام(قبیلہ بنو مخزوم سے) بیسہ و بینہ پسراحجاج(قبیلہ بنو سہم) امیہ بن خلف (بنو جمح سے)ابو البختری بن ہشام، زمعہ بن اسود، حکیم بن حزام (قبیلہ بنو الاسد سے) نضر بن حارث (قبیلہ بنو عبدالدار سے) عقبہ،شیبہ پسران ربیعہ،ابو سفیان بن حرب(قبیلہ بنو اُمیہ سے) طیمہ بن عدی، جبیر بن مطعم،حارث بن عامر (قبیلہ بنو نوفل سے) ان قابلِ تذکرہ لوگوں کے علاوہ اوربھی بہت سے سردار اس مجلس میں شریک تھے،ایک بہت تجربہ کار بوڑھا شیطان نجد کا باشندہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوا ،یہی شیخ نجد اس اجلاس کا پریسیڈنٹ بھی تھا، اس پر تو سب کا اتفاق تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہی تمام خطرات پیش آئندہ کا مرکز ومنبع ہے لہذا زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے ایک شخص نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر زنجیروں سے جکڑدو اورایک کوٹھری میں بند کردو کہ وہیں جسمانی اذیت اوربھو ک پیاس کی تکلیف سے ہلاک ہوجائے،شیخ نجدی نے کہا یہ رائے اچھی نہیں کیونکہ اس کے رشتہ دار اورپیرو سُن کر اُس کے چھڑانے کی کوشش کریں گے اورفساد بڑھ جائے گا،دوسرے شخص نے اپنی رائے اس طرح بیان کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ سے جلا وطن کردو اورپھر مکہ میں داخل نہ ہونے دو، اس رائے کو بھی شیخ نجدی نے بہ دلائل رد کردیا۔غرض اسی طرح اس جلسہ میں تھوڑی دیر تک بھانت بھانت کے جانور بولتے رہے اور شیخ نجدی ہر ایک رائے کا غلط اور نا مناسب ہونا ثابت کرتا رہا،بالآخر ابو جہل بولا،میری رائے یہ ہے کہ ہر ایک قبیلہ سے ایک ایک شمشیر زن انتخاب کیا جائے،یہ تمام لوگ بیک وقت چاروں طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر کر ایک ساتھ وار کریں،اس طرح قتل کا فعل انجام پذیر ہوگا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خون تمام قبائل پر تقسیم ہوجائے گا،بنو ہاشم تمام قبائل قریش کا مقابلہ نہیں کرسکتے،لہذا وہ بجائے قصاص دیت قبول کریں گے اور دیت بڑی آسانی سے سب مل کر ادا کردیں گے،ابو جہل کی اس رائے کو شیخ نجدی نے بہت پسند کیا اور تمام جلسہ نے اتفاق رائے سے اس ریزولیوشن کو پاس کیا ادھر دارالندوہ میں یہ مشورہ ہورہا تھا،اُدھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائے تعالیٰ نے بذریعہ وحی کفار کے تمام مشوروں کی اطلاع دی اورہجرت کا حکم نازل فرمایا۔