انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عامر شعبیؒ آپ کا پورا نام یہ ہے ابو عمروعامر بن شراحبیل الشعبی الحمیری الکوفی، جلیل القدر تابعی ہیں، آپ کوفہ کے قاضی تھے، آپ نے حضرت ابوھریرہؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ،حضرت ابن عباسؓ، حضرت عائشہؓ اوردیگر صحابہ سے روایتیں نقل کی ہیں، شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے ۵۰۰ صحابہ کا زمانہ پایا ہے، حافظ عجلی کہتے ہیں آپ نے ۴۸ صحابہ سے حدیثیں سنی ہیں، سلیمان بن ابو مجلز فرماتے ہیں میں نے شعبی سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں دیکھا نہ سعید بن المسیب کو نہ طاؤس کو نہ عطاء کو نہ حسن کو اورنہ ہی ابن سیرین کو ابن سیرین ؒ فرماتے ہیں میں نے کوفہ، بصرہ اورحجاز والوں کی حدیثوں کا شعبی سے زیادہ جاننے والا کسی کو نہیں دیکھا (التفسیر المفسرون:۱۰۳) آپ اپنی اس تبحرِ علمی و وسعت فہمی کے باوجود کتاب اللہ میں اپنی رائے سے کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتے تھے؛ بلکہ اس معاملہ میں کچھ کہنے سے بہت احتیاط کرتے تھے، جب کسی آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں انہیں علماء سلف کا کوئی قول معلوم نہ ہوتا تو اس کا جواب نہ دیتے۔ (التفسیر والمفسرون:۱۰۳) ابن عطیہ کہتے ہیں اکابر علماء سلف مثلا سعید بن المسیب اورعامر شعبی تفسیر قرآن کو بڑی عظمت ووقعت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تفسیر معلوم ہونے اوراس فن میں ان کو سبقت حاصل ہونے کے باوجود محض ورع وتقوی اوراحتیاط کے پیش نظر وہ اس کے بیان کرنے سے گریز کرتے تھے۔ (مقدمہ تفسیر قرطبی:۲۷۱) شعبی خود فرماتے ہیں میں نے ہر آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیاہے؛ لیکن یہ کتاب اللہ کی تفسیر کا معاملہ ہے اس میں احتیاط کی ضرورت ہے (مقدمہ تفسیر ابن کثیر:۱۲۱) اسی طرح شعبی بعض مفسرین پر جرح کرتے تھےجو ان کی نظر میں اس منصب کے اہل نہیں تھے ،جیسے سدی اورابوصالح وغیرہ ابن جریری روایت کرتے ہیں کہ شعبی ابوصالح کے پاس سے گزرتے تھے تو انکا کان پکڑ کر موڑتے تھے اور کہتے تھے،تم قرآن کی تفسیر کرتے ہو حالانکہ تم قرآن پڑھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے، اسی طرح ابن جریر صالح بن مسلم سے مزید بیان کرتے ہیں کہ شعبی سدی کے پاس سے گزرے اوروہ تفسیر کررہےتھے، آپ نے فرمایا اگر تمہاری سرین پر ڈھول بجایا جائے یہ بہتر ہوگا تمہاری اس مجلس سے (مقدمہ تفسیر ابن جریر۱۹۱،۹۲) آپ کی ولادت ۲۰ھ میں ہوئی اور وفات ۱۱۹ ھ میں۔ (تاریخ تفسیر و مفسرین:۱۱۹) تفسیری اقوال تفسیر کے معاملہ میں آپ کے شدت احتیاط کے سبب آپ سے بہت کم تفسیری اقوال منقول ہیں، یہاں نمونہ کے طورپر آپ کے تین اقوال نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ (۱)اللہ تعالی کے اس قول"وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ"(بنی اسرائیل:۱۰۱) (اور ہم نے موسیؑ کو نوکھلی نشانیاں دی تھیں)کی تفسیر کرتے ہوئے شعبیؒ فرماتے ہیں اس سے مراد یہ بینات(کھلی نشانیاں) ہیں (۱)طوفان (۲)ٹڈی (۳)جوں (۴)مینڈک (۵)خون (۶)قحط سالی (۷)پھلوں کا کم ہونا (۸)عصاء(۹)موسی کا ہاتھ (تفسیر طبری:۵۶۵۱۷) (۲)شعبیؒ اللہ تعالی کے اس ارشاد : "وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ"۔ (یوسف:۱۸) یوسف علیہ السلام کے بھائی یوسف علیہ السلام کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگالائے۔ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ان لوگوں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اوراس کے خون سے یوسف علیہ السلام کی قمیص کو رنگ دیا (اوراسے اپنے باپ یعقوبؑ کے پاس لے آئے) جب یعقوبؑ نے اس قمیص کو صحیح سالم دیکھا کہ کہیں سے پھٹی نہ تھی تو جان گئے کہ ان لوگوں نے جھوٹ کہا ہے ( کہ یوسف کوبھیڑیا کھا گیا) چنانچہ انہوں نے ان سے کہا یہ بھیڑیا تو بڑا حلیم نکلا اسے قمیص،پر تورحم آگیا اورمیرے بیٹے پر رحم نہ آیا۔ (الدرالمنثور:۱۷۴) (۳)"وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ"۔ (المائدۃ:۵) اور اہل کتاب میں سے پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں جبکہ تم نے ان کو نکاح کی حفاظت میں لانے کے لیے ان کے مہر دے دیے ہوں ،نہ تو( بغیر نکاح کے)صرف ہوس نکالنا مقصود ہو اور نہ خفیہ آشنائی پیدا کرنا۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں: زنا کی دو قسمیں ہیں ایک "السفاح" اوریہ علانیہ کھلم کھلا زنا کرنے کو کہتے ہیں دوسرا"اتخاذ العدن" اوریہ چھپ کر زنا کرنے کو کہتے ہیں اوراللہ تعالی نے اس آیت میں ان دونوں قسموں کو حرام قرار دیدیا، اورعورت سے احصان کے طریقہ پر نفع اٹھانے کو جائز قرار دیدیا اوروہ شاوی ہے۔