انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
اجارہ اورکرایہ داری ملازمت اور پیشہ سے متعلق مختلف جائز وناجائز صورتیں فوٹوگرافی ومجسمہ سازی کا پیشہ ذی روح کا مجسمہ بنانا اسلام میں قطعاً حرام ہے اور جمہور علماء اور محدثین کے نزدیک یہی حکم ذی روح تصاویر کا بھی ہے، فوٹوگرافی بھی تصویر کشی ہی ہے نہ کہ عکس سازی، اس لیے ظاہر ہے کہ اس کی صنعت وحرفت اور خرید وفروخت؛ نیز اس کوذریعہ معاش بنانا ناجائز ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں اس کی صراحت موجود ہے؛ بالخصوص ایسی مورتیاں بنانایاایسی شخصیتوں کی تصویر کھینچنا جن کی پرستش کی جاتی ہو سنگین ترین گناہ ہے؛ اس لیے کہ یہ نہ صرف گناہ ہیں بلکہ اُمورِکفر میں براہِ راست تعاون کرنے کے مترادف ہے، صلیب باوجود اس کے کہ تصویر نہیں ہے؛ مگرچونکہ عیسائی اسے مذہبی شعار کے طور پراستعمال کرتے ہیں، اس لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوتوڑنے کا باضابطہ حکم دے دیا تھا؛ ہاں غیرذی روح جیسے عمارتوں، پھلوں، پھولوں وغیرہ کی تصویریں بالاتفاق جائز ہیں، اس لیے ان کے بنانے اور اس صنعت کوذریعہ معاش کی حیثیت سے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی جس روایت کا ذکر کیا گیا ہے اس میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۹۶) غیراسلامی حکومت میں کلیدی عہدے ایک اہم سوال یہ ہے کہ غیراسلامی مملکت کے کلیدی عہدوں، صدارت، وزارت، تحفظ ودفاع، عدلیہ اور رکنیتِ پارلیمنٹ پرفائز ہونا جائز ہوگا یانہیں؟ جب کہ ایسی ملازمتوں میں سیکولر اور غیرمذہبی ریاست ہونے کے لحاظ سے اسلامی قانون اور منصوص احکام کے خلاف فیصلوں میں شریک ہونا اور اس کی تنفیذ کا ذریعہ بننا پڑے گا؛ اُصولی طور پرظاہر ہےکہ یہ بات جائز نہ ہوگی، اس لیے کہ کسی صیغہ کی محض ملازمت سے بڑھ کریہ بات ہے کہ وہ کسی گنہگارانہ اور خلافِ شرع فیصلہ کا اور اس کے نفاذاور ترویج کا ذریعہ بنے اور عملاً حاکمیتِ الہٰی کا انکار کرے؛ مگراس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگرمسلمان ایسی ملازمتوں سے یکسر کنارہ کش اور سبکدوش ہوجائیں تواس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اسلام کے بچے کچے آثار اور مسلمانوں کے دینی، تہذیبی اور قومی مفادات کا تحفظ دشوار ہوجائے گا اور مسلمان اس مملکت میں سیاسی اعتبار سے مفلوج، تہذیبی اورمذہبی لحاظ سے مجبور اور اچھوت شہری بن کررہ جائیں گے اس لیے اس اہم ترمصلحت کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے ایسے عہدوں کوبھی قبول کیا جائے گا؛ بلکہ مصلحتا ان کے حصول کی کوشش کی جائے گی؛ البتہ دل میں اس غیراسلامی نظام کی طرف سے ایک چبھن، اس پربے اطمینانی اور اسلام کی بالاتری کا احساس تازہ رہنا چاہیے اور موجودہ حالات کوایک مجبوری کے طور پرگوارا کرتے رہنا چاہیے؛ اس کی نظیر حضرت یوسف علیہ السلام کا فرعون مصر کے خزانہ کی وزارت کی ذمہ داری قبول کرنا؛ بلکہ اس کے لیے اپنے آپ کوپیش کرنا ہے؛ فقہاء کے یہاں بھی ایسی نظیریں موجود ہیں، مثلاً زکوٰۃ کی تقسیم کا کام ایسی شخص کولے لینا باعثِ اجر قرار دیا گیا جوعدل کے ساتھ اس کام کوکرسکتا ہو؛ تاکہ ظلم سے تحفظ ہوسکے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۰۱) کمیشن ایجنٹ کمیشن ایجنٹ کا کاروبار ان دنوں کافی بڑھ گیا ہے، تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ ان کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں؛ لیکن بنیادی طور پردونوں کے کاروبار کئے جاتے ہیں، کبھی توایجنٹ ایک مال خرید کردوسرے کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے، مثلاً اینٹ پانچ سوروپئے لاری ہے، ایجنٹ آرڈر حاصل کرکے اینٹ لیتے ہیں اور اکثر اوقات بھٹی سے سیدھے اصل خریدار کے ہاں بھیج دیتے یں، خریدار کواپنے مرکز سے بھی اسی قیمت میں اینٹ ملتی ہے؛ لیکن ایجنٹوں کودس فی صد کم قیمت پرمل جاتی ہیں اور یہی اس کا نفع ہوتا ہے؛ اس سلسلہ میں یہ اُصول یاد رکھنا چاہیے کہ احناف کے ہاں کسی بھی شئے کا بیچنا اسی وقت جائز ہوگا جب کہ پہلے خود اس کا قبضہ ہوجائے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضہ کرنے سے پہلے ہی اس کوفروخت کرنے سے منع فرمایا ہے، منتقل ہونے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جانے والی اشیاء پہلے اپنی تحویل میں لے لی جائے، ایجنٹ کا اپنی لاری پراینٹ اُٹھوالینا گویا اپنی تحویل اور قبضہ میں لے لینا ہے، اس لیے اب اس کا نفع کے ساتھ فروخت کرنا درست ہے، ہاں اگروہ خریدار سے کہے کہ اپنی لاری لاکر اس مرکز سے اینٹ حاصل کرلو اور خود جاکر ان اینٹوں کوعلاحدہ نہ کرائے توچونکہ یہ قبضہ سے پہلے سامان فروخت کرنا ہے، اس لیے ایجنٹ کا یہ کاروبار درست نہ ہوگا اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایجنٹ صرف خریدار تیار کرتا ہے اور اس ترغیب کے عوض اس کوتاجر کچھ فی صد نفع دیتے ہیں، یہ صورت بھی جائز ہوگی اس لیے کہ یہ اس کی محنت اور ترغیب کی اُجرت ہے، جس کے جائز نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۰۸) تعمیری معاہدات میں اخراجات غیرمعمولی حد تک بڑھ جائیں آج کل تعمیری کاموں میں ایک فٹ کچھ رقم کے حساب سے معاملہ طے پاتا ہے، بعض اوقات تعمیری سامان کی قیمت میں اچانک غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ٹھیکہ دار پرخسارہ برداشت کرکے کام کی تکمیل واجب ہے یاوہ یک طرفہ طور پراُجرت میں اضافہ کرسکتا ہے؟ بازار میں مسلسل اُتار چڑھاؤ اور نشیب وفراز کی وجہ سے اِن دنوں یہ مسئلہ خصوصی اہمیت اختیار کرگیا ہے؛ اس سلسلہ میں فقہاء کی تصریحات پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بنیادی طور پر اجارہ ہے، اجارہ ایک لازمی معاملہ ہے جس سے عام حالات میں یک طرفہ طور پرسبکدوش نہیں ہوا جاسکتا؛ البتہ اعذار کی بناء پراجارہ کا معاملہ ختم کیا جاسکتا ہے، ہدایہ میں ہے: وَتُفْسَخُ الْإِجَارَةُ بِالْأَعْذَارِ۔ (الهداية شرح بداية المبتدي:۳/۲۵۰، شاملہ،الناشر المكتبة الإسلامية۔ہدایہ مع الفتح:۹/۱۴۷) اگرمعاہدہ کی تکمیل میں اتنا زیادہ خسارہ ہو، جوعام طور پرتجارت میں ہونے والے امکانی خسارہ سے نمایاں طور پربڑھ جائے تویہ بجائے خود ایک عذر ہے اور اس کی وجہ سے یہ معاہدہ ختم کیا جاسکتا ہے؛ اگرتبدیل شدہ قیمتوں کے تناسب سے مالک اُجرت میں اضافہ کے لیے تیار ہو تب تومعاملہ کوباقی رکھنا ہوگا۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۱۲) جعلی سرٹیفگٹ پرملازمت اور اُس کی آمدنی افسوس کہ فریب کاری اس درجہ کوآپہنچی ہے کہ آج تعلیمی اسناد کی بھی خریدوفروخت ہوتی ہے اور جعلی سرٹیفگٹ بھی ایک کاروبار بن گیا ہے؛ اگرکوئی شخص ایسی سرٹیفگٹ کی بنیاد پرملازمت حاصل کرلے توگواس کی یہ جعل سازی گناہِ کبیرہ ہے اور وہ جھوٹ اور دھوکہ دہی کے دوہرے گناہ کا مرتکب ہے؛ مگراس کی کمائی ہوئی آمدنی حلال وجائز ہے کہ یہ اس کی محنت کی اُجرت ہے؛ ایسا ممکن ہے کہ ذریعہ جائز نہ ہو اور کمائی جائز ہو۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۱۳،احسن الفتاویٰ:۸/۱۹۸) جاسوسی کی ملازمت بعض دفعہ مسلمانوں کوایسی ملازمتیں ملتی ہیں جن میں غیرمسلموں کی ظاہری وضع اختیار کرنی پڑتی ہے، خصوصیت سے ان لوگوں کوجوجاسوسی کے محکمہ سے تعلق رکھتے ہوں، کبھی دھوتی پہننی ہوتی ہے، قشقہ لگانا ہوتا ہے جوخالصتاً ہندومذہبی عمل ہے..... اس سے امکان بھربچنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ اگریہی ملازمت میسر ہو اور اس کے سوا چارہ نہ ہوتو اس کوپیشِ نظر رکھے کہ غیرمسلموں سے مشابہت کا دودرجہ ہے، ایک ان کی قومی تہذیب میں مشابہت جیسے، دھوتی پہننا، دوسرے ان کے مذہبی شعائر میں مشابہت جیسے، قشقہ لگانا اور زنار پہننا، مشابہت کا پہلا درجہ نسبتاً خفیف ہے اور دوسرا درجہ نہایت شدید اور کفریاقریب بہ کفر توکوشش کریں کہ پہلے درجہ کی مشابہت سے کام چل جائے؛ اگریہ کافی نہ ہوتوبہ شدت مجبوری دوسرا درجہ بھی اختیار کرسکتا ہے؛ تاہم بہرصورت یہ وقتی اور عارضی فعل ہو؛ اس کواپنا مستقل طریقہ نہ بنالے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۱۴) سودی حسابات کی تعلیم سودی حسابات کی تعلیم دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ اس لیے کہ سود کا عمل اور سود کا علم دونوں بالکل جدا گانہ چیزیں ہیں، سود کے لیے حساب کے جوفارمولے اختیار کئے جاتے ہیں وہ بذاتہ مباح ہیں؛ اس لیے ان کی تعلیم بھی مباح ہی ہوگی؛ بلکہ ممکن ہے کہ سودی کاروبار پرتنقید کے لیے کبھی ضروری بھی ہوجائے، قرآن مجید نے گمراہ قوموں کے عقائد بتائے ہیں، سلفِ صالحین اپنے زمانے کے فرقِ طلہ کے عقائد ونظریات اور اُن کے دلائل کا تفصیل سے ذکر کرتے رہے ہیں؛ تاکہ اُن پربھرپورنقد ہوسکے؛ یہی حال سود کی فنی تعلیم کا بھی ہوگا؛ اس کی سب سے واضح نظیر سحر کی تعلیم ہے، بعض علماء نے سحر کے عمل کوتومعصیت قرار دیا ہے؛ مگراس کوسیکھنے کی اجازت دی ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۲۷) انشورنس کی ایجنسی ہندوستان کے موجودہ حالات کے پسِ منظر میں قریب قریب علماء اس بات پرمتفق ہیں کہ مسلمانوں کے لیے جان ومال کا انشورنس کرانا جائز ہے؛ البتہ اگرفسادات میں جانی ومالی نقصان پہنچا ہوتواس کے لیے انشورنس کی پوری رقم جائز ہے اور اگرطبعی موت واقع ہوئی یاقدرتی مالی حادثہ پیش آیا توانشورنس کرانے والے کے لیے اتنی ہی رقم جائز ہوگی جتنی اس نے جمع کی تھی، باقی رقم بلانیت صدقہ، غرباء اور رفاہی کاموں پرخرچ کردینی چاہیے؛ اب سوال یہ ہے کہ انشورنس کمپنی کے ایجنٹ کے فرائض انجام دینا اور اس کو ذریعہ معاش بنانا جائز ہے یانہیں؟ اس سلسلہ میں فقہاء کا اُصول یہ ہے کہ جوچیز ازراہِ ضرورت جائز قرار دی جاتی ہے وہ بہ قدر ضرورت ہی جائز رہتی ہے ماابیح للضرورۃ یقدر بقدرہا انشورنس اصل میں سود اور جوئے سے خالی نہیں؛ لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند فرقہ پرستی، حکومت کی انتظامیہ میں فاشست عناصر کی موجودگی اور مسلمانوں کے تحفظ میں ناکامی بلکہ اس میں بالارادہ تساہل کی وجہ سے ضرورۃ علماء نے اس کوجائز قرار دیا ہے؛ اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ خود مسلمان اس کی ایجنسی لیں، اس لیے انشورنس کمپنی کی ایجنسی لینا اور اس کوذریعہ معاش بنانا جائز نہیں۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۳۸) بلڈبینک کا قیام کیا حکم رکھتا ہے؟ بلڈبینک اس وقت ایک ضرورت ہے، صورتِ حال یہ ہے کہ انسان کبھی بھی کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے اور اسے خون کی ضرورت پڑسکتی ہے..... اس لیے ایسے بینک ایک طبی ضرورت بن گئے ہیں اورالضرورات تبیح المحظورات کے تحت اس کی اجازت دی جانی چاہیے؛ جہاں تک خون خریدنے کی بات ہے تووہ ازراہِ حاجت جائز ہے؛ مگرمسئلہ خون کی فروخت کا ہے، یہ جائز نہیں؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صراحت موجود ہے کہ آپ نے خون کی بیع سے منع فرمایا ہے؛ پس خون فروخت کرنے والا گنہگار ہوگا اور اس کی قیمت اس کے حق میں حرام ہوگی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۳۳۶) دودھ بینک (۱)اسلام اصولی طور پر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک خاتون اپنے بچے کے علاوہ دوسرے بچوں کودودھ پلائے، حدیث کی کتابوں میں بکثرت اس کی نظیریں ملتی ہیں اور نکاح میں حرمتِ رضاعت کے تمام احکام اسی اصول پرمبنی ہیں۔ (۲)اس قسم کے منظم بینک قائم کرنے میں دومسئلے پیدا ہوں گے، ایک تودودھ کی خرید کا اور دوسرا دودھ کی فروخت کا اس پرتوفقہاء کا اتفاق ہے کہ دودھ پلانے والی دودھ پلائی کی اجرت لے سکتی ہے اور اس کی بھی خود قرآن مجید میں صراحت موجود ہے کہ جواپنے بچوں کودودھ پلوائیں چاہئے کہ اس کی اُجرت ادا کریں، فقہاء نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے؛ لیکن بیع اور اجارہ کے درمیان فرق ہے، احناف کے یہاں دودھ کے اجزائے انسانی میں سے ہونے کی وجہ سے اس کی بیع جائز نہ ہوگی اور حنفیہ کا نقطہ نظر فطرت سے ہم آہنگ، عقل کے تقاضوں کے مطابق اور نصوص کے موافق ہے۔(لہٰذا محض انسانی دودھ کے فروخت کے لئے دودھ بینک کا قائم کرنا جائز نہیں ہے )۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۷۹) بچوں کی گڑیا اور کھلونا گھر میں رکھنا اور تجارت کرنا کیسا ہے؟ گڑیا کی یاکسی اور کھلونے کی شکل وصورت جاندار کی نہ ہو توکچھ مضائقہ نہیں، جاندار کی صورت بنانا اور گھر میں رکھنا منع ہے، بچوں کے لیے بھی نہ رکھیں، ایسی صورتوں کی تجارت بھی نہ کریں۔ (فتاویٰ محمودیہ:۱۹/۵۰۳) بیوٹی پارلر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ خواتین کوآرائش وزیبائش کی تواجازت ہے، بشرطیکہ حدود کے اندر ہو؛ لیکن موجودہ دور میں بیوٹی پارلرز کا جوپیشہ کیا جاتا ہے اس میں چند درچند قباحتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے یہ پیشہ حرام ہے اور وہ قباحتیں مختصراً یہ ہیں: (۱)بعض جگہ مرد اس کام کوکرتے ہیں اور یہ خالصتاً بے حیائی ہے۔ (۲)ایسی خواتین بازاروں میں حسن کی نمائش کرتی پھرتی ہیں یہ بھی بے حیائی ہے۔ (۳)عام تجربہ یہ ہے کہ ایسے کاروبار کرنے والوں کو (خواہ وہ مرد ہوں یاعورتیں) دین وایمان سے کوئی واسطہ نہیں رہ جاتا ہے؛ اس لیے یہ ظاہری زیبائش باطنی بگاڑ کا ذریعہ بھی ہے۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۷/۱۳۱) عید کارڈ، کرسمس کارڈ، دیوالی کارڈ کا چھاپنا اور بیچنا کیسا ہے؟ مذہب باطل اور عقیدۂ باطلہ کی جس چیز سے اشاعت ہوتی ہے، اس کی تجارت ناجائز ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۱۹/۴۷۶) بینک کی ملازمت کا تفصیلی حکم آج کل بینک کی ملازمت بھی ایک اہم مسئلہ ہے، بینک کی ملازمت ناجائز ہونے کی دووجہیں ہوسکتی ہیں، ایک وجہ یہ ہے کہ ملازمت میں سود وغیرہ کے ناجائز معاملات میں اعانت ہے، دوسرے یہ کہ تنخواہ حرام مال سے ملنے کا احتمال ہے، ان میں سے پہلی وجہ یعنی حرام کاموں میں مدد کا جہاں تک تعلق ہے، شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں، ہردرجہ حرام نہیں؛ بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہے جوبراہِ راست حرام کام میں ہو، مثلاً سودی معاملہ کرنا، سود کا معاہدہ لکھنا، سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ؛ لیکن اگربراہِ راست سودی معاملے میں انسان کوملوث نہ ہونا پڑے؛ بلکہ اس کے کام کی نوعیت ایسی ہوجیسے ڈرائیور، چپراسی، یاجائز ریسرچ وغیرہ تواس میں چونکہ براہِ راست مدد نہیں ہے؛ اس لیے اس کی گنجائش ہے؛ جہاں تک حرام مال سے تنخواہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں شریعت کا اُصول یہ ہے کہ اگرایک مال حرام اور حلال سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہوتواس سے تنخواہ یاہدیہ لینا جائز نہیں؛ لیکن اگرحرام مال کم ہوتوجائز ہے، بینک کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے: (۱)اصل سرمایہ (۲)ڈپازیٹرز کے پیسے (۳)سود اور حرام کاموں کی آمدنی (۴)جائز خدمات کی آمدنی، اس سارے مجموعے میں صرف نمبر تین حرام ہے، باقی کوحرام نہیں کہا جاسکتا اور چونکہ ہربینک میں نمبرایک اور نمبردو کی اکثریت ہوتی ہے اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مجموعے میں حرام غالب ہے؛ لہٰذا کسی جائز کام کی تنخواہ اس سے وصول کی جاسکتی ہے۔ یہ بنیاد ہے جس کی بناء پرعلماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے؛ البتہ احتیاط اس میں ہے کہ اس سے بھی اجتنا ب کیا جائے۔ (فتاویٰ عثمانی:۳/۳۹۵،۳۹۶۔ جدیدفقہی مسائل:۱/۴۰۰) آلاتِ لہو کی بیع ٹی وی اور وی سی آر کا کاروبار بحالتِ موجودہ درست نہیں ہوتا؛ اگرکوئی ٹی وی، یاوی سی آر کوخریدے بعد میں اسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی تووہ اس کوبیچنا چاہتا ہے اس طرح کی اتفاقی صورت میں بھی بیع کراہت سے خالی نہیں؛ اس لیے احتیاط کے خلاف ہے؛ بہرِحال صورتِ مذکورہ میں اسے بیچ دیا جائے توچونکہ اس آلہ کا کچھ صورتوں میں جائز طور پراستعمال کرنا بھی ممکن ہے، اس لیئے اس آمدنی کوحرام نہیں کہا جائیگا۔ (مفہوم فتاویٰ عثمانی:۳/۴۴۔ فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۱۲۷) فلم اور ٹیلی ویژن کوذریعہ معاش بنانا فلم اگرذی روح تصویروں پرمشتمل ہو یااس کے ذریعہ غیراخلاقی باتوں کی تشہیر کی جائے تواس کا دیکھنا حرام ہے اوراس کا بنانا اس سے بھی بڑھ کر ہے؛ اسی طرح اس کودکھانا اور اس کواپنے لیے ذریعہ معاش بنانا سنگین ترین گنا ہ ہے کہ یہ برائی ہی میں ہے؛ بلکہ برائی کی دعوت دینا بھی ہے اور اس کے ذریعہ حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے، گزشتہ زمانے میں بعینہ فلم توموجود نہیں تھی؛ لیکن رقص ونغمہ کا سلسلہ تھا اور فقہاء نے اس کی اُجرت کوحرام قرار دیاہے، ابوالبرکات رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: وَلَايَجُوزُ عَلَى الْغِنَاءِ وَالنَّوْحِ وَالْمَلَاهِي۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق:۲۰/۳۰۲، شاملہ، المؤلف: زين الدين بن إبراهيم بن نجيم، المعروف بابن نجيم المصري،موقع الإسلام۔ کنزالدقائق:۳۶۴) ترجمہ: گانے بجانے، مردوں پرنوحہ کرنے اور لہوولعب پراجارہ جائز نہیں ہے۔ فلم میں یہ مفاسد زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ اس کے ذریعہ کسب معاش کی شناعت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۹۸)