انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان ابوالحسن سلطان ابوالحسن چونکہ ایک تجربہ کارسپہ سالار بھی تھا، اس لئے تخت نشین ہوکر اُس نے عیسائیوں کے ساتھ لڑائیوں کے سلسلہ کو بحسن وخوبی جاری رکھا،چند روز کے بعد مسلمانوں کی تباہی وبربادی کا یہ عجیب سامان ہوا کہ سلطنتِ قسطلہ کے نوجوان بادشاہ فردینند کی شادی سلطنت ارغون کی شہزادی ازبیلا کے ساتھ ہوئی اوراس شادی کے ساتھ ہی ارغون کی سلطنت قسطلہ سلطنت میں مل کر ایک بہت ہی زبردست عیسائی سلطنت بن گئی، فردی نند اورازبیلا دونوں بے حد متعصب اورپادری مزاج واقع ہوئے تھے،اس لئے انہوں نے مل کر اس بات کا تہیہ کیا کہ جزیرہ نمائے اندلس سے اسلامی سلطنت کا نام ونشان مٹادینا چاہئے اوراس جزیرہ نما میں ایک بھی مسلمان قسم کھانے کو زندہ نہ چھوڑنا چاہئے،اُدھر فردی نند اورازبیلا میں یہ قرارداد ہورہی تھی،ادھر سلطان ابوالحسن نے مصلحت وقت سمجھ کر اس عیسائی سلطنت کے ساتھ صلح کی سلسلہ جنبانی شروع کی؛چنانچہ فردی نند نے ۸۸۰ھ میں سلطان ابوالحسن کو لکھا کہ اگر تم صلح کے خواہاں ہو تو بلا عذر ہم کو خراج دینا منظور کرو،ابوالحسن کی جگہ اگر کوئی دوسرا سلطان غرناطہ کے موجودہ تخت پر ہوتا تو وہ شاید ایسا سخت جواب نہ دے سکتا،مگر ابوالحسن نے فردی نند کو لکھا کہ غرناطہ کے دار الضرب میں اب بجائے سونے کے سکوں کے فولادی شمشیریں تیار ہوتی ہیں تاکہ عیسائیوں کی گردنیں اُڑائی جائیں، اس جوانمردانہ جواب نے چند روز کے لئے فردی نند کومبہوت ومرعوب بنادیا اور بظاہر کئی سال تک سلسلہ جنگ ملتوی رہا،سلطان ابوالحسن نے معصم ارادہ کرلیا کہ ہم اس ملک میں آزادوخودمختار رہیں گے اورعیسائیوں کا محکوم بننے کے عوض موت کو ترجیح دیں گے،فردی نند اورازبیلا جو دونوں مل کر فرائض و فرماں روائی ادا کرتے تھے،تیاری میں مصروف رہے۔ عیسائی تیاریوں کا حال سن کر ابوالحسن نے خود ہی ۸۸۶ھ میں سلطنتِ قسطلہ کے قلعہ صخرہ پر جو دریائے وادی الکبیر کے کنارے نہایت مضبوط قلعہ تھا اورفردی نند کے دادانے مسلمانوں سے فتح کیا تھا، حملہ کیا اور ایک ہی شب کے محاصرہ کے بعد بجبرد وقہر عیسائیوں سے چھین لیا،اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت سلطان ابو الحسن غرناطہ میں تخت نشین ہوا ہے تو سلطنت غرناطہ کا رقبہ سمٹ کر صر چار ہزار میل مربع یا اس سے کم رہ گیا تھا اور سلطنت قسطلہ کا رقبہ اُس وقت وسیع ہوکر سوالاکھ میل مربع سے بھی کچھ زیادہ تھا،فردی نند کو قلعہ ضحرہ کے نکل جانے کا سخت صدمہ ہوا، اوراُس نے سلطنت غرناطہ کے قلعہ الحمہ پر دھوکے سے حملہ کیا چونکہ اس قلعہ کی حفاظت کے لئے کوئی فوج اُس وقت وہاں موجود نہ تھی،لہذا معمولی کوشش کے بعد عیسائیوں نے اُس پر قبضہ کرلیا،مسلمانوں نے قلعہ سخرہ کو فتح کرکے وہاں کے غیر مصافی عیسائیوں کو کسی قسم کا کوئی آزار نہیں پہنچایا،لیکن عیسائیوں نے الحمہ پر قابض ہوکر وہاں کی تمام مسلمان رعایا کو بلا امتیاز زن ومرد تہ تیغ کردیا،فردی نند نے الحمہ پر دس ہزار عیسائی فوج حفاظت کے لئے چھوڑدی اور خود واپس چلاگیا،غرناطہ میں جب الحجمہ کے قتلِ عام کی خبر پہنچی تو تمام شہرمیں کہرام مچ گیا،سلطان ابوالحسن نے ایک عرب سردار کو اس قلعہ کے واپس لینے کے لئے روانہ کیا،اُس نے جاتے ہی قلعہ کا محاصرہ کرلیا، فروی نند کا ایک سردار یعنی حاکم قرطبہ فوج لے کر قرطبہ سے چلاکہ قلعہ الحجمہ کو بچائے،یہ خبر سُن کر عرب سردار نے اپنی فوج کا ایک حصہ قلعہ کے محاصرہ پر چھوڑا اور ایک حصہ حاکمِ قرطبہ کے مقابلے کو بھیجا، راستے میں لڑائی ہوئی اورحاکمِ قرطبہ شکست کھاکر بھاگا،ٹھیک اسی وقت دوسری طرف سے حاکم اشبیلیہ یعنی دوسرا ۔۔۔۔۔۔۔سردار ایک زبردست فوج لے کر نمودار ہوا،چونکہ قلعہ کے محاصرہ پر بہت ہی تھوڑی سی فوج باقی تھی اس لئے مصلحتِ وقت سمجھ کر مسلمانوں کی فوج غرناطہ کو واپس چلی آئی اوریہ قلعہ قبضہ میں نہ آسکا قلعہ الحمہ نہایت زبردست اورغرناطہ کے قریب کا قلعہ تھا اس لئے اس کا عیسائیوں کے قبضہ میں چلا جانا بے حد خطرناک تھا۔ ماہ جمادی الاوّل ۸۸۷ھ میں سلطان ابوالحسن کے پاس خبر پہنچی کہ فردی نند اپنی پوری فوج کے ساتھ غرناطہ کی طرف روانہ ہوا،ادھر سے سلطان ابو الحسن بھی غرناطہ سے مع فوج روانہ ہوا،سلطنتِ غرناطہ کی سرحد پر مقام لوشہ کے قریب ۲۷جمادی الاول ۸۸۷ھ کو ایک زبردست جنگ ہوئی اس لڑائی میں فردی نند کو شکستِ فاش حاصل ہوئی اورلشکرِ اسلام کے ہاتھ بے حد مالِ غنیمت آیا ادھر میدانِ لوشہ میں سلطان ابوالحسن اپنے حریف فردی نند کوشکستِ فاش دے کر بھگادیا تھا اُدھر غرناطہ میں سلطان کا بیٹا ابو عبداللہ محمد باپ کے خلاف سازش میں مصروفِ عمل تھا۔ اس فتح کے بعد سلطان ابو الحسن عیسائیوں کو مار مار کر بھگانے اوراپنی سلطنت کو وسیع کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہونا چاہتا تھا کہ اس کے پاس وہیں خبر پہنچی کہ شہزادہ ابو عبداللہ محمد نے ،المیریہ،بسط اورغرناطہ پر قبضہ کرکے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا ہے،سلطان مجبوراً مالقہ میں آکر مقیم ہوگیا، اس طرح غرناطہ اورنصف مشرقی حصہ میں ابو عبداللہ محمد کی حکومت قائم ہوگئی اورمالقہ یعنی نصف مغربی حصہ میں سلطان ابوالحسن کی حکومت باقی رہی، اس چھوٹی سی اسلامی حکومت کو دو حصوں میں تقسیم دیکھ کر ایک طرف عیسائیوں کے دہانِ حرص میں پانی بھر آیا دوسری طرف باغی شہزادے ابو عبداللہ محمد نے سلطنت کا باقی نصف حصہ بھی باپ سے چھین لینے کی تیاریاں کیں؛چنانچہ اول شبیلیہ، استیجہ اور سریش کے عیسائی صوبہ داروں نے فوج فراہم کرکے سلطان ابوالحسن پر مالقہ میں حملہ کیا،سخت لڑائی ہوئی اوراشبیلیہ اورسریش کے حاکم مع دو ہزار سواروں کے گرفتار ہوئے،باقی میدانِ جنگ میں مقتول یا مفرور ہوئے،ادھر سلطان ابوالحسن ان عیسائیوں سے لڑنے کے لئے مالقہ سے روانہ ہوا تھا،ادھر اس کا بیٹا فوج لے کر مالقہ پر قبضہ کرنے کے لئے پہنچ گیاتھا،جب سلطان میدان جنگ سے فتح مند ہوکر واپس ہوا تو بیٹے سے مقابلہ پیش آیا،اس لڑائی میں بھی سلطان ابوالحسن کو فتح حاصل ہوئی اورابو عبداللہ محمد شکست کھاکر غرناطہ کی طرف بھاگ آیاسلطان ابوالحسن اپنے بیٹے ابو عبداللہ محمد کو بھگا کر مالقہ میں داخل ہوا تو اُس پر فالج کا حملہ ہوا اوراس کی بصارت جاتی رہی،اُدھر ابو عبداللہ محمد نے باپ کی طرف سے مطمئن ہوکر اورفوج فراہم کرکے عیسائیوں کے علاقہ پر حملہ کیا،مقام لوشنیہ میں پہنچ کر فوج کو تاخت وتاراج میں مصروف کردیا، وہاں کی عیسائی فوج کے سردارنے اس ناتجربہ کار مسلمان کو دھوکا دیا اوراپنی فوج کو لئے ہوئے الگ کمین گاہ میں منتظر بیٹھا رہا،جب ابو عبداللہ مع مال غنیمت واپس ہونے لگا تو اُس نے ایک درہ کوہ میں راستہ روک کر اورچاروں طرف سے گھیر کر تمام اسلامی لشکر کو قتل اور ابو عبداللہ کو گرفتار کیا،بعد گرفتاری ابو عبداللہ محمد کو شاہ قسطلہ کے پاس بھیج دیا،یہ خبر سُن کر باشندگانِ غرناطہ سلطان ابوالحسن کے پاس مالقہ پہنچے اور غرناطہ آنے کی درخواست کی،سلطان نے اپنی بیماری اور معذوری کی وجہ سے انکار کیا اوراپنے بھائی ابو عبداللہ زغل کو اپنی جگہ غرناطہ کے تخت پر جلوس کرنے کا حکم دیا اورخود تخت وسلطنت سے علیحدگی اورگوشہ نشینی اختیار کرلی۔