انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
مروّجہ تسبیح اور بیج پر تسبیح پڑھنا کیسا ہے؟ بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ تسبیحات ہاتھ کی انگلیوں پر پڑھی جائیں تاکہ انگلیاں بھی عبادت میں شریک سمجھی جائیں، لیکن اگر بیج یا پروئی ہوئی مروّجہ تسبیح پر اوراد پڑھے جائیں اور ریاء ونمائش مقصود نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ تسبیح بذاتِ خود مقصود نہیں، بلکہ ذکر کے شمار کرنے کا ذریعہ ہے، بہت سی احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ فلاں ذکر اور فلاں کلمہ کو سو مرتبہ پڑھا جائے تو یہ اجر ملے گا، حدیث کے طلبہ سے یہ احادیث مخفی نہیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس تعداد کو گننے کے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور اختیار کیا جائےگا، خواہ اُنگلیوں سے گنا جائے یا کنکریوں سے، یا دانوں سے۔ اور جو ذریعہ بھی اختیار کیا جائے وہ بہرحال اس شرعی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوگا۔ اور جو چیز کسی مطلوبِ شرعی کا ذریعہ ہو وہ بدعت نہیں کہلاتا، بلکہ فرض کے لئے ایسے ذریعہ کا اختیار کرنا فرض، اور واجب کے لئے ایسے ذریعہ کا اختیار کرنا واجب ہے، اسی طرح مستحب کے لئے ایسے ذریعہ کا اختیار کرنا مستحب ہوگا۔ آپ جانتے ہیں کہ حج پر جانے کے لئے بحری، بری اور فضائی تینوں راستے اختیار کئے جاسکتے ہیں، لیکن اگر کسی زمانے میں ان میں سے دو راستے مسدود ہوجائیں، صرف ایک ہی کھلا ہو تو اسی کا اختیار کرنا فرض ہوگا، اور اگر تینوں راستے کھلے ہوں تو ان میں کسی ایک کو لا علی التعیین اختیار کرنا فرض ہوگا۔ اسی طرح جب تسبیحات و اذکار کا گننا عندالشرع مطلوب ہے اور اس کے حصول کا ایک ذریعہ تسبیح بھی ہے، تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے، بلکہ دُوسرے ذرائع میں سے ایک ذریعہ کہلائےگا، اور چونکہ تمام ذرائع میں زیادہ آسان ہے، اس لئے اس کو ترجیح ہوگی۔ ۲:… متعدّد احادیث سے ثابت ہے کہ کنکریوں اور دانوں پر گننا آنحضرت ﷺ نے ملاحظہ فرمایا اور نکیر نہیں فرمائی۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "وہ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ ایک خاتون کے پاس گئے، ان خاتون نے اپنے سامنے کچھ گٹھلیاں اور کنکریاں رکھی تھیں، جس پر وہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :کیا میں تم کو ایک ایسا طریقہ نہ بتاؤں جو اس سے آسان بھی ہے اور بہتر بھی؟ کہ اس طرح کہو: اللہ نے جتنی چیزیں آسمان میں پیدا کی ہیں اتنی بار سبحان اللہ اور جتنی چیزیں زمین میں پیدا کی ہیں ان کے برابر سبحا ن اللہ، اسی طرحالحمد للہ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ "۔ ابو داؤد اور ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بیج یا پروئے ہوئے دانوں پر تسبیح پڑھنا درست ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ تسبیح، ایک اور لحاظ سے بھی ذکرِ الٰہی کا ذریعہ ہے، وہ یہ کہ تسبیح ہاتھ میں ہو تو زبان پر خودبخود ذکر جاری ہوجاتا ہے، اور تسبیح نہ ہو تو آدمی کو ذکر یاد نہیں رہتا، اسی بنا پر تسبیح کو "مذکرہ" کہا جاتا ہے، یعنی یاد دِلانے والی، اور اسی بنا پر صوفیہ اس کو "شیطان کے لئے کوڑا" کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ شیطان دفع ہوجاتا ہے، اور آدمی کو ذکر سے غافل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، پس جب ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنا مطلوب ہے اور تسبیح کا ہاتھ میں ہونا اس مشغولی کا ذریعہ ہے، تو اس کو بدعت کہنا غلط ہوگا، بلکہ ذریعہٴ ذکرِ الٰہی ہونے کی وجہ سے اس کو مستحب کہا جائے تو بعید نہ ہوگا۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۲۷۹ ، کتب خانہ نعیمیہ۔ کتاب الفتاویٰ:۳/۱۰۶،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)