انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** معتصم باللہ ابواسحاق معتصم بن ہارون الرشید سنہ۱۸۰ھ میں جب کہ ہارون الرشید خود بلادِ روم کی طرف عازم ہوا، مقام زبطرہ علاقہ سرحد میں باروہ نامی اُمِّ ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا، ہارون الرشید کواس کے ساتھ بہت محبت تھی، وہ اپنی اولاد میں جب کوئی چیز تقسیم کرتا توسب سے زیادہ حصہ معتصم کودیا کرتا تھا، معتصم کوپڑھنے لکھنے کا مطلق شوق نہ تھا، لڑکپن میں اس نے کھیل کود کے اندر اپنا تمام وقت صرف کیا، ہارون الرشید نے ایک غلام کومتعین کردیا تھا کہ وہ معتصم کے ساتھ ساتھ رہے اور جب موقعہ ملے اس کوپڑھائے، جب وہ غلام مرگیا توہارون الرشید نے کہا اب توتمہارا غلام بھی مرگیا، بتاؤ اب کیا ارادہ ہے؟ معتصم نے کہا کہ امیرالمؤمنین یہاں غلام مرگیا اور میں کتاب کے جھگڑے سے چھوٹ گیا، معتصم کی نسبت مشہور ہے کہ وہ بالکل اُمی تھا؛ مگرصحیح یہ ہے کہ وہ بہت ہی کم پڑھنا جانتا تھا اور اپنا نام وغیرہ لکھ سکتا تھا؛ مگرچونکہ شاہی خاندان اور علماء کی صحبت میں پرورش پائی تھی اور ہارون ومامون کے زمانے کی علمی مجلسوں کے تماشے خوب دیکھے تھے، اس لیے اس کی واقفیت بہت وسیع تھی، معتصم نہایت تنومند پہلوان اور بہادر شخص تھا، ساتھ ہی وہ سپہ سالاری کی قابلیت اعلیٰ درجہ کی رکھتا تھا؛ ابن ابی داؤد کا قول ہے کہ معتصم اکثر اپنا بازو میری طرف پھیلا کرکہا کرتا تھا کہ اس میں خوب زور سے کاٹو، میں دانتوں سے کاٹتا اور معتصم کہتا کہ مجھ کوکچھ بھی معلوم نہیں ہوا، میں پھرکاٹتا اور پھربھی کوئی اثر نہ ہوتا، میرے دانتوں کا کیا اثر ہوتا، اس پرتونیزہ کا بھی اثر نہیں ہوسکتا تھا، معتصم اکثر اپنی دوانگلیوں سے آدمی کے پہنچے کی ہڈی دبا کرتوڑ ڈالا کرتا تھا، معتصم کبھی کبھی خود بھی شعر کہتا اور شعراء کی خوب قدردانی کرتا تھا، مسئلہ خلقِ قرآن کے خبط میں وہ اپنے بھائی مامون الرشید کی طرح مبتلا تھا، جس طرح مامون نے علماء کواس مسئلہ کے متعلق اذیتیں پہنچائیں؛ اسی طرح معتصم باللہ عباسی نے بھی علماء کوتنگ کیا، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کواسی مسئلہ خلق قرآن کے متعلق نہایت بے رحمی وبے دردی سے تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائیں۔ مامون الرشید کے عہدِ خلافت میں معتصم باللہ شام ومصر کا گورنر تھا، مامون الرشید نے جب بلادِ روم پرچڑھائی کی تومعتصم باللہ نے اپنی شجاعت کے جوہر خوب دکھائے؛ اسی لیے مامون الرشید نے خوش ہوکر اس کواپنا ولی عہد بنایا اور اپنے بیٹے عباس کومحروم رکھا، معتصم باللہ کی بیعتِ خلافت مامون کی وفات کے دوسرے دن ۱۹/رجب سنہ۲۱۰ھ مطابق ۱۰/اگست سنہ۸۳۳ء مقام طرطوس میں ہوئی، فضل بن مروان ایک عیسائی اس کا کارپرواز اور نائب تھا، جب بغداد میں مامون الرشید کی وفات کی اطلاع پہنچی توفضل بن مروان نے اہلِ بغداد سے معتصم کے خلافت کی بیعت لی، معتصم نے بغداد میں پہنچ کرفضل بن مروان ہی کواپنا وزیراعظم بنایا، مقامِ طرسوس میں جب معتصم کے ہاتھ پربیعت ہوئی توفوج کے اکثر اراکین نے عباس بن مامون کا نام لیا کہ وہ خلافت کا زیادہ مستحق ہے، معتصم نے عباس کوطلب کیا اور اس نے معتصم کے ہاتھ پربیعت کی، عباس کی بیعت کے بعد یہ شورش ومخالفت خود بخود فرو ہوگئی، معتصم نے یاتوعباس کے اثر کومٹانے کے لی کہ اس کے زیرِاہتمام شہر طوانہ کی تعمیر آبادی عمل میں آئی تھی یااس لیے کہ سرحدِروم پرایک ایسا مضبوط مقام جس میں مسلمانوں کی آبادی تھی رومیوں کوہروقت اپنی طرف متوجہ رکھے گا، یاخدا جانے کس لیے تختِ خلافت پرمتمکن ہوتے ہی حکم دیا کہ طوانہ کومسمار وویران کردیا جائے اور اس کے باشندوں کوحکم دیا کہ اپنے اپنے شہروں کوواپس چلے جائیں اور جہاں سے آئے تھے وہیں جاکر آباد ہوں، اس شہر کوویران کراکر جوسامان ساتھ لاسکتا تھا اپنے ہمراہ بغداد لے آیا اور جونہیں لا سکتا تھا اس کووہیں آگ لگاکر جلادیا جوسامان ساتھ لاسکتا تھا اپنے ہمراہ بغداد لے آیا اور جونہیں لاسکتا تھا اس کووہیں آگ لگاکرجلادیا۔