انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو محذورہؓ نام ونسب نام میں بڑا اختلاف ہے،بعض اوس بعض سمرہ اور بعض سلمان بتاتے ہیں ابو محذورہ کنیت ہے، نسب نامہ یہ ہے اوس بن معیر بن لوذان بن ربیعہ بن عریج بن سعد بن جمح قرشی جمحی اسلام ۸ھ میں مشرف باسلام ہوئے،ان کے اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ ابو محذورہ سنہ مذکور میں چند مشرکین کے ساتھ کہیں جارہے تھے،ٹھیک اسی وقت آنحضرتﷺ غزوۂ حنین سے واپس تشریف لارہے تھے،راستہ میں ایک مقام پر منزل ہوئی، موذن نبوی نے نماز کے لیے اذان دی،ابو محذورہ کے ساتھیوں نے اذان کی آواز سنی تو بطور مضحکہ اس کی نقل اتارنے لگے،ابو محذورہ نے بھی نقل اتاری، ان کی آواز نہایت دل کش تھی،اس لیے مضحکہ میں بھی دلکشی باقی رہی، آنحضرتﷺ نے آواز سن کر اذان دینے والوں کوبلا بھیجا، یہ لوگ آئے،آپ نے پوچھا ابھی کس نے بلند آواز سے اذان دی تھی،ابو محذورہ کے ساتھیوں نے ان کی طرف اشارہ کردیا، آپ نے سبکو واپس کردیااورانہیں روک لیااور اذان دینے کی فرمائش کی،ابو محذورہ کو یہ فرمایش بہت گراں گذری ؛لیکن انکا ر کی جرات نہ تھی،ان کو اذان سے پوری واقفیت نہ تھی ،اس لیے آنحضرتﷺ نے انہیں بتایا،انہوں نے آپ کی زبان سے سن کر اسی کو دہرادیا،زبان نبی کا یہ اعجاز تھا کہ اس مرتبہ اذان دینے میں زبان کے ساتھ دل بھی لا الہ اللہ محمد رسول اللہ پکارا اٹھا اور ابو محذورہ جو ابھی چند ساعت پہلے اذان کا مضحکہ اڑاتے تھے،اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے،آنحضرتﷺ نے انہیں ایک تھیلی میں تھوڑی سی چاندی مرحمت فرمائی اور ان کی پیشانی سے لیکر ناف تک دستِ مبارک پھیر کر برکت کی دعادی۔ (استیعاب:۲/۶۸۰) یا ابو محذورہ اذان کا مضحکہ اڑاتے تھے، یا دفعۃ یہ قلبِ ماہیت ہوئی کہ آنحضرتﷺ سے درخواست کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے مکہ میں اذان دینے کی اجازت مرحمت ہو، آپ نے منظور فرمایا اور ابو محذورہ اجازت لیکر مکہ چلے گئے اس وقت ان کا دل محبت نبویﷺ سے معمور ہوچکا تھا، مکہ جاکر آنحضرتﷺ کے عامل عتاب بن اسید کے یہاں اترے اور مستقل اذان دینے کی خدمت انجام دینے لگے۔(استیعاب:۲/۶۸۰)فتح مکہ کے بعد آنحضرتﷺ کے انہیں مکہ کا مستقل موذن بنادیا (تہذیب التہذیب :۱۲/۲۳) ان کی اذان اورخوش الح وافی کی اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ شعراء اس کی قسم کھاتے تھے ایک قریشی شاعر کہتا ہے: اما ورب الکعبۃ المستورہ وما تلا محمد من سورہ ترجمہ:پردہ پوش کعبہ کے رب اور محمدﷺ کی تلاوت کردہ سورتوں والتعمات من ابی محذورۃ لا فعلن فعلہ مذکورہ ترجمہ اورابی محذورہ کے نغموں کی قسم میں یہ کام ضرور کروں گا وفات ابو محذورہ مکہ کے موذن تھے اس لیے ہمیشہ یہیں رہے اوریہیں امیر معاویہ کے عہدِ خلافت ۵۹ھ میں وفات پائی بعض روایتوں میں ۷۹ میں وفات کا ذکر ہے، لیکن پہلی روایت زیادہ صحیح ہے (اصابہ تذکرہ ابو محذورہ) وفات کے بعد ایک لڑکا عبدالملک یاد گار چھوڑا۔ فضل وکمال ان کی دستار فضیلت کا بڑا طرۂ امتیاز یہی ہے کہ وہ نہایت خوش آواز موذن تھے ،حدیث نبوی سے بھی تہی دامن نہ تھے، حدیث کی کتابوں میں ان کی مرویات موجود ہیں، مسلم میں بھی ایک روایت ہے (تہذیب الکمال:۴۵۹) ان کے گھر کے لوگوں میں ان کے لڑکے عبدالملک پوتے عبدالعزیز اوربیوی ام عبدالملک نے ان سے روایتیں کیں، بیرونی رواۃ میں عبداللہ بن محیرز،اسود بن یزید النخعی،سائب مکی، اوس بن خالد، عبداللہ بن عبید اللہ اورابو سلمان قابلِ ذکر ہیں۔ (تہذیب االتہذیب :۱۲/۲۲۳)