انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حربِ فجار(یعنی پہلی شرکت جنگ) مقام عکاظ میں بڑا بھاری میلہ لگتا تھا، اس میلہ میں مشاعرے منعقد ہوتے تھے،گھوڑ دوڑ ہوتی تھی،پہلوانوں کی کشتیاں اورفنونِ سپاہ گری کے دنگل بھی ہوتے تھے ،عرب کے تمام قبائل جنگ جوئی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے اوربات بات پر تلواریں کھینچ جاتی تھیں، عکاظ کے میلہ میں کسی معمولی سی بات پر قبیلہ ہوازن اورقبیلہ قریش کے درمیان چھیڑ چھاڑ شروع ہوگئی،اول تو دونوں قبیلوں کے سمجھ دار لوگوں نے بات کو بڑھنے نہ دیا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا، لیکن شر پسند لوگ بھی ہر قوم میں بکثرت ہوا کرتے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ معاملہ درست ہونے کے بعد پھر بگڑا اورجدال وقتال کا بازار گرم ہوا، یہ لڑائی ماہ محرم میں ہوئی اسی لئے اس کا نام جنگ فجار مشہور ہوا ؛کیونکہ اہل عرب کے عقیدہ کے موافق محرم الحرام میں لڑنا سخت گناہ کا کام تھا، اس مہینے میں جاری شدہ لڑائیاں بھی ملتوی ہوجاتی تھیں، یہ لڑائی چار بڑی بڑی لڑائیوں کا ایک سلسلہ تھی اور ہر پہلے لڑائی دوسری لڑائی سے زیادہ سخت وشدید ہوتی تھی کیونکہ قبیلہ ہوازن کے ساتھ قیس عیلان کے تمام دوسرے قبائل اور قریش کے ساتھ کنانہ کے تمام قبائل یکے بعد دیگرے شامل ہوتے گئے اوریہ لڑائی ترقی کرکے قبائل قیس اور قبائل کنانہ کی لڑائی بن گئی، آخری چوتھی لڑائی نہایت ہی سخت اورزبردست لڑائی تھی، جس میں بعض سرداروں نے خود اپنے پاؤں میں اس لئے بیڑیاں ڈلوائی تھیں کہ میدانِ جنگ سے کسی طرح بھی بھاگ نہ سکیں،اسی آخری چوتھی لڑائی میں پہلی،مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسلح ہوکر شریک جنگ ہوئے، بنو کنانہ میں ہر قبیلہ کا سالار جُدا جُدا تھا؛چنانچہ بنو ہاشم کے سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب تھے اور ساری فوج یعنی تمام بنو کنانہ کا سپہ سالار اعظم حرب بن امیہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اُس وقت پندرہ سال کی تھی، آپ کے سپرد یہ خدمت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچوں کو تیر اُٹھا اٹھا کر دیتے جاتے تھے، آپ کو خود کسی سے مقابلے اورقتال کا موقع نہیں ملا،اس لڑائی میں اول تو بنو ہوازن غالب نظر آتے تھے،بالآخر بنو کنانہ غالب اور قبائل قیس مغلوب ہوئے ابن خلدون کی روایت کے موافق حرب فجار کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر دس برس کی تھی مگر صحیح یہ ہے کہ حرب فجار ۵۸۱ ء واقع ہوئی اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پندرہ سال کی تھی۔