انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** صوبوں اور ملکوں کی خود مختاری خاندانِ بنواُمیہ کے خلفا جب تک حکمران رہے، دمشق تمام عالم اسلام کا ایک ہی مرکز اور دارالخلافہ تھا، بنواُمیہ کی خلافت کے وارث عباسی ہوئے توعبداللہ سفاح پہلا عباسی خلیفہ سنہ۱۳۲ھ میں خلفاء بنواُمیہ کا قائم مقام اور تمام عالم کافرماں روا بنا؛ لیکن صرف چھ سال بعد یعنی سنہ۱۳۸ھ میں اُندلس کا ملک خلافت بنوعباس سے جدا ہوگیا اور وہاں ایک جداگانہ خلافت بنواُزیہ قائم ہوگئی سنہ۱۷۲ھ میں مراقش کے اندر ایک اور خود مختار سلطنت قائم ہوگئی جوسلطنت ادریسیہ کے نام سے مشہور ہے، اس طرح مراقش کا ملک بھی بنوعباس کی حکومت کے دائرہ سے ہمیشہ کے لیے خارج ہوگیا، چند روز کے بعد یعنی سنہ۱۸۴ھ میں ٹیونس والجیریا کا علاقہ جس کوصوبۂ افریقہ کہا جاتا تھا، برائے نام حکومتِ عباس کاماتحت رہ گیا؛ ورنہ وہاں بھی ابراہیم بن اغلب کی خود مختار حکومت قائم ہوکر عرصۂ دراز تک اس کی اولاد میں قائم قائم رہی۔ سنہ۲۰۵ھ میں مامون الرشید نے طاہر بن حسین کوخراسان کی صوبہ داری پرمامور کرکے بھیجا؛ اسی تاریخ سے خراسان کی حکومت طاہر کے خاندان میں رہی جس طرح افریقہ برائے نام دولتِ عباسیہ سے تعلق رکھتا تھا، اُسی طرح خراسان کی دولت طاہر یہ کا بھی برائے نام تعلق تھا، یعنی معمولی خراج وہاں سے آجاتا تھا اور خطبہ میں عباسی خلیفہ کا نام لیا جاتا تھا، باقی اُمور میں طاہریہ سلاطین خود مختار تھے۔ سنہ۲۱۳ھ میں محمد بن ابراہیم زیادی کویمن کی حکومت سپرد کی گئی اور اس کے بعد یمن کی حکومت اس کے خاندان میں رہی، یمن بھی خراسان وافریقہ کی طرح آزاد ہوگیا؛ غرض سنہ۱۲۸ھ سے سنہ۲۱۳ھ تک، صرف پچھتر سال کے عرصہ میں دولت امویہ اندلس، دولت ادریسہ مراقش، دولتِ اغلبیہ افریقہ، دولتِ طاہریہ خراسان، دولتِ زیادیہ یمن، یعنی پانچ آزاد سلطنتوں کی بنیاد مامون الرشید عباسی کے زمانے تک کہ اُس وقت تک بنوعباس کی دولت وحکومت ترقی پذیر سمجھی جاتی تھی، قائم ہوئی۔