انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تدفین عبدالملک کو جب اس کی خبر ہوئی کہ حضرت اسماءؓ نے لاش مانگی مگر حجاج نے دینے سے انکار کیا، تو اس نے اس کو نہایت غضب آٓلودہ خط لکھا کہ تم نے لاش اب تک کیوں نہ حوالہ کی اس ڈانٹ پر اس نے لاش دیدی اورغمزدہ ماں نے غسل دلا کر اپنے نور نظر کو مقام حجوں میں سپرد خاک کیا، شہادت کے وقت ابن زبیرؓ کی عمر ۷۲ سال تھی، مدت خلافت سات برس ۔ علامہ شبلیؒ نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی شہادت اورحضرت اسماءؓ کے غیر معمولی صبر واستقلال کو نہایت موثر پیرایہ میں نظم کیا ہے، اس مقام پر ان کا نقل کرنا بے محل نہ ہوگا، فرماتے ہیں: مسند آرائے خلافت جو ہوئے ابن زبیرؓ سب نے بیعت کیلئے ہاتھ بڑھائے یکبار ابن مروان نے حجاج کو بھیجاپئے جنگ جس کی تقدیر میں مرغان حرم کا تھا شکار حرم کعبہ میں محصور ہوئے ابن زبیر فوج بید ین نے کیا کعبہ ملت کا حصار دامن عرش ہوا جاتا تھا آلودۂ گرد بارش سنگ سے اٹھتا تھا جو رہ رہ کے غبار تھا جو سامانِ رسد چار طرف سے مسدود ہر گلی کوچہ بناجاتا تھا اک کنج مزار جب یہ دیکھا کوئی ناصر ویاورنہ رہا ماں کی خدمت میں گئے ابن زبیرؓ آخر کار جاکے کی عرض کہ اے اخت حریم نبویﷺ نظر آتے نہیں اب حرمت دیں کے آثار آپ فرمائیے اب آپ کا ارشاد ہے کیا کہ میں ہوں آپ کا اک بندۂ فرمانبردار صلح کرلوں کہ چلا جاؤں حرم سے باہر یا یہیں رہ کے اسی خاک پہ ہوجاؤ ں نثار بولی وہ پردہ نشیں حرم سر عفاف حق پہ گر تو ہے پھر صلح ہے مستوجب عار یہ زمیں ہے وہی قربان گہ اسماعیلؑ فدیہ نفس ہے خود دین خلیلی کا شعار ماں سے رخصت ہوئے یہ کہہ کے بآدب ونیاز آپ کے دودھ سے شرمندہ نہ ہونگا زنہار پہلے ہی حملہ میں دشمن کی الٹ دیں فوجیں جس طرف جاتے تھے یہ ٹوٹتی جاتی تھی قطار منجنیقوں سے برستے تھے جو پتھر پیہم ایک پتھر نے کیا آکے سر درخ کو فگار خوں ٹپکا جو قدم پر تو کہا از رہ فخر یہ ادا وہ ہے کہ ہم ہاشمیوں کا ہے شعار اس گھرانے نے کبھی پشت پہ کھایا نہیں زخم خون ٹپکے گا تو ٹپکے گا قدم پر ہربار زخم کھا کھا کے لڑے جاتے تھے لیکن کب تک آخر الامر گرے خاک پہ مجبور ونزار لاش منگوا کے جو حجاج نے دیکھی تو کہا اس کو سولی پہ چڑھا کہ یہ تھا قابل دار لاش لٹکی رہی سولی پہ کئی دن لین ان کی ماں نے نہ کیا رنج والم کا اظہار اتفاقات سے اک دن جو ادھر سے نکلیں دیکھ کر لاش کو بیساختہ بولیں اک بار ہوچکی دیر کہ منبر پہ کھڑا ہے یہ خطیب اپنے مر کب سے اترتا نہیں اب بھی یہ سوار