انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** منافقین کی شرارت واپسی میں منافقوں نے اپنی عداوتِ باطنی کے تقاضے سے ایسی تدابیر اختیار کیں کہ بعض مہاجرین وانصار میں شکر رنجی وبے لطفی تک نوبت پہنچادی،عبداللہ بن اُبی نے انصار ومہاجرین کے سوال کو خوب اُبھارا اوریہاں تک کہ اس کی زبان سے نکلا کہ مدینہ میں چل کر ان تمام مہاجرین کو مدینے سے نکال دیا جائے گا،اس سفر میں ایک اورقابلِ تذکرہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی سفر میں ہمراہ تھیں،ایک منزل پرلشکر نے قیام کیا،وہاں سے روانگی کے وقت حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ہودج اونٹ پر رکھ دیا گیا اوریہ محسوس نہ ہوا کہ ہودج میں ہیں یا نہیں ؛حالانکہ وہ رفع حاجت کے لئے گئی ہوئی تھیں،اُن کو وہاں کسی قدر دیر اس وجہ سے لگی کہ وہ اپنی ہمشیرہ کا ایک ہار پہنے ہوئے تھیں،اتفاقاً اُس ہار کا ڈورا کسی جھاڑی میں اُلجھ کر ٹوٹ گیا اور موتی تمام بکھر گئے؛چونکہ پرائی چیز تھی اس لئے اوربھی زیادہ اس کا خیال ہوا ،زمین پر سے موتیوں کے چُننے میں وقت زیادہ صرف ہوگیا،لشکر اس عرصہ میں روانہ ہوگیا آپ واپس تشریف لائیں تو قیام گاہ کو خالی پایا،بہت متردد اورپریشان ہوئیں، اسی عرصہ میں صفوان بن معطلؓ اپنا اونٹ لئے ہوئے پیچھے سے آتے ہوئے نظر آئے،صفوان بن معطلؓ کے سپرد یہ خدمت تھی کہ وہ سب سے پیچھے قیام کریں اور قافلہ کی روانگی کے بعد سب سے بعد میں قیام گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے روانہ ہوں کہ اگر کسی کی کوئی چیز رہ گئی ہے تو اُس کو اُٹھاتے لائیں اوراس طرح کسی کا کوئی نقصان نہ ہونے پائے،صفوانؓ کو یہ خدمت اس لئے بھی سپرد کی گئی تھی کہ وہ کثیر النوم بھی تھے اور دیر میں سوتے ہوئے اُٹھتے تھے،حسب دستور صفوانؓ قیام گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے آئے اورانہوں نے ام المومنینؓ کو دیکھا تو متاسف وششدر رہ گئے،فوراً اپنے اونٹ سے اُترے،ام المومنینؓ کو اونٹ پر بٹھایا اوراس کی مہار پکڑ کر روانہ ہوئے اورلشکر سے جاملے،جب اپنے لشکر میں اس طرح پہنچے اورلوگوں کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ سب متاسف ہوئے لیکن منافقین کو بڑا اچھا موقع باتیں بنانے اوربہتان باندھنے کامل گیا،منافقوں نے طرح طرح کی باتیں کرکے لشکر میں ایک طوفان برپا کردیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت متردد اورخاموش تھے۔ غرض منافقوں نے اس مرتبہ شریکِ لشکر اسلام ہوکر مسلمانوں کو اپنی شرارتوں سے پریشان کرنے کا خوب موقع پایا،حضرت عائشہ صدیقہؓ پر منافقوں نے جو بہتان باندھا اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عائشہؓ قریباً ڈیڑھ ماہ اپنے والد کے یہاں رہیں اور مسلمانوں کو عام طور پر حضرت صدیقہؓ کی عصمت وعفت اورمظلومی کا یقین ہوگیا، ایک مہینے کے بعد خدائے تعالیٰ کی طرف سے اُن کی پاک دامنی وبے گناہی کا حکم نازل ہوا اورخدائے تعالیٰ نے صدیقہؓ کے صدیقہ ہونے کی گواہی دی، اس سے پیشتر ایک اورصدیقہ یعنی حضرت مریم صدیقہ پر بھی اسی قسم کا بہتان یہودیوں نے باندھا تھا،وہ بھی خائب وخاسر ہوئے اوراس صدیقہ پر بہتان باندھنے والوں کا انجام بھی خسران وہلاکت ہی ہوا۔ اس سفر میں منافقوں نے جو جو شرارتیں کیں،اُن کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوتا رہا،ابھی مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوئے تھے کہ ایک صحابی نے عبداللہ بن اُبی منافق کی بدکلامیوں کا ذکر کرکے اورگواہیاں گزران کر استدعا کی کہ اس منافق کے قتل کا حکم صادر فرمایا جائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن ابی چونکہ بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اس لئے اگر اس کو قتل کیا گیا تو لوگ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوستوں کو قتل کرنے لگے، عبداللہ بن ابی کا بیٹا سچا مسلمان تھا جن کا نام عبداللہ بن عبداللہ بن ابی تھا،عبداللہ بن عبداللہ کو جب معلوم ہوا کہ میراباپ کشتنی وگردن زنی ثابت ہوچکا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عبداللہ بن اُبی یعنی میرے باپ کےقتل کرنے کی خدمت میرے سپرد کی جائے تاکہ میں اُس کا سرکاٹ کر لاؤں اوریہ ثابت ہوجائے کہ اسلام باپ سے زیادہ قیمتی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں عبداللہ بن ابی کو قتل کرنا نہیں چاہتا؛یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے وقت عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے خود باپ کو مدینہ کے اندر داخل ہونے سے روک دیا اورکہا کہ تو منافق ہے اس لئے تجھ کو مدینہ میں داخل نہ ہونے دوں گا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے متعلق حکم دیا کہ اس کو مدینہ میں آنے دو۔