انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۷)حضرت امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) امام محمدبن ادریس الشافعیؒ کی پرورش انتہائی نامساعد حالات اور تنگدستی میں ہوئی، بسااوقات آپؒ کوعلمی یادداشتوں کوتحریر کرنے کے لیئے کاغذ بھی میسر نہ آتا تھا، آپؒ جانوروں کی ہڈیوں پر بھی لکھ لیتے تھے، تیرہ سال کی عمر میں امام مالکؒ کی خدمت میں پہنچے، مؤطا حفظ کرچکے تھے، دوسرے سال عراق چلے گئے، آپؒ کوپندرہ سال کی عمر میں آپؒ کے شیخ مسلم بن خالدؒ نے فتوےٰ نویسی کی اجازت دے دی تھی، علم حدیث وفقہ اور تفسیر وادب میں کمال حاصل کیا، امام نوویؒ نے شرح مہذب میں لکھا ہے کہ امام عبدالرحمن بن مہدیؒ کے فرمانے پر آپؒ نے اصولِ فقہ پر "الرسالہ" تحریر کیا، آپؒ کواصولِ فقہ کاموسس کہا جاتا ہے، فقہ میں آپؒ صرف صحیح احادیث کو لیتے اور ضعیف کو ترک کردیتے، آپؒ کی تصنیف کتاب الاُم اور الرسالہ آج بھی دستیاب ہیں۔ "وقال الزعفرانی کان اصحاب الحدیث رقودًا حتی ایقظھم الشافعی وقال ربیع بن سلیمان کان اصحاب الحدیث لایعرفون تفسیر الحدیث حتی جاء الشافعی"۔ (توالی التاسیس للحافظ ابنِ حجر :۵۹) ترجمہ:زعفرانی کہتے ہیں کہ اصحابِ حدیث محوِخواب تھے، امام شافعیؒ نے آکرانہیں بیدار کیا (یعنی معانی اور فقہ کی طرف متوجہ کیا) ربیع بن سلیمانؒ کہتے ہیں کہ اصحابِ حدیث تفسیر اور شرح سے واقف نہ تھے امام شافعیؒ نے آکر حدیث کے معانی سمجھائے۔ علامہ ذہبی آپ کی تعریف یوں کرتے ہیں: "الامام العالم، حبرالامۃ وناصرالسنۃ"۔ (تذکرہ:۱/۳۲۹) ترجمہ:اونچے درجہ کے امام، امت کے عالم اور سنت کے مددگار تھے۔ امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں اگرامام شافعیؒ نہ ہوتے تو میں حدیث کے ناسخ ومنسوخ کوہرگز نہ پہنچتا ان کی مجلس میں بیٹھنے سے مجھ کویہ سب کچھ حاصل ہوا (مشاہیرامت، ازقاری محمدطیب صاحب:۲۸) علماء کا آپ کی ثقاہت وعبادت اور نزاہت وامانت اور زہد وورع پر اتفاق ہے، حافظ ابنِ حجرؒ نے لکھا ہے کہ امام شافعیؒ جب بغداد تشریف لائے توامام احمد بن حنبلؒ نے اس حلقۂ درس کوچھوڑ دیا جس میں یحییٰ بن معینؒ اور اُن کے معاصرین شریک ہوتے تھے اور امام شافعیؒ کی صحبت اختیار کی؛ حتی کہ اگر امام شافعیؒ کہیں جاتے توامام احمدؒ اُن کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے، یحییٰ بن معینؒ کویہ ناگوار گزرا اور کہلا بھیجا کہ یہ طریقہ ترک کردیں، امام احمد بن حنبلؒ نے کہلا بھیجا کہ اگر فقہ (مفہومِ حدیث) سمجھنا چاہتے ہوتو امام شافعیؒ کی سواری کی دُم پکڑ کرچلو، آپؒ کے خادم بنو (توالی التاسیس،ابنِ حجر:۵۷) آپؒ فقہ وحدیث کے امام اور جلیل القدر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ سخی بھی تھے، بقول حمیدی آپ ایک مرتبہ صنعاء سے تشریف لائے، خیمہ مکہ سے باہر لگا ہوا تھا اور آپؒ کے پاس دس ہزار دینار تھے، لوگ آپ کی ملاقات کے لیئے آتے تھے توآپ اُن میں تقسیم فرماتے؛ یہاں تک کہ دس ہزار دینار اسی جگہ تقسیم کردیئے۔ (ترجمان السنۃ:۱/۲۴۶) شروع شروع میں تحقیقِ اسناد پر آپؒ کی توجہ زیادہ تھی، ان کے ہاں حدیث کی قبولیت کا معیار اس کی صحت سند تھا، استفاضہ عمل کوکچھ نہ سمجھتے تھے؛ لیکن آخری دور میں آپؒ بھی اِس طرف پلٹے، جوامام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کا نظریہ تھا کہ تواتر عمل کے ہوتے ہوئے اسناد کی ضرورت نہیں رہتی، بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں اُن کے پاس کوئی صحیح حدیث نہ تھی، آپؒ نے یہاں اہلِ مکہ کے عملی استفاضہ سے استدلال کیا، امام ترمذیؒ لکھتے ہیں: "وَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً"۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۷۳۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: اور امام شافعیؒ نے کہا اور اسی طرح پایا ہم نے شہر مکہ میں لوگوں کوبیس رکعت تراویح پڑھتے ہیں۔ اس فکری تبدیلی کے باعث بہت سے مسائل میں آپؒ کے دودو قول ملتے ہیں، قولِ قدیم اورقولِ جدید..... اور فقہاء شافعیہ میں اس کی بحث رہی ہے۔