انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتنہ خوارج حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب۱۳ ماہ صفر ۳۷ ھ کو میدانِ صفین سے کوفہ کی طرف واپسی کا قصد کیا تو کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ واپسی کا ارادہ فسخ کردیں اورشامیوں پر حملہ آور ہوں،حضرت علیؓ نے کہا کہ میں اقرار نامہ لکھنے کے بعد کیسے بد عہدی کرسکتا ہوں،اب ہم کو ماہ رمضان تک انتظار کرنا اورصلح کے بعد جنگ کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہئے یہ سُن کر وہ لوگ آپ کے پاس سے چلے گئے،لیکن الگ ہوکر اپنے ہم خیال لوگوں کو ترغیب دی کہ حضرت علیؓ سے جُدا ہوکر اپنی راہ الگ اختیار کرنی چاہئے؛چنانچہ حضرت علیؓ جب لشکر کوفہ لے کر روانہ ہوئے تو راستہ بھر لشکرِ علیؓ میں ایک ہنگامہ اورتُو تُو میں میں برپا تھی، کوئی کہتا تھا کہ پنچایت کا مقرر ہونا اچھا ہوا،کوئی کہتا تھا بُرا ہوا، کوئی کہتا تھا اس معاملہ میں پنچایت کا مقرر ہونا شرعاً جائز ہے،کوئی جواب دیتا تھا کہ خدائے تعالیٰ نے زوجین کے معاملہ میں حکمین کے تقرر کا حکم دیا ہے،کوئی کہتا کہ اس معاملہ کو زوجین کے معاملہ سے تشبیہ دینا غلط ہے،یہ ہم کو خود اپنی قوتِ بازو سے طے کرنا چاہئے تھا۔ کبھی کوئی یہ اعتراض کرتا تھا کہ حکمین کا عادل ہونا ضروری ہے،اگر وہ عادل نہیں ہیں تو اُن کوحکم کیوں تسلیم کیا،پھر کوئی کہتا تھا کہ حضرت علیؓ نے جنگ کے ملتوی کرنے اوراُشتر کے واپس بُلانے کا جو حُکم دیا وہ ناجائز تھا،اُس کو ہرگز نہیں ماننا چاہئے تھا،اس کے جواب میں دوسرا کہتا تھا کہ ہم نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے،اُن کا ہر ایک حکم ماننا ہمارا فرض ہے،یہ سن کر تیسرا فوراً بول اُٹھتا تھا کہ ہم ہرگز اُن کا کوئی نامناسب حکم نہ مانیں گے، ہم مختار ہیں،عقل وفہم رکھتے ہیں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے کافی ہے،اس کے سوا ہم اور کسی کی اطاعت کا جُو اپنی گردن پر نہیں رکھ سکتے،یہ سُن کر کچھ لوگ کہنے لگتے تھے کہ ہم ہر حالت میں علیؓ کے ساتھ ہیں اوران کی اطاعت کو فرض اور عین شریعت سمجھتے اوران کی نافرمانی کو کفر جانتے ہیں،یہ باتیں بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہر منزل پر آپس میں گالی گلوج اور مارپیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی،لشکر کی اس ابتر حالت کو اصلاح پر لانے اور لوگوں کو سمجھانے کی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہر چند کو کوشش فرماتے تھے مگر جلتی ہوئی آگ پر پھوس اور تیل ڈالنے والے لوگ بھی چونکہ لشکر میں موجود تھے لہذا حضرت علیؓ کی کوششیں حسب منشاء نتائج پیدا نہ کرسکیں، وہ لشکر جو کوفہ سے صفین تک جاتے ہوئے بالکل متفق اوریک دل نظر آتا تھا،اب صفین سے کوفہ کو واپس ہوتے ہوئے اُس کی عجیب و غریب حالت تھی،تشت وافتراق کا اُس میں ایک طوفان موج زن تھا اوراختلاف آراء نے مخالفت و عداوت کی شکل اختیار کرکے فوج کے ضبط ونظام کو بالکل درہم برہم کردیا تھا،بیسیوں گروہ تھے جو بالکل الگ الگ خیالات وعقائد کا اظہار کررہے تھے اور ایک دوسرے کو بُرا کہنے،طعن وتشنیع کرنے،چابک رسید کردینے اورشمشیر وخنجر کی زبان سے جواب دینے میں تامل نہ کرتے تھے۔ لیکن ان میں دو گروہ زیادہ اہمیت رکھتے اوراپنی تعداد اورجوش وخروش کے اعتبار سے خصوصی طور پر قابلِ توجہ تھے،ایک وہ جو حضرت علیؓ کو ملزم ٹھہراتے اوراُن کی اطاعت وفرمانبرداری کو مطلق ضروری نہیں سمجھتے تھے،اوردوسرے وہ جو پہلے گروہ کی ضد میں حضرت علیؓ کو معصوم عن الخطا کہتے اوراُن کی اطاعت وفرماں برداری کو خد ااور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری پر بھی ترجیح دینے کے لئے تیار تھے،پہلا گروہ خوارج اوردوسرا شیعان علیؓ کے نام سے مشہور ہوا،لطف کی بات یہ ہے کہ خوارج کے گروہ میں وہی لوگ امام اور لیڈر تھے،جنہوں نے حضرت علیؓ کو مجبور کیا تھا اورکہا تھا کہ جلدی اُشتر کو واپس بلائیے اور لڑائی کو ختم کیجئے ورنہ ہم آپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو عثمان غنیؓ کے ساتھ کیا تھا،حضرت علیؓ بار بار ان لوگوں کو یاد دلاتے تھے کہ تم ہی لوگوں نے میرے منشاء کے خلاف لڑائی کو بند کرایا صلح کو پسند کیا، اب تم ہی صلح کو ناپسند کرتے اور مجھ کو ملزم ٹھہراتے ہو،مگر ان کی اس بات کو کوئی نہیں سُنتا تھا، آخر نوبت بایں جارسید کہ کوفہ کے قریب پہنچ کر بارہ ہزار آدمی حضرت علیؓ کے لشکر سے جُدا ہوکر مقام حروراء کی طرف چل دئیے۔ یہ خوارج کا گروہ تھا اس نے حروراء میں جاکر قیام کیا اور وہاں عبداللہ بن الکواء کو اپنی نمازوں کا امام شیث بن ربعی کو سپہ سالار مقرر کیا، یہ وہی شیث بن ربعی ہیں جن کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے میدانِ صفین کے زمانہ قیام میں دو مرتبہ سفارتی وفد میں شامل کرکے امیر معاویہؓ کے پاس بھیجا تھا اور دونوں مرتبہ انہیں کی سخت کلامی امیر معاویہؓ سے ہوئی اوردونوں سفارتیں صلح کی کوشش میں ناکام رہیں،اس گروہ نے حروراء میں اپنا نظام درست کرکے اعلان کردیا کہ: بیعت صرف خدائے تعالی کی ہے،کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کے موافق نیک کاموں کے لئے حکم دینا،بُرے کاموں سے منع کرنا ہمارا فرض ہے،کوئی خلیفہ اورکوئی امیر نہیں ہے، فتح حاصل ہونے کے بعد سارے کام تمام مسلمانوں کے مشورے اورکثرت رائے سے انجام دیا جایا کریں گے،امیر معاویہؓ اورعلیؓ دونوں یکساں اورخطاکار ہیں۔ خوارج کی ان حرکات کا حال معلوم کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نہایت ضبط وتحمل اور درگذر سے کام لیا،کوفہ میں داخل ہوکر اول ان لوگوں کے اہل وعیال کو جو صفین میں مارے گئے تھے تسکین وتشفی دی اور کہا کہ جو لوگ میدانِ صفین میں مارے گئے ہیں وہ سب شہید ہوئے ہیں، پھر آپ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو خوارج کے پاس بھیجا کہ ان کو سمجھائیں اور راہِ راست پر لائیں، حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اُن کے لشکر گاہ میں پہنچ کر اُن کو سمجھانا چاہا، مگر وہ بحث ومباحثہ کے لئے بھی تیار تھے،انہوں نے عبداللہ بن عباسؓ کی باتوں کو رد کرنا شروع کیا۔ اس طرح عبداللہ بن عباسؓ سے اُن کا مباحثہ جاری تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی خود اُن کے لشکر گاہ میں تشریف لے گئے،اول آپ یزید بن قیس کے خیمے میں گئے کیونکہ یزید بن قیس کا اس گروہ پر زیادہ اثر تھا،حضرت علیؓ نے یزید کے خیمے میں داخل ہوکر دورکعت نماز پڑھی،پھر یزید بن قیس کو اصفہان ورے کا گور نر مقرر کیا،اُس کے بعد اس جلسہ میں تشریف لائے جہاں عبداللہ بن عباسؓ سے خوارج کا مباحثہ ہورہا تھا،آپ ؓ نے فرمایا: تم سب میں زیادہ سمجھ دار اور پیشوا کون ہے؟ انہوں نے کہا: عبداللہ بن الکوا،آپؓ نے عبداللہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی،بیعت کرنے کے بعد پھر اس سے خارج ہونے اورخروج کرنے کا سبب کیا ہے؟اس نے جواب دیا کہ آپ ؓ کے بے جا تحکم کی وجہ سے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری رائے لڑائی کے روکنے اوربند کرنے کی نہ تھی،مگر تم نے لڑائی کا بند کرنا ضروری سمجھا اورمجھ کو مجبوراً پنچایت کے فیصلے پر رضا مندی ظاہر کرنی پڑی،تاہم میں نے دونوں پنچوں سے عہد لے لیا ہے کہ قرآن مجید کے موافق فیصلہ کریں گے،اگر انہوں نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا تو کوئی نقصان نہیں اور اگر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا تو ہم اُس کو ہرگز قبول نہ کریں گے،خوارج نے یہ سُن کر کہا کہ یہ امیر معاویہؓ نے مسلمانوں کی خوں ریزی میں اقدام اوربغاوت کا ارتکاب کیا،اس میں حکم کا مقرر کرنا ہرگز عدل کی بات نہیں ہے، اس کے لئے قرآن میں صاف احکام موجود ہیں کہ وہ واجب القتل ہیں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ہم نے درحقیقت آدمیوں کو حکم نہیں بنایا،حکم تو قرآن مجید ہی ہے، آدمی قرآن مجید کے فیصلے کو سُنادیں گے،پھر خوارج نے اعتراض کیا کہ بھلا چھ مہینے کی طویل مہلت دینے کی کیا ضرورت تھی؟حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اس عرصہ میں ممکن ہے کہ مسلمانوں کا اختلاف خود بخود دُور ہوجائے،غرض اسی قسم کی باتیں دیر تک رہیں،خوارج کے ایک سردار کو حضرت علیؓ اصفہان اور رے کا حاکم مقرر فرماچکے تھے،ادھر عوام پر ان باتوں کا کچھ اثر ہوا خوارج خاموش ہوگئے، پھر حضرت علیؓ نے نرمی کے ساتھ ازراہِ شفقت فرمایا کہ چلو شہر کوفہ کے اندر چل کر قیام کرو، اس چھ مہینے کے عرصہ میں تمہاری سواری اوربار برداری کے جانور بھی موٹے تازے ہوجائیں گے،پھر اس کے بعد دشمن کے مقابلہ کو نکلیں گے، یہ سن کر وہ رضا مند ہوگئے اور حضرت علیؓ کے ساتھ روانہ ہوکر بصرہ میں داخل ہوئے اور پنچوں کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو حضرت علیؓ نے بصرہ کی طرف رخصت کردیا، کیونکہ وہ بصرہ کے گورنر تھے اور اُن کو اب بصرہ میں پہنچ کر وہاں کے انتظامات کو درست کرنا تھا۔