انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
اُردومیں خطبہ درست ہے؟ خطبہ جمعہ عربی ہی میں ہونا متوارث ومتواتر رہا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بلادِ عجم کوفتح کیا وہاں بھی خطبہ عربی ہی میں دیا ہے، تمام دُنیا میں یہی طریقہ چلا آیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا امام مالک کی شرح میں ایسا ہی لکھا ہے، زیادہ تفصیل آحکام النفائس میں ہے اور اُردو میں خطبہ مکروہِ تحریمی ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۴۰،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۵۲، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی) قرآنِ کریم میں خطبہ کوذکر اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے، ارشاد ہے: فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِاللہ (الجمعۃ:۹) ذکر اللہ میں اصل الفاظ وہ ہیں جومہبطِ وحی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے صادر ہوئے اور عربی زبان میں ہیں، اس لیے یہ خطبہ عربی ہی میں دیا جاتا ہے؛ یوں سمجھئے کہ یہ سرکاری زبان ہے، مخاطبین کی خاطر اس کوتبدیل نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ مخاطبین سے کہا جائے گا کہ وہ عربی زبان سیکھیں؛ اتنی رِعایت بھی کی جائے کہ خطبہ سے قبل یابعد نماز ان کی زبان میں خطبہ کے مضامین کوسمجھا دیا جائے اور دیگر ضروری اعتقادی، اخلاقی، عملی، معاشرتی اُمور کوبطورِ وعظ بیان کردیا جائے؛ اگرخطبہ سے پہلے یہ سلسلہ ہوتواذانِ خطبہ سے دس منٹ قبل وعظ ختم کرکے سنتوں کا موقع دیا جائے، عربی میں خطبہ کا ہونا شعار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، اس کوختم نہ کیا جائے؛ نیز غیرشعار کوبھی اس کے ساتھ مخلوط نہ کیا جائے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۴۶،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ رحیمیہ:۶/۱۳۶، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)