انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مسلح کشاکش کا آغاز قریش نے مہاجرین کو دھمکیاں دینی شروع کیں اور کہلا بھیجا کہ: تم مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے صاف بچ کر نکل آئے، ہم یثرب پہنچ کر تمھارا ستیاناس کردیتے ہیں۔ (رحمتہ اللعالمین) یہ صورت حال مدینہ کے مسلمانوں کے وجود کے لئے بڑی پر خطر ہوگئی تھی اس لئے کہ قریش ان کے استیصال کا تہیہ کر چکے تھے، مکہ میں مسلمانوں کا دشمن ایک ہی گروہ تھا یعنی مشرکین قریش؛ لیکن مدینہ میں تین گروہ ان کے حریف ہوگئے تھے (۱) ایک تو وہی مکہ کے پرانے دشمن قریش جو وطن سے بے وطن کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کا پیچھا چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے (۲)دوسرے مدینہ اور آس پاس کی بستیوں کے یہودی جنھوں نے اگر چہ کہ مسلمانوں سے دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا مگر ان کے دلوں میں دشمنی کی آگ سلگ رہی تھی (۳) تیسرے منافقین جو مسلمانوں کے لئے بغلی گھونسہ تھے، تاہم مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی زندگی میں بڑا فرق تھا، مدینہ کی آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا تھا ، مکہ اور دوسرے مقامات کے مسلمان بھی اس امن گاہ میں پناہ لینے کے لئے جمع ہو رہے تھے اس لئے مدینہ نے مرکز اسلام کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔ نبوت کے ابتدائی تیرہ سال مکہ میں اس طرح گزرے کہ مسلمانوں کو مارا گیا، پیٹاگیا اور جلتے ہوئے پتھروں پر ان کو لٹایاگیا ، ان کا سماجی و معاشی مقاطعہ کرکے پہاڑی کی گھاٹی میں قید کردیاگیا، خود حضور اکرمﷺ کو شہید کرنے کی سازش کی گئی اور جب حضوراکرم ﷺ بادل ناخواستہ مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیاگیا اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے انھوں نے کھلی اور چھپی ہر قسم کی تدبیریں شروع کردیں۔