انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عباس بن مرداسؓ نام ونسب عباس نام، ابو الفضل کنیت، نسب نامہ یہ ہے:عباس بن مرداس بن ابی عامر ابن حارثہ بن عبد بن عبس بن رفاعہ بن حارث بن حی بن حارث بن بہثہ بن منصور اسلمی،عباس اپنے قبیلہ کے سردار تھے۔ اسلام سے پہلے عباس کی فطرت ابتدا ہی سے سلیم واقع ہوئی تھی؛چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں بھی جب کہ سارے عرب میں بادہ وساغر کا دور چلتا تھا،ان کی زبان بادہ ٔ ناب کے ذائقہ سے آشنا نہ ہوئی لوگوں نے پوچھا شراب کیوں نہیں پیتے اس سے جرأت وقوت پیدا ہوتی ہے، کہا میں قوم کا سردار ہوکر بے عقل بننا نہیں پسند کرتا، خدا کی قسم میرے پیٹ میں کبھی وہ چیز نہیں جاسکتی جو عقل و خرد سے بیگانہ بنادے۔ (اسد الغابہ:۲/۱۰۳) اسلام عباس کے اسلام کا واقعہ غیبی تلقین کا ایک نمونہ ہے،ان کے والد ضمار نام ایک بت کی پرستش کرتے تھے،ان سے کہا تم بھی اسے پوجا کرو، یہ تمہارے نفع و نقصان کا مالک ہے؛چنانچہ باپ کے حکم کے مطابق یہ بھی ضمار کو پوجنے لگے، ایک دن دوران پرستش میں ایک منادی کی آواز سنی،جو ضمار کی بربادی اوررسول اللہ ﷺ کی نبوت کی منادی کررہی تھی، عباس سلیم الفطرت تھے،اتنا واقعہ تنبیہ کے لیے کافی تھا؛چنانچہ فورا پتھر کو آگ میں جھونک دیا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوگئے۔ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۲۵۳) غزوات اسلام لانے کے کچھ دنوں بعد اپنے قبیلہ کے نو سو مسلح آدمیوں کو لے کر آنحضرتﷺ کی امداد کے لیے آگئے پھر فتح مکہ کی مسرت میں انہوں نے ایک پر زور قصیدہ کہا۔ (سیرۃ ابن ہشام :۲/۲۵۳) فتحِ مکہ کے بعد حنین میں شریک ہوئے، آنحضرتﷺ نے حنین کے غنیمت میں سے سو اونٹ مرحمت فرمائے (اسد الغابہ:۳/۱۱۳) حنین کے بعد طائف اوراوطاس کے غزوات میں بھی ساتھ تھے،ہر جنگ کے خاتمہ پر پر زور قصائد کہتے تھے،ابن ہشام نے سیرۃ میں یہ قصائد نقل کئے ہیں، ان لڑائیوں کے علاوہ غزوات میں بھی شریک ہوئے،جنگ کے زمانہ میں آتے تھے اور اختتام جنگ کے بعد پھر لوٹ جاتے تھے۔ (ابن سعد:۴/۷۱۷) وفات ان کے زمانۂ وفات کی تعیین میں ارباب سیر خاموش ہیں، بصرہ کے صحرا میں قیام تھا اکثر شہر آیا جایا کرتے تھے۔ فضل وکمال فضل وکمال کے اعتبار سے کوئی لائقِ ذکر شخصیت نہیں رکھتے تھے،تاہم ان کی روایات سے حدیث کی کتابیں بالکل خالی نہیں ہیں، ان کے لڑکے کنانہ نے ان سے روایت کی ہے۔ (تہذیب الکمال:۱۹۰) شاعری میں البتہ ممتاز حیثیت رکھتے تھے،غزوات کے سلسلہ میں بڑے پر زور قصائد لکھتے تھے ان کی شاعری میں جوشِ شجاعت کے ساتھ نور ہدایت کی بھی جھلک ہوتی تھی،اشعارِ ذیل میں اس کا ثبوت ہیں: یا خاتم النباء انک مرسل بالحق کل ھدی البیعل ھداک اے خاتم المخبرین!تم حق کے ساتھ بھیجے گئے ہو اورخدا نے تم کو ہدایت کے تمام راستوں کی راہ دکھادی ہے۔ ان الا لہ بنی علیک مجۃ فی خلقہ ومحمدا اسماکا خدا نے تم کو اپنی مخلوق کی محبت کی بنیاد قرار دیا ہے، اورتمہارا نام محمد رکھا ہے۔