انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۱۰)جوکتابیں اپنے موضوع سے موسوم ہوئیں ابنِ سلام (۲۲۴ھ) کی کتاب الاموال..... امام احمد (۲۴۱ھ) کی کتاب الزہد..... امام بخاریؒ (۲۵۶ھ) کی جزء القرأۃ اور جزء رفع الیدین..... امام ابوداؤد (۲۷۵ھ) کی مراسیل..... ابنِ قتیبہ (۲۷۶ھ) کی کتاب تاویل مختلف الحدیث..... امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کی شمائل..... امام نسائی (۳۰۳ھ) کی مناقب علی، کتاب السنہ لابی بکر الخلال البغدادی (۳۱۱ھ)..... مشکل الآثار امام طحاوی (۳۲۱ھ)..... عمل الیوم واللیلۃ للحافظ ابی بکر احمد بن اسحاق المعروف بابن السنی (۳۶۳ھ)..... کتاب الیقین للحافظ ابن ابی الدنیا (۲۸۱ھ)، کتاب السنہ لابن حبان (۳۶۹ھ)، کتاب الاسخیاء للدارقطنی (۳۸۵ھ)، کتاب السنہ لابن مندہ العبدی (۳۹۴ھ)، امام بیہقیؒ (۴۵۸ھ) کی کتاب الاسماء والصفات اور شعب الایمان اس نوع کی اہم کتابیں ہیں۔ ملحوظ رہے کہ کئی محدثین نے مختلف اصناف پر حدیثیں جمع کی ہیں، اس لیئے ان کے نام اگرمختلف انواع کتب کے تحت بار بار آئیں توتعجب نہ ہونا چاہیے؛ پھرایسا بھی ہے کہ ایک کتاب مختلف اعتبارات سے مختلف ناموں سے موسوم ہو، جیسے صحیح بخاری اس نام سے بھی معروف ہے اور اسے جامع بخاری بھی کہا جاتا ہے، جامع ترمذی سنن ترمذی کے نام سے بھی معروف ہے، ہم نے ان انواعِ کتب میں چند معروف کتابوں کا ذکر کرکے اِن مختلف اقسامِ تالیف کا ایک مختصر اور اجمالی تعارف کرادیا ہے۔ یہ صحیح نہیں کہ یہ کتابیں ان اقسام کے اصولی ناموں کے خلاف اب دوسرے ناموں سے موسوم کی جانے لگی ہیں، جیسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے ناموں سے مثال لے کر کئی نادان سنن دارِقطنی، سنن بیہقی کو صحیح دارِ قطنی اور صحیح بیہقی کہنے لگے ہیں یاکوئی شخص سنن نسائی اور سنن ابنِ ماجہ کومسندنسائی اور معجم ابنِ ماجہ کہنے لگے، اس فن کوجاننے والے کبھی ایسی بات نہیں کرتے، مرزا غلام احمد قادیانی نے سنن دارِقطنی کوکئی جگہ صحیح دارِقطنی لکھا ہے، یہ مرزا صاحب کی فنِ حدیث میں علمی قابلیت کاایک جلی نمونہ ہے۔ کتبِ حدیث کی مختلف قسموں کاذکر یہاں ضمنا آیا ہے، ان مختلف ناموں کی تفصیل اس لیئے ضروری تھی کہ مختلف محدثین کے ناموں کے ساتھ ان کے جمع کردہ ذخیرہ حدیث کا اُصولی نام سامنے آجائے، یہ تفصیل اسی لیے کی گئی ہے، اصل موضوع کلام متونِ حدیث کا تعارف ہے، اب تک ہم پچپن کتبِ حدیث کا ذکر کرچکے ہیں، دس کتابیں پہلے دور کی اور پندرہ اس سنہری دور کی جس میں فن تالیف حدیث اپنے کمال کو پہنچ چکا تھا، اس دور کا آغاز امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ جیسے ائمہ فن سے ہوتا ہے، امام نسائیؒ (۳۰۳ھ) کے بعد صحتِ اسناد کی محنت پھرکمزور پڑگئی تھی، صحاحِ ستہ کا نام چھ کتابوں تک محدود ہوکر رہ گیا؛ تاہم اس سے انکار نہیں کہ بعد کے آنے والے ائمہ حدیث نے بھی وہ گرانقدر ضخیم مجموع ہائے حدیث مرتب کئے کہ ان کے اعتبارات ومتابعات اور شواہد وزوائد فن کی تحقیق وتنقیح میں مزید نکھار کاموجب ہوئے ہیں اور ان میں کئی ایسی صحاح (صحیح حدیثیں) بھی آگئیں جوپہلے مجموعوں میں نہ تھیں، ان کتابوں کی تالیف سے سلسلۂ تالیفِ حدیث مکمل ہوا، آئندہ کے لیئے صرف یہ محنت باقی رہی کہ ان کتابوں کی مدد سے استخراج اور انتخاب کا سلسلہ آگے چلے۔ محدثِ کبیر حضرت مولانا خیر محمدصاحب جالندھری نے اصولِ حدیث پرایک مختصر رسالہ خیرالاصول کے نام سے لکھا ہے، اس میں آپ نے کتبِ حدیث کی تقسیم اس طرح کی ہے کہ حدیث کی کتابیں وضع وترتیب مسائل کے اعتبار سے نوقسم پر ہیں: