انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بدعہدی اورشرارت(ہجرت کا چوتھا سال) یکم محرم ۴ ھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خبر پہنچی کہ مقام قطن میں قبیلۂ بنی اسد کے بہت سے مفسد جمع ہوگئے ہیں اور مسلمانوں پر حملہ کا قصد رکھتے ہیں،طلحہ بن خویلد اورسلمہ بن خویلد اُن کے سردار ہیں، اس خبر کو سُن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ مخزومی کو ڈیڑھ سو مسلمانوں کی جمعیت کے ساتھ روانہ کیا کہ ان شریروں کی گوشمالی کریں،جب سلمہؓ قطن پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمن مسلمانوں کے آنے کی خبر سُن کر پہلے ہی فرار ہوگیا،دشمن کے کچھ مویشی مسلمانوں کے ہاتھ آئے،اُن کو لے کر ابو سلمہؓ مدینہ واپس آئے وادی عرفات کے قریب عرفہ ایک مقام ہے وہاں سفیان بن خالد ہذلی ایک سخت کافر رہتا تھا،اس نے کفار کو جمع کرنے اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں شروع کیں،اس کی ان تیاریوں کی خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہ تواتر پہنچنی شروع ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۵ محرم ۴ھ کو سفیان بن خالد ہذلی کی جانب عبداللہ بن انیسؓ کو روانہ کیا، عبداللہ بن انیس دن کو چھپتے،رات کو چلتے ہوئے ہوئے مقام عرفہ پہنچے،وہاں پہنچ کر کسی ترکیب سے اس کا سرکاٹ لیا اوروہ سر لے کر صاف بچ کر نکل آئے،اٹھارہ دن کے بعد ۲۳ محرم ۴ ھ کو مدینہ پہنچے اوروہ سرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاؤں میں ڈال دیا،ماہِ صفر ۴ھ میں قریشِ مکہ نے عضل وقارہ(برادر بنو اسد) کے ساتھ آدمیوں کو براہ فریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا،انہوں نے مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری ساری قوم نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ سکھلانے والے معلمین بھیج دیجئے کہ وہ ہم کو اسلام سکھائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کرامؓ میں سے دس اوربقول ابن خلدون چھ آدمیوں کو ہمراہ کردیا،مرثد بن ابی مرثد غنوی یا عاصم بن ثابت بن ابی الافلح کو اس بزرگ جماعت کا سردار مقرر فرمایا، جب یہ لوگ سفر کرتے ہوئے قبیلہ ہذیل کے ایک تالاب موسومہ رجیع پر پہنچے تو ان غداروں نے قبیلہ ہذیل کے دو سو نوجوانوں کو بلا لیا،یہ قبیلہ بھی پہلے ہی سے شریک سازش تھا، مسلمانوں نے جب اپنے آپ کو کفار کے گروہ میں محصور پایا تو وہ فوراً جرأت کرکے قریب کی پہاڑی پر چڑھ گئے اوران کا مقابلہ شروع کیا،کفار نے ان دس آدمیوں کو آسانی سے گرفتار کرنا دشوار سمجھ کر دھوکے سے کام لینا چاہا اورکہا کہ ہم تو صرف تم کو آزماتے تھے کہ اگر اہل مکہ نے مقابلہ کیا تو تم ان کے مقابلے میں ٹھہرسکو گے یا نہیں،مسلمانوں نے ان کے قول وقرار پر اعتبار نہ کیا، بالآخر مسلمانوں کے دو آدمیوں کو وہ زندہ گرفتار کرسکے، باقی کفار سے لڑکر شہید ہوگئے۔ ان دونوں گرفتار ہونے والے بزرگوں کے نام خبیبؓ بن عدی اور زید بن الدشنہؓ تھے ان دونوں کو وہ مکہ میں لے گئے،قریش نے گرفتار کرنے والوں کو کافی صلہ دے کر دونوں کو حارث بن عامر کے گھر میں چند روز بھوکا پیاسا قید رکھا،ایک روز حارث کا چھوٹا سابچہ چھری لئے ہوئے کھیلتا ہوا حضرت خبیبؓ کے پاس پہنچ گیا، انہوں نے بچہ کو اپنے زانو پر بٹھا لیا اورچھری لے کر الگ رکھ دی،بچے کی ماں نے جب دیکھا کہ بچہ قیدی کے پاس پہنچ گیا ہے اورتیز چھری بھی وہیں موجود ہے تو وہ بے اختیار چیخ مار کر رونے لگی،حضرت خبیبؓ نے فرمایا کہ میں تمہارے بچے کو ہر گز قتل نہ کرونگا تم مطمئن رہو،چند روز کے بعد حضرت زیدؓ کو صفوان بن امیہ نے لے لیا اوراپنے باپ کے (جو بدر میں مقتول ہوا تھا)خون کا عوض لینے کے لئے اپنے غلام نسطاس کے سپرد کیا،کہ حدودِ حرم سے باہر لے جا کر قتل کرے،وہ حضرت زید کو باہر لے گیا،قریش اوراہلِ مکہ اس قتل کا تماشہ دیکھنے کے لئےگروہ درگروہ آ آ کر جمع ہوگئے،تماشائیوں میں سے ابو سفیان نے آگے بڑھ کر کہا کہ زیدؓ اب تم بھوکے پیاسے قتل ہوتے ہو کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اس وقت تم اپنے اہل وعیال میں آرام سے ہوتے اورہم بجائے تمہارے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کی (نعوذ باللہ)گردن مارتے، زید نے نہایت سختی وبہادری سے جواب دیا کہ واللہ ہم ہرگز پسند نہ کریں گے کہ ہم اپنے اہل وعیال میں ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کانٹا بھی چُبھے ابو سفیان نے کہا:واللہ میں نے آج تک کوئی کسی کا دوست ایسا نہیں دیکھا جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست ہیں، اس کے بعد حضر ت زید ؓ کو شہید کردیا گیا، حضرت خبیبؓ کو حجیر بن ابی اباب نے لے لیا تھا۔ حضرت زیدؓ کے بعد حضرت خبیبؓ قتل گاہ میں لائے گئے تو انہوں نے دورکعت نماز پڑھنے کی اجازت چاہی اور یہ اجازت مل گئی،انہوں نے وضو کیا اوردورکعت نماز پڑھی،بعد نماز انہوں نے مشرکین سے کہا کہ میں نماز کو بہت طویل کرنا چاہتا تھا مگر محض اس خیال سے کہ تم یہ نہ کہو کہ قتل سے ڈرتا ہے اور ڈر کر نماز کے بہانے دیر لگاتا ہے،میں نے نماز جلدی جلدی پڑھ لی ہے،مشرکوں نے حضرت خبیبؓ کو سولی پر لٹکادیا اورہر طرف سے نیزے لے لے کر ان کے جسم کو کچوکے دینا اور چھیدنا شروع کیا تاآنکہ اسی طرح زخم دار ہوتے ہوتے ان کی روح قالب سے پرواز کر گئی،حضرت خبیبؓ نے جس بہادری کے ساتھ جان دی ہے اس کی مثالیں تاریخ عالم میں کہیں دستیاب نہیں ہوسکتیں۔