انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امیر معاویہ کے ادعائے خلافت کے اسباب گو امیر معاویہؓ حضرت علیؓ کو اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے لیکن وہ نہایت مدبر اورہوشمند تھے اوراپنے اورحضرت علیؓ کے رتبہ کا فرق پورے طور پر سمجھتے اس لئے ان کے مقابلہ میں وہ اپنی خلافت کا تصور بھی دل میں نہ لاسکتے تھے،لیکن اس کے ساتھ ان کی حکومت پسندی اپنی معزولی بھی گوارا نہیں کرسکتے تھی،اگر حضرت علیؓ انہیں بدستور ان کے عہدہ پر قائم رہنے دیتے تو غالباً کوئی ناگوار صورت پیش نہ آتی مگر معاویہؓ کی معزولی نے اُن کو جناب امیر کا مخالف بنادیا، جہاں تک واقعات سے اندازہ ہوتا ہےاس وقت تک امیر معاویہؓ کے دل میں خلافت کے دعویٰ کا کوئی خیال نہ پیدا ہوا تھا؛بلکہ وہ حضرت علیؓ کی مخالفت سے صرف اپنے عہدہ کی بحالی چاہتے تھے،لیکن حضرت علیؓ اس کے لئے بالکل آمادہ نہ تھے،امیر معاویہ کی خوش قسمتی سے حضرت عثمانؓ کے قاتل یا کم از کم وہ لوگ جن پر حضرت عثمانؓ کے شہید کرنے کا قوی شبہ تھا ،حضرت علیؓ کی لاعلمی میں کیونکہ اس وقت کوئی قاتل معین نہ تھا آپ کے ساتھ ہوگئے۔ اس وقت بحیثیت خلیفہ کے قاتلین عثمانؓ کا پتہ چلانا اوران سے قصاص لینا حضرت علیؓ کا فرض تھا؛ لیکن مسند خلافت پر قدم رکھتے ہی آپ ایسے جھگڑوں میں مبتلا ہوگئے کہ قاتلین کا پتہ چلانا کیا معنی نظام خلافت کا سنبھالنا مشکل تھا اورقاتلوں کی تلاش کے لئے سکون واطمینان کی ضرورت تھی لیکن عوام اس مجبوری کو نہیں سمجھ سکتے تھے اوروہ صرف حضرت عثمانؓ کے خون کا قصاص چاہتے تھے اس لئے امیر معاویہؓ کو ان کے خلاف پروپیگنڈے کا پورا موقع مل گیا۔ خلیفہ مظلوم کے بیدردی کے ساتھ شہید کئے جانے اور قاتلین کے کھلے بندوں پھرنے کا واقعہ ایسا تھا کہ حضرت علیؓ کے مخالفین کیا بہت سے غیر جانبدار مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا ہوگئے تھے؛چنانچہ مصر کے ایک مقام خر بنا میں ایک جماعت حضرت علیؓ کے خلاف ہوگئی اورجب قیس بن سعد نے ان سے حضرت علیؓ کی بیعت لینے کی کوشش کی تو ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے تاثر کی وجہ سے بیعت نہیں کی اوراس کے قصاص کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ امیر معاویہؓ کو کچھ لوگ ایسے مل گئے جنہوں نے ان کو حضرت علیؓ کے خلاف ابھارنا شروع کیا کہ تم کو علیؓ کے خلاف اٹھنا چاہیے کیوں کہ جو قوت تم کو حاصل ہے وہ علیؓ کو نصیب نہیں تمہارے ساتھ ایسی فرمانبردار جماعت ہے کہ جب آپ خاموش ہوتے ہیں تو وہ بھی کچھ نہیں بولتی اورجب تم کچھ کہنا چاہتے ہو تو وہ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتی ہے اور جو حکم دیتے ہو اس کو بے چوں وچراں مان لیتی ہے اور علیؓ کے ساتھ جو گروہ ہے وہ اس کے برعکس ہے اس لئے تمہاری تھوڑی جماعت بھی ان کی بڑی جماعت پر بھاری ہے۔ غرض ان مواقع اوران تائیدوں نے امیر معاویہؓ کو حضرت علیؓ کا پورا مخالف بنادیا، لیکن حضرت علیؓ جیسے شخص کا مقابلہ ان کے لئے آسان نہ تھا وہ اس کی دشواریوں کو پوری طرح سمجھتے تھے، اس کے لئے دہاۃِ عرب کو ساتھ ملانے کی ضرورت تھی اس وقت عرب میں معاویہؓ کے علاوہ مغیرہ بن شعبہ اور عمرو بن العاصؓ صاحب تدبیر وسیاست مانے جاتے تھے ،مغیرہ بن شعبہ پہلے ہی مل چکے تھے،عمروبن العاص باقی تھے یہ اس وقت فلسطین میں تھے، امیر معاویہؓ نے انہیں بلا کر اپنی مشکلات بیان کیں کہ محمد بن حنفیہ قید خانہ توڑکر نکل گئے ہیں،قیصر روم الگ حملہ پر آمادہ ہے اورسب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ علیؓ نے بیعت کا مطالبہ کیا ہے اورانکار کی صورت میں جنگ پر آمادہ ہیں، انہوں نے مشورہ دیا کہ محمد بن حنفیہ کا تعاقب کراؤ، اگر مل جائیں تو فبہا ورنہ کوئی حرج نہیں ،قیصر روم کے قیدی چھوڑ کر اس سے مصالحت کرلو، علیؓ کا معاملہ البتہ بہت اہم ہے،مسلمان کبھی تم کو ان کے برابر نہیں سمجھ سکتے، معاویہؓ نے کہا وہ عثمانؓ کے قتل میں معاون تھے، امت اسلامیہ میں پھوٹ ڈال کر فتنہ پیدا کیا، عمروبن العاصؓ نے کہا ؛لیکن تمہیں سبقت اسلام اورقرابت نبوی کا شرف حاصل نہیں ہے اور میں خواہ مخواہ تمہاری کامیابی کے لئے کیوں مدد کروں، معاویہؓ نے کہا مصر تو کسی طرح عراق سے کم نہیں، عمروبن العاصؓ نے کہا لیکن مصر کا مطالبہ اس وقت ہے جب تم علیؓ کو مغلوب کرچکو گے اور تمام دنیائے اسلام تمہارے زیر نگیں ہوگی، امیر معاویہؓ کو ان کی خدمات کی بڑی ضرورت تھی اس لئے اس گفتگو کے دوسرے دن مصر دینے کا تحریری وعدہ کرکے عمرو بن العاصؓ کو ملا لیا ۔ (یعقوبی :۲/۲۱۷)