انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حطم بن جنیعہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت علاء بن الحضرمی کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک لشکر کا سردار بناکر بحرین کی طرف روانہ کیا تھا بحرین میں بنو عبدالقیس بنو بکر بن وائل معہ اپنی شاخوں کے زبردست قبائل تھے یہ بھی پڑھ چکے ہو کہ جارود بن المعلیؓ اپنے قبیلہ عبدالقیس کی طرف سے وفد ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سُن کر قبیلۂ عبدالقیس کے لوگ یہ کہہ کر مرتد ہوگئے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہوتے تو کبھی نہ مرتے حضرت جارود بن المعلیؓ نے اپنی قوم کو ایک جگہ جمع کیا اورکہا کہ مجھ کو تم سے ایک بات دریافت کرنا ہے ،جو جانتا ہو وہ بتائے جو نہ جانتا ہو وہ خاموش رہے،انہوں نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے دریافت کیا کہ تم یہ بتاؤ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی دنیا میں نبی آئے ہیں یا نہیں؟ سب نے کہا آئے ہیں پھر انہوں نے پوچھا کہ وہ سب عام انسانوں کی طرح اپنی زندگی پوری کرکے فوت ہوگئے یا نہیں؟ سب نے کہا کہ وہ اپنی زندگی پوری کرکے فوت ہوگئے،حضرت جارودؓ نے کہا کہ بس اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا زمانہ حیات پورا کرکے فوت ہوگئے،یہ کہہ کر انہوں نے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد ا عبدہ ورسولہ قبیلہ عبدالقیس کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اُسی وقت توبہ کی اوراسلام پر قائم ہوگئے۔ قبیلۂ عبدالقیس توحضرت جارود بن المعلیؓ کی بروقت کوشش سے اس طرح بچ گیا لیکن قبیلۂ بنو بکر بن وائل نے مرتد ہوکر حطم کو اپنا سردار بنایا،حطم بنوبکر کی جمعیت کثیرہ لے کر نکلا اورمقام عطیف وہجر کے درمیان ڈیرے ڈال دیئے اورکچھ آدمیوں کو قبیلہ عبدالقیس کی طرف بھیجا کہ اُن کو مرتد بناکر لائیں؛ لیکن عبدالقیس نے صاف طور پر مرتد ہونے سے انکار کردیا اور وہ لوگ ناکام ونامراد واپس آئے، اس کے بعد حطم نے مغرور بن سوید کو ایک جمعیت دے کر ارد گرد کے مسلمان لوگوں کو مرتد بنانے یا ان سے لڑنے کے لئے بھیجا اسی حالت میں حضرت علاء بن الحضرمی اپنا لشکر لئے ہوئے بحرین میں داخل ہوئے انہوں نے حضرت جارود بن المعلی کے پاس جو مقام دارین میں تشریف رکھتے تھے حکم بھیجا کہ بنو عبدالقیس کو ہمراہ لے کر حطم پر حملہ کرو،اس حکم کے پہنچتے ہی اوراس خبر کے مشہور ہوتے ہی ارد گرد کے تمام مسلمان علاء بن الحضرمی کے پاس آ آ کر جمع ہوگئے اور جس قدر مرتدین ومنکرین اس علاقے میں تھے وہ سب حطم کے لشکر میں آ آ کر شامل ہوگئے ،حضرت علاء بن الحضرمی اپنا لشکر لئے ہوئے آگے بڑھے اور حطم کی لشکر گاہ کے قریب پہنچ کر خیمہ زن ہوئے انہوں نے دیکھا کہ حطم نے اپنی لشکر گاہ کے گرد ایک خندق کھدوالی ہے،آخر دونوں لشکروں میں لڑائی شروع ہوئی،ایک مہینے تک طرفین سے لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،کوئی ایک دوسرے پر فتح یاب نہ ہوا،جب پورا ایک مہینہ اسی حالت میں گذر گیا تو حضرت علاء بن الحضرمی نے غازیانِ اسلام کو لے کر ایک زبردست حملہ کیا اور بہادرانِ اسلام خندق کو عبور کرکے لشکر گاہ کفار میں داخل ہوگئے،قیس بن عاصم کے ہاتھ سے حطم مارا گیا بہت مرتدین ہلاک ہوئے باقی بھاگ نکلے، بھاگے ہوؤں کا تعاقب ہوا اور بالآخر رفتہ رفتہ سب اسلام کی طرف لوٹ آئے،مذکورہ بالا جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ بہت سا مالِ غنیمت آیا جس سے لشکر اسلام کی حالت خوب درست ہوگئی۔