انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح عموریہ اور جنگ روم بابک حرمی جب اسلامی لشکر کے محاصرہ میں آکر بہت تنگ اور مجبور ہوا تواس نے ایک خط نوفل بن میکائیل قیصرِروم کے نام روانہ کیا، اس میں لکھا کہ معتصم نے اپنی تمام وکمال فوجیں میرے مقابلہ پرروانہ کردی ہیں، بغداد وسامرہ اور تمام صوبے اس وقت فوجوں سے خالی ہیں اور تمام سردارانِ لشکر میرے مقابلہ پرمصروف پیکار ہیں، آپ کواس سے بہتر کوئی دوسرا موقع نہیں مل سکتا، آپ اس موقع کوہاتھ سے جانے نہ دیں اور اسلامی علاقہ کوفتح کرتے ہوئے بغداد تک چلے جائیں، بابک کا مدعا یہ تھا کہ اگرقیصرِروم نے حملہ کردیا تواسلامی فوج کے دوطرف تقسیم ہونے سے میرے اوپر کا دباؤ کم ہوجائے گا، قیصر اس خط کوپڑھ کرایک لاکھ فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا؛ مگراس وقت بابک کی جنگ کا خاتمہ ہوچکا تھا اور اسلامی لشکر پوری طاقت سے اس کے سدراہ ہوسکتا تھا؛ چنانچہ نوفل نے سب سے پہلے زبطرہ پرشب خون مارا اور وہاں کے مردوں کوجومقابلہ پرآئے، قتل کرڈالا اور عورتوں، بچوں کوگرفتار کرکے لے گیا، اس کے بعد ملطیہ کی طرف متوجہ ہوا اور وہاں بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا۔ معتصم کے پاس ۲۹/ربیع الثانی سنہ۲۲۳ھ کوزبطرہ اور ملطیہ کے مفتوح وبرباد ہونے کی خبر پہنچی، اس خبر کوبیان کرنے والے نے یہ بھی کہا کہ ایک ہاشمیہ عورت کورومی کشاں کشاں لیے جاتے تھے اور وہ معتصم، معتصم پکارتی جاتی تھی، یہ سنتے ہی معتصم لبیک، لبیک کہتا ہوا تختِ خلافت سے اُٹھ کھڑا ہوا اور فوراً گھوڑے پرسوار ہوکر کوچ کا نقارہ بجوادیا، لشکر اور سردارانِ لشکر اور مجاہدین کا ایک کثیر گروہ معتصم کے ہمرکاب تھا، معتصم نے عجیف بن عنبسہ اور عمرفرخانی کوتیز روسواروں کے دستے دے کرآگے روانہ کردیا کہ جس قدر جلد ممکن ہو، زبطرہ پہنچ کروہاں کے لوگوں کواطمینان دلائیں اور رومیوں کوماربھگائیں، یہ دونوں سردار زبطرہ میں پہنچے تورومی ان کے پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہوچکے تھے۔ ان کے بعد خلیفہ معتصم بھی مع لشکر پہنچ گیا، وہاں خلیفہ نے معلوم کیا کہ رومیوں کا سب سے زیادہ مشہور ومضبوط اور اہم شہر کون سا ہے؟ وہاں لوگوں نے کہا کہ آج کل شہر عموریہ سے زیادہ مضبوط ومستحکم قلعہ وشہر دوسرا نہیں اور وہ اس لیے بھی زیادہ اہم شہر ہے کہ قیصرِ روم نوفل کی جائے پیدائش ہے، معتصم نے کہا کہ زبطرہ میری جائے پیدائش ہے، اس کوقیصر نے غارت کیا ہے تومیں اس کے جواب میں اس کی جائے پیدائش یعنی عموریہ کوبرباد کردوں گا؛ چنانچہ اس نے اس قدرآلاتِ جنگ اور سامانِ حرب فراہم کیا کہ اس سے پہلے کبھی فراہم نہ ہوا تھا؛ پھراس نے مقدمۃ الجیش کی افسری اشناس کودی، محمد بن ابراہیم بن مصعب کواس کا کمکی مقرر کیا، میمنہ پرایتاخ کواور میسرہ پرجعفر بن دینار خیاط کومقرر کیا، قلب کی افسری عجیف بن عنبسہ کودی، اس انتظام کے بعد بلادِ روم میں داخل ہوا، ان تمام افواج کی اعلیٰ سپہ سالاری عجیف بن عنبسہ کوسپرد کی، مقام سلوقیہ پہنچ کرنہرس کے کنارے ڈیرے ڈال دیے، یہ مقام طرطوس سے ایک دن کی مسافت کے فاصلہ پرتھا، یہاں یہ بات بھی ذکر کرنے کے قابل ہے کہ خلیفہ معتصم باللہ نے افشین کوآرمینیا وآذربائیجان کا گورنر بناکر آرمینیا کی جانب بھیج دیا تھا، افشین آرمینیا سے اپنا لشکر لے کر بلادِ روم میں داخل ہوا، لشکر اسلام کے ایک دستے نے آگے بڑھ کر مقام انگورہ کوفتح کیا اور وہاں سے غَہ کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے ہاتھ آیا، جس کی مسلمانوں کوسخت ضرورت تھی، قیصرِروم نے لشکر اسلام کے آنے کی خبر سن کرمقام انگورہ پرہی مقابلہ کرنا چاہتا تھا اور یہیں ہرقسم کا سامان وغلہ فراہم تھا؛ لیکن یہاں کی متعینہ فوج میں اس کے افسر میں اتفاقاً ناچاقی ہوئی اور فوج ناراض ہوکر پیچھے واپس چلی گئی، اس عرصہ میں قیصر خود سرحد آرمینیا کی طرف افشین کوروکنے کے لیے گیا ہوا تھا، وہاں سے شکست کھاکر انگورہ کی طرف لوٹا تویہاں مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا تھا، اس حالت میں وہ مجبوراً عموریہ کی طرف متوجہ ہوا اور وہیں ہرقسم کی تیاری اور معرکہ آرائی کا سامان فراہم کیا، چاروں طرف سے فوجوں کوفراہم کرکے ہرقسم کے آلات حروب وسامانِ جنگ کی فراہمی میں مصروف ہوگیا، ادھر خلیفہ معتصم نے انگورہ یں قیام کرکے افشین کاانتظار کیا، یہیں افشین نے حاضر ہوکر ہمرکابی کا فخر حاصل کیا۔ ماہِ شعبان سنہ۲۲۳ھ کی آخری تاریخوں میں خلیفہ معتصم نے مع فوج مقام انگورہ سے کوچ کیا؛ یہاں سے بہ قصد جنگ روانہ ہوا توافشین کومیمنہ پر، اشناس کومیسرہ پر مامور کیا اور خود قلب میں رہا؛ غرض لشکر اسلام نے آگے بڑھ کرشہرعموریہ کا محاصرہ کرلیا اور مورچے قائم کرکے ساباط اور دبابوں کے ذریعہ سے فصیل کی طرف بڑھنا شروع کیا؛ غرض ۶/رمضان سنہ۲۲۳ھ سے آخرشوال سنہ۲۲۳ھ تک یعنی ۵۵/روز عموریہ کا محاصرہ رہا؛ بالآخر مسلمانوں نے عموریہ کوفتح کرکے وہاں کے لوگوں کوگرفتار وقتل کیا، مالِ غ۔یمت کومعتصم نے پانچ روز تک فروخت کرایا؛ پھرجوباقی بچا، سب کوجلادیا؛ پھرفوج کوحکم دیا کہ عموریہ کومسمار کرکے زمین کے برابر کردو؛ چنانچہ فوج نے اس کام کوانجام دے کرعموریہ کوبرباد کردیا، قیصر نوفل بھاگ کرقسطنطنیہ چلا گیا اور خلیفہ معتصم نے قیدیوں کواپنے سپہ سالاروں میں تقسیم کرکے طرطوس کی جانب کوچ کیا۔