انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۱۰)حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؓ (۷۸ھ) سترانصاریؓ جوبیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے آپؓ اُن میں سے تھے، حافظ ذہبیؒ نے انہیں فقیہ اور مفتی مدینہ کے نام سے ذکر کیا ہے اور لکھا ہے: "حمل عن النبیﷺ علماً کثیراً نافعاً"۔ (تذکرۃ:۱/۳۸) ترجمہ: آپؓ نے آنحضرتﷺ سے بہت سانافع علم پایا۔ حدیث کے اتنے شیدائی تھے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن انیسؓ کے بارے میں سنا کہ اُن کے پاس ایک حدیث ہے جوانہوں (عبداللہ بن انیسؓ) نے خود حضورﷺ سے سنی ہے وہ اُن دنوں ملکِ شام میں مقیم تھے، اس پر آپؓ نے ایک اُونٹ خریدا اور اس پر ایک ماہ تک سفر کرتے کرتے، ملک شام پہنچے، پیغام بھیجا کہ جابرؓ دروازے پر کھڑا ہے؛ انہوں نے پوچھا: جابر بن عبداللہ ہیں؟ فوراً باہر آئے، حضرت جابرؓ نے اُن سے حدیث پوچھی؛ انہوں نے سنائی (الادب المفرامام بخاری:۲۵۲۔ تذکرہ:۱/۳۸) انہوں نے سنی اور چلدیئے، علامہ عینیؒ فرماتے ہیں وہ حدیث غالباً یہ تھی: "عَنْ جَابِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَحْشُرُ اللَّهُ الْعِبَادَ فَيُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ كَمَايَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ أَنَاالْمَلِكُ أَنَاالدَّيَّانُ"۔ (بخاری،كِتَاب التَّوْحِيدِ،َباب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ﴿ وَلَاتَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّالِمَنْ أَذِنَ....) ترجمہ: حضرت جابرعبداللہ بن انیس سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے حضورﷺ کوفرماتے سنا، اللہ بندوں کوحشر میں ایسی آواز سے بلائے گا جس کوقریب اور بعیدوالے سب یکساں سنیں گے، فرمائیگا میں ہوں بادشاہ انصاف والا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ کی شخصیت کریمہ کس طرح جمع حدیث اور طلبِ علم میں منہمک تھی، آپؓ مجتہد صحابہؓ میں سے تھے اور حدیث کے مناطِ کلام پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے، مثلاً حضوراکرمﷺ نے فرمایا: "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ"۔ (بخاری،كِتَاب الْأَذَانِ، بَاب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْحَضَر،حدیث نمبر:۷۱۴، شاملہ، موقع الإسلام) کہ اُس شخص کی نماز نہیں ہوئی جوسورۂ فاتحہ نہ پڑھے۔ آپؓ نے فرمایا یہ اس شخص سے متعلق ہے جواکیلے نماز پڑھے، جوامام کے پیچھے نماز پڑھے اس پر سورۂ فاتحہ پڑھنا لازم نہیں، حدیث میں مرادِ رسول کوپہنچنا انتہائی گہرا علم ہے، امام احمد بن حنبلؒ جوامام بخاریؒ اور امام مسلم دونوں کے استاد تھے، حضرت جابر بن عبداللہؓ کی اس شرح حدیث سے بہت متاثر تھے، آپؓ فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے؛ مگریہ صاف فرماتے کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر نماز ہوجاتی ہے، امام ترمذیؒ لکھتے ہیں: "وَأَمَّاأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَاكَانَ وَحْدَهُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَيْثُ قَالَ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّاأَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَاكَانَ وَحْدَهُ"۔ (ترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَاجَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ،حدیث نمبر۲۸۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی حدیث "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" کامعنی یہ ہے کہ نمازی جب اکیلا نماز پڑھے توفاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی اور آپ نے حضرت جابرؓ کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی مگر جب کہ وہ امام کے پیچھے ہو، امام احمدؒ کہتے ہیں کہ حضرت جابرؓ حضورﷺ کے صحابی ہیں وہ حضورﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ بیان کررہے ہیں کہ حدیث "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ" سے مراد یہ ہے کہ نمازی جب اکیلا ہو۔ یہ دس مشاہیر کا تذکرہ ہے جوفقہاء صحابہؓ میں بہت ممتاز تھے ،ان کے علاوہ بھی کئی مجتہد صحابہؓ تھے جنھیں فقیہ تسلیم کیا گیا ہے، جیسے عمران بن حصینؓ (۵۲ھ)، حضرت ابوہریرہؓ (۵۸ھ) اور حضرت امیرمعاویہؓ (۶۰ھ) ان کے علم پر حضرت حسنؓ کوپورا اعتماد نہ ہوتا توکبھی خلافت ان کے سپرد نہ کرتے۔