انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فرض نماز کے بعد دعاؤں کا ثبوت ان تمام روایتوں سے یہ بات نہایت ہی وضاحت اورصراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ فرض نماز کے بعد دعاؤں کا مانگنا آپ ﷺ کا محبوب طریقہ تھا،اس باب میں آپ ﷺ سے قولی اور فعلی دونوں روایتیں منقول ہیں،محدثین حضرات نے اس پر باب باندھا ہے؛چنانچہ سنن ابو داؤد میں ،صفحہ۲۱۱،پرباب باندھا ہے۔ مایقول الرجل اذا سلم اورپھر دعائیں بیان کی ہیں،امام ترمذی نے بھی نماز کی دعاء پر باب قائم کیا ہے۔ (صفحہ:۱۹۶) محدث کبیر علامہ نووی نے کتاب الاذکار میں الاذکار بعد الصلوٰۃ پر باب قائم کیا ہے اور باب کے اخیر میں فضالہ بن عبید اللہ کی حدیث نقل کی ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تو خدا کی حمد وثناء کرو پھر درودشریف پڑھو پھر جو چاہو دعاء مانگو۔ (اذکارنووی:۱۰۲) محدث ہند صدیق حسن بھوپالی نے نزل الابرار میں باب الاذکار بعد الصلوٰۃ ذکر کرکے اس کے مسنون اورمشروع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (صفحہ:۹۷) شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی حجۃ اللہ البالغہ میں اسے مسنون ذکر کرتے ہوئے لکھا ہےاوراولیٰ یہ ہے کہ ان اذکار کو سنت مؤکدہ سے پہلے ادا کرے۔ محدث بھوپالی نے لکھا ہے کہ اجمع العلماء علی استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ (صفحہ:۹۷) اسی طرح علامہ نووی نے اذکار میں لکھا ہے اجمع العلماء علی استحباب الذکر بعدالصلوٰۃ وجاءت فیہ احادیث کثیر (صفحہ:۹۹) علماء نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد ذکر جس میں دعاء بھی ہو جیسا کہ نووی نے اذکار کی طرح دعاؤں کو بھی ذکر کیا ہے اوراس باب میں بہت سی احادیث ہیں؛چنانچہ صحاح ستہ خصوصا مسلم ابو داؤد، میں بکثرت نماز کے بعد کی قید کے ساتھ صریحی روایتیں ہیں،جن سے فرائض کے بعد دعاء کا صراحۃً ثبوت ہے ،فرائض کے بعددعاء واذکار کے قائل ائمہ اربعہ ہیں، شوافع کے یہاں بھی ہے چنانچہ ان کی مشہور کتاب فقہ فتح المعین میں ہے یسن ذکر ودعاء سراعقبھا ای الصلوٰۃ ای یسن الاسرار بھما لمنفرد وماموم (احسن الفتاویٰ:۳/۶۵) حنابلہ بھی دعاء بعد الصلوٰۃ کے قائل ہیں،شرح الاقناع میں ہے۔ یسن ذکر اللہ والدعاء والاستغفار عقب الصلوٰۃ المکتوبۃ اسی طرح مالکیہ بھی قائل ہیں وقد اکثر الناس فی ھذہ المسئلۃ اعنی دعاء الامام عقب الصلوٰۃ (صفحہ:۳/۶۵) معلوم ہوا کہ صرف احناف ہی دعاء کے قائل نہیں ؛بلکہ آئمہ اربعہ اس کے قائل ہیں، اسی وجہ سے احناف فرائض کے بعددعاء کے قائل ہیں؛چنانچہ نورالایضاح میں ہے: لا باس بقراءۃ الاوراد بین الفریضۃ والسنن (صفحہ:۸۲) حاشیہ کو کب میں ہے: ولیغتنم الدعاء بعد المکتوبۃ وقبل السنۃ علی ماروی عن البقالی من انہ قال الافضل ان یشتغل بالدعاء ثم بالسنۃ (المساعی المشکورۃ:۳۷) خیال رہے کہ دعاء ہاتھ اٹھا کر کرنا بھی ثابت ہے اسود نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز فجر پرھی سلام سے فارغ ہوئے تو ہاتھ اٹھا کر دعاء کی۔ (اعلاء السنن:۳/۱۶۴) اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں کے بعددعاء ہاتھ اٹھا کر مانگنی مسنون ہے،ہاتھ اٹھانا دعاء کے آداب میں سے ہے،حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا یہ دعاء ہے اوردونوں ہاتھوں کو کاندھے تک اٹھایا۔ (الدعاء للطبرانی:۲/۲۰۸) عمیر مولیٰ ابواللحم سے مروی ہے کہ انہوں نے مقام زورہ میں آپ ﷺ کو دعاء کرتے ہوئے دیکھا آپ ﷺ اپنے چہرے کی طرف ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے تھے کہ دونوں ہاتھ سر سے اوپر نہیں تھے۔ (ابن حبان،احسان:۲۰۹) حضرت سائب بن یزید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ دعاء فرماتے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اوردونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیر لیتے۔ (ابوداؤد:۲۰۹) ان تمام روایتوں اوراقوال کا خلاصہ یہ نکلا کہ فرض نمازوں کے بعد دعاؤں کا مانگنا ثابت ہے،آپ ﷺ سے قولا فعلا دونوں قسم کی روایتیں موجود ہیں، ائمہ اربعہ بھی اس کے قائل ہیں اور اسی پر امت کا شروع سے اب تک تعامل بھی ہے اوریہ دعاء ہاتھ اٹھا کر اوربغیر ہاتھ اٹھائے دونوں طرح ثابت اور درست ہے۔ لہذا فرض نمازوں کے بعد جو دعاء ہوتی ہے وہ بلاشبہ مشروع اورسنت ہے،اس کا انکار نادانی اورجہالت ہے۔ اس مسئلہ پر نہایت مفصل کلام شیخ محمد علی بن شیخ محمد حسین مکی نے رسالہ مسلک السادات الی سبیل الدعوات میں کیا ہے جس میں انہوں نے بسط سے احادیث اورائمہ اربعہ کے اقوال کو جمع کیا ہے، امداد الفتاویٰ جلد اول کے آخر میں یہ رسالہ ملحق کردیا گیا ہے تفصیل کے لئے اس رسالہ کی جانب رجوع کیجئے۔ مزید عاجز کی کتاب (مفتی محمد ارشاد صاحب قاسمی،جونپور)" سنت کے مطابق نماز پڑھیے" میں دیکھئے۔