انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اندلس میں مالکی مذہب کا فروغ قاضی یحیی بن یحیی مالکی کا اوپر ذکرآچکا ہے انہی قاضی صاحب کی کوششوں سے سلطان حکم کے زمانے میں قرطبہ کے اندر ایک خطرناک بغاوت ہوئی جس کے نتیجے میں قرطبہ کی آبادی کا پانچواں حصہ یعنی ایک دریا پار کا جنوبی نحلہ بالکل ویران ہوگیا اور بیس پچیس ہزار آدمیوں کو اندلس سے جلاوطن ہونا پڑا تھا مگر قاضی صاحب آخر میں سلطان حکم کے مصاحبوں اور مشیروں میں داخل تھے اب سلطان عبدالرحمن ثانی کی تخت نشینی کے بعد وہ سلطان عبدالرحمن کے مزاج میں بہت کچھ دخیل تھے ان کو قاضی القضاہ اور شیخ الاسلام کا عہدہ دینا چاہا لیکن انہوں نے انکار کیا اور اس انکار کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قاضی القضاۃ کے بھی افسر سمجھے جانے لگے،عوام ان کے بےحد معتقد تھے اور مذہبی معاملات میں ان کا فیصلہ سب سے آخری سمجھاجاتا تھا،قاضی صاحب بہت بڑے کثیر التصانیف شخص تھے وہ امام مالک کے شاگرد رشید تھے انہوں نے کئی سال تک حضرت امام مالک کی خدمت میں رہ کر علم دین حاصل کیا تھا اب سلطان عبدالرحمن کے عہد حکومت میں انہوں نے اپنے طرز عمل عمل کے اندر بہت بڑی تبدیلی پیدا کرلی تھی وہ جس کسی شخص کی سفارش محکمہ قضا میں کردیتے تھے وہ کبھی رد نہ ہوتی تھی لہذا ان تمام علماء نے جو کسی شہر یاقصبےکے قاضی بننا چاہتے تھے مالکی مذہب اختیار کیا اور اسی طرح قاضی یحیی کی نگاہوں میں عزت ومحبت کا مقام پیدا کرکے کہیں نہ کہیں کے قاضی بن گئے اس غیر محسوس طرز عمل نے چند روز میں تمام ملک اندلس کو مالکی مذہب کا پیرو بنادیا سلطان عبدالرحمن ثانی اپنے باپ کے زمانے سے امور سلطنت میں دخیل اور تمام حالات سے خوب واقف وتجربہ کار تھا لہذا اس نے احتیاط سے کام لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ مولویوں اور مولوی مزاج لوگوں کو اس کے خلاف لوگوں کو برانگیختہ کرنے کا کوئی موقع نہ ملے۔